• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

علی قریشی

 وطن عزیز میں آج کل عید قرباں کی تیاریاں زور و شور سے ہو رہی ہیں،جن میں سب سے زیادہ پر جوش اور جذبے سے بھر پور بچے اور نوجوان نظر آتے ہیں، بقر عید کے دنوں میں ان کی خوشی دیدنی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں، زمانے کے ساتھ ساتھ بہت سی چیزیں بدل گئی ہیں، لیکن کچھ شوق اور روایتیں ایسی ہوتی ہیں، جو وقت کے ساتھ کبھی نہیں بدلتیں، جیسے عید الاضحی کے دنوں میں نسل نو کا جوش و خروش ،ہمیشہ ہی سے دیدنی ہوتا ہے،ہر دور ہی میں نوجوان مویشی منڈی میں جانے کے لیے بے چین نظر آتے ہیں،ذی الحج کا چاند نظر آتے ہی، جہاں مویشی منڈیوں میں رش ہوجاتا ہے، وہیں، گلی محلّوں میں بھی خوب رونق لگ جاتی ہے، بالکل میلے کا ساسماں لگتاہے، قربانی کے لیے جانوروںکو گھر لانے کے بعد دوسرا مرحلہ ان کی سجاوٹ کاہوتا ہے۔جیسے جیسے مویشی منڈیوں میں جہاں قربانی کے جانوروں کی خریداری عروج پر پہنچ جاتی ہے، ویسے ویسے نوجوان اپنے پسندیدہ جانوروںکو سجانے اور سنوارنے لگتے ہیں۔ انہیں اس بات کی بالکل فکر نہیں ہوتی، کہ وہ جانوروں کی سجاوٹ پر کتنے پیسے خرچ کر رہے ہیں۔گزشتہ برس روشنیوں کے شہر کے باسیوں نے اپنے جانوروں کو جھانجھروں کے بہ جائے لائیٹوں سے بھی سجایا، کسی کو زیور تو کسی کو پھول، کسی کے گلے میں گھنٹی تو کسی کے سر پر تاج سجا یا۔نوجوانوں کا اپنے قربانی کے جانوروں سے لگاؤ کا یہ عالم ہوتا ہے، کہ خود سارا سارا دن میلے کپڑوں میں گھومتے رہیں، لیکن جانور کی صفائی ستھرائی، کا خوب دھیان رکھتے ہیں، ان کی زیبائش میں کوئی کمی نہیں رہنے دیتے۔ کچھ نوجوان اپنے قربانی کے جانور کو محلے کے دیگر جانوروں سے منفرد بنانے کے لیے ان پر مہندی بھی لگاتے ہیں ، خصوصاً دنبے، بھیڑ اور بکروں پر۔ بدلتے دور کے ساتھ اب منڈیاں بھی روایتی منڈیوں سے الگ دکھائی دیتی ہیں۔ پہلے دیہات سے لوگ اور گلہ بان اپنے جانور شہر میں لا کر بیچتے تھے، اب ان کے ساتھ پیشہ ور سرمایہ کار اور مارکیٹنگ کے لوگ بھی اس منڈی میں داخل ہو رہے ہیں۔بڑے بیوپاری بزنس کرنے کے لیےقربانی کے جانوروں کے فیشن شو کا انعقادکرتے ہیں۔ جانوروں کے نام مشہور فلموں اور اداکاروں کے نام پر رکھے جاتے ہیں ،تاکہ گاہگوں خصوصاً نوجوانوں اور بچوں کو متوجہ کیا جا سکے، نوجوان اور بچے بھی مویشی منڈی میں سیلفیاں بناتے،انہیں سوشل میڈیا پر پوٹ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پہلے زمانے میںبکرے کو صرف ’’بکرا‘‘ ہی کہا جاتا تھا، زیادہ سے زیادہ شیرو، شہزادہ نام رکھ دیا جاتا تھا، لیکن آج انہیں ڈان، بادشاہ، دبنگ اور فلموں کے مختلف کرداروں کے نام سے پکارا جاتا ہے، صرف اس لیے کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان ان کی طرف متوجہ ہو سکیں ۔ منڈی میں قائم مختلف کیٹلز ،فارم ہاؤسزاوربینکویٹ میں جانوروں کو جس شان و شوکت سے رکھا جاتا ہے، ان کے لیے جس عیش و عشرت کا اہتمام کیا جاتا ہے، غریب لوگ ویسی زندگی کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ جانوروں کودودھ ، اعلیٰ معیار کے جومیواجات کھلائے جاتے ہیں۔ پچھلے چند برسوں سے اس نمودو نمائش میں اس لیے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ، کہ نوجوان مہنگے جانوروں کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے، انہیں پسند کرتے ہیں۔ آج کا جانور فروش سیدھا سادا دیہاتی نہیں ، بلکہ سمجھدار بیوپاری ہے، جسے گاہکوں کی نفسیات کا اچھی طرح علم ہے، وہ جانتا ہے کہ یہ نسل ہر چیز کی نمائش کرنے کی شوقین ہے، پھر چاہے وہ قربانی کا جانور ہی کیوں نہ ہو۔ اسی لیے وہ ایک عام سے جانور کے فلمی نام رکھ کر، اسے اے سی ٹینٹ میں کھڑا کر کے مہنگے داموں فروخت کر تے ہیں۔مہنگے ترین جانوروں کے لیےالگ سے وی آئی پی بلاکس بنا دئیے جاتے ہیںاور خوب سجاوٹ اور تیز روشنیوں کے ساتھ ان مہنگے ترین جانوروں کووی آئی پی بلاکس میں کھڑا کر دیا جاتا ہے، جن کی قیمتیں لاکھوں میں ہوتی ہیں ۔مشاہدے میں آیا ہے کہ اب زیادہ تر نوجوان جانور کی نمائش پر زیادہ دھیان دیتے ہیں، تاکہ دوستوں کے سامنے ان کی ناک اونچی ہو سکے،لیکن قربانی کا گوشت تقسیم کرتے اور اس کے حصے کرتے وقت اپنے غریب ساتھیوں کے بارے میں نہیں سوچتے، لیکن بار بی کیو ،دعوت کا اہتمام ضرور کرتے ہیں۔ عید قرباں کے بعد ایک، دو، نہیں کئی ویک اینڈ پر بار بی کیو ٹونائٹ ہوتی ہے۔ خوب ہلّہ گُلّہ کرکے خوش ہوتے ہیں۔ لیکن نوجوانو! کبھی سوچا ہے کہ کیا قربانی کا مقصد صرف اتنا ہے کہ قربانی کرکے دعوتوں کا اہتمام کریں۔ ایک دوسرے سے بڑھ کر دسترخوان سجائیں، دکھاوا کریں؟ اگر آپ کی سوچ یہ ہے تو بہت غلط ہے۔ قربانی کا مقصد محض اللہ کی خوشنودی اور اجرو ثواب کا حصول ہوگا، تب ہی اس کا صلہ ملے گا۔آج اس مہنگائی کے دور میں کتنے ہی لوگ ایسے ہیں ،جوگوشت کی ایک ایک بوٹی کو ترس رہےہیں، ان لوگوں کو اپنی خوشیوںمیں نظر انداز نہ کریں اور قربانی کرتے وقت نمودو نمائش کے بہ جائے اللہ کی رضااور خوشنودی کا حصول ہو۔گوشت کی تقسیم کے وقت ایسے عزیز و اقارب ، دوستوں ،محلے داروں کو مد نظر رکھنا چاہیے، جو اس سال قربانی سے محروم رہے ۔عیدالاضحی مسلمانوں کے لیےخاص تحفہ خداوندی ہے ۔اس کی قدر کیجئے ،اپنے اندر تقویٰ ،وفاداری ، ایمانداری،جانثاری کے جذبات پیدا کرنے کی کوشش کریں۔قربانی کے جانوروں کی دیکھ بھال کرنا، ان کی خوراک کا خیال رکھنا اور انہیں سجانا اچھی بات ہے، لیکن مشاہدے میں آیا ہے ،کہ اکثر نوجوان جانوروں کی ریس لگواتے اور ان کی نمائش کرتے ہیں، جس سے نہ صرف اہلِ محلّہ تنگ ہوتے ہیں، بلکہ جانور بھی پریشان ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھیں ! عید الالضحیٰ ، ہمیں ایثار و قربانی کا درس دیتی ہے، جانوروں کو اذیت دینے ،تنگ کرنے یا انہیں دوڑانے سے گریز کریں۔

تازہ ترین