شمیم الدین غوری
عالم اسلام میں عید الاضحی منانےکی تیاریاںزور شور سے ہورہی ہیں،گھر گھر قربانی کے جانورہیں۔تین دن قربانی کے بعد گلی گلی کا منظر قابل دید ہوگا۔ہر جگہ جانوروں کی آلائشوں کا ڈھیر ہوگاجن سے بدبو بھی پھیلے گی اور موحول بھی آلودہ ہوگا۔گزشتہ سال آٹھ ملین سے زائد جانور وں کی قربانی پورے پاکستان میں کی گئی تھی۔ان میں سے ڈیڑھ ملین جانور کراچی شہر کی میونسپل حدود میں قربان کئے گئے تھے۔پاکستان کے سب سے بڑا شہر ہونے کے حوالے سے میئر کراچی کا یہ بیان، میونسپل کارپوریشن کے پاس اتنے جانوروں کی آلائشیں اٹھانے کا انتظام نہیں ہے بہت ہی تشویش ناک ہے۔
کراچی میں روزانہ بارہ ہزا ر ٹن کوڑا کرکٹ پیدا ہوتا ہے ۔اس میں سے چار ہزار ٹن کچرا روزانہ کراچی کی سڑکوں گلیوں ، میدانوں برساتی نالوں، لیاری ندی،ملیر ندی ،سرکلر ریلوے لائن اور دیگر جگہوں پر پھینک دیا جاتاہے۔عید الاضحی پر جب جانوروں کی آلائشیں پھینکی جاتی ہیں تو تین دن میںتین ملین ٹن کچرامزید بڑھ جاتا ہے،جس کا شہر سے اخراج کے لئے خاص طور پر بندوبست کرنا پڑتا ہے جو ہر سال ناکافی ہوتا ہے ۔ ان دنوں میں معمول کا کچرا اٹھانےکا کام رک جاتا ہے۔روزانہ کی بنیاد پر ان تین دن میں 36 ہزار ٹن سے زائد کچرا،اُٹھانے کی گنجائش ہی میونسپل سسٹم میں نہیں ہے۔ہر سال شہر سے دور دراز علاقوں میں آلائشوں کو دفن کر کے اس سے کھاد بنانے کا انتظام بلدیہ کرتی ہے۔
عید الاضحی کے دنوں میں کراچی کی ماحولیاتی آلودگی بڑھ جاتی ہے۔عیدسےکئی دن پہلے شہر میں قربانی کے جانور آنا شروع ہو جاتے ہیں۔قربانی ہونے تک ان کے بول براز شہر کے ماحول میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔جہاں جہاں جانور بندھے ہوتے ہیں وہاں بدبودار گیسیں ماحول کو گندہ کرتی ہیں۔گلیوں اور سڑکوں پرکھائے ہوئے چارے کی باقیات پڑی ہوتی ہیں۔شہر کی گلیوں میں جھاڑو اور صفائی کرنے کا رواج تو کب کا دم توڑ چکا۔قربانی اپنے گھر کے سامنے گلیوں بازاروں میں کی جانے لگی ہے، اس سے بہنے والا خون کچی گلیوںمیں جذب ہو کر اگلےکئی دنوںتک سوکھ کربدبو پھیلاتا رہتا ہے۔پکی گلیوں میں اسے گٹروں میں بہا دیا جاتا ہے۔پانی سے یہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوتا بلکہ پھیل کر بدبو پھیلاتا رہتا ہے۔قربانی دنیا کےدوسرے اسلامی ملکوں میں بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے اس کے لئے مناسب بندو بست کئے ہوئے ہیں۔راقم الحروف عید الاضحی کے موقع پر چین کے شہر گونگزو میں تھا ۔ ایک مسلم ہوٹل جو وہاں حلال ہوٹل کہلاتے ہیں اس میں پتہ کیا کہ نماز کہاں ہوگی؟اس نے کہا شہر سے باہر ایک میدان میں ہوگی۔اس نےہمیںعید الاضحی کے دن ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ وہاں ہم نے نما ز پڑھی۔ نماز کے بعد دیکھا کہ میدان کے ایک جانب کھلے ٹرکوں میں دنبے بک رہے ہیں۔
دستور وہاں کا یہ ہے کہ جب کوئی قربانی کا جانور لیتا ہے تو جیسے برائلر مرغی کی قیمت میں اس کا گوشت بنانا شامل ہوتاہے، اسی طرح دنبے کی قیمت میں اس کا گوشت بنانا شامل ہوتا ہے۔چاہیں تو اپنے ہاتھ سے چھری پھیر لیں۔ ساتھ ہی میونسپلٹی کے ڈبے رکھے ہیں۔تمام آلائش کچرا دان میں ڈال دی جاتی ہے ۔ تھوڑی تھوڑی دیر میں ایک کے بعد ایک ٹرک آکر کچرا دان خالی کر رہے تھے،نہ شہر میں آلودگی نہ کوئی قصائی تلاش کرنے کی پریشانی۔ اچھے بندوبست ،اچھی مثالیں جہاں سے بھی ملیں ہمیں اپنانی چاہئیں۔ایسا کو ئی بندوبست ہمیں بھی کرنا چاہئے۔
پاکستان کو سالانہ تیرہ سو ارب روپے کا نقصان ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ہورہا ہے۔اتنا تو ہمارا تعلیمی بجٹ بھی نہیں ہے۔ قربانی کے بعد آلائیشیں اٹھانے میں جہاں کچھ دیر ہوتی ہے وہیں اوجھڑی اٹھانے والے اسے کاٹ کر اندر کا فضلہ وہیں پھینک دیتے ہیں اور اوجھڑی لے جاتے ہیں۔یہ فضلہ فوری نہیں اٹھایا جاتا اس لئے کہ اٹھانے والےوہ بس اوجھڑی اٹھانے پر معمور ہوتے ہیں۔ عید الاضحی کے موقع پر بہت سے خانہ بدوش اندرون سندھ اور پنجاب سے کراچی کمانے کے لئے منتقل ہوتے ہیں۔ یہ اوجھڑی کی مصنوعات بناتے ہیں اس لئے یہ اسے کاٹ کر فضلہ بکھیر دیتے ہیں۔ ان ہی خانہ بدوشوں میں آنتوں سے چربی الگ کر کے بیچنے والے بھی شامل ہوتے ہیں ،اس عمل میں بے انتہا بدبو پھیلتی ہے۔ یہ خانہ بدوش آنتوں کا ذخیرہ شہر کے مختلف مقامات پر کر لیتے ہیں،بعد ازاں اس سے چربی الگ کرتے رہتے ہیں ۔ آنتوں کو صاف کر کے اس سے تانت اور دیگر اشیاء تیار کرتے ہیںاور آنتوں کا فضلہ ادھر ادھر پھینک دیتے ہیں، جس سے آلودگی پھیلتی ہے۔چربی خریدنے والے مقامی تاجر بھی جگہ جگہ چربی خریدنے کےا سٹال لگاتے ہیں۔جن سے چربی کی بو فضاء میں رچ بس جاتی ہے۔فضاء سانس لینے کے قابل نہیں رہتی۔چربی خریدنے والے شہر میں ہی اس کو گرم کر کے اس کا تیل نکالنے کا کام کرتے ہیں، جس سے ایک ناقابل برداشت بو فضاکو آلودہ کردیتی ہے۔
کراچی میں گزشتہ سال آلائشیں اٹھانے کا کام بہت سست رہا۔بہت سے علاقوں سے تو آلائشیں اٹھائی ہی نہیں گئیں،بہت سے علاقوں کے مکینوں کویہ شکایات رہیں اور آ لائشیں درد سر بنی رہیں۔میئر کراچی سارا دن اس کام کی نگرانی میں مصروف رہے لیکن گنجائش سے زیادہ کام کسی حد تک ہی ہو سکتا ہے۔جب بندوبست ہی آٹھ ہزار ٹن ہو تو بیس ہزار ٹن کا انتظام کیسے ہو سکتا ہے۔گلی محلّے کی کھلی فضاء جس میں مٹی پڑی ہو جہاں گرد، اڑہی ہو،گٹر کا پانی بہہ رہاہو،جہاں جانور کا بول براز کئی دن سے پڑا ہو،وہاںکیا حال ہوگا۔اسلام میں صفائی کی کتنی اہمیت ہےاس کا سب کو علم ہے،پھر کیوںاس پر توجہ نہیں دی جاتی متعلقہ ادارے یہ تو کہتے ہیں کہ مذبح خانے سے آنے والی گاڑیاںڈھکی ہونی چاہئیں لیکن جب یہ کُھلی اورسڑک سے گاڑیاں دھول اڑاتی ہوئی گزرتی ہیں۔اگرمناسب بندوبست گھروں محلوں گلیوں سڑکوں پر قربانی کرنے کے بجائے صاف ستھرے سرکاری یا پرائیویٹ مذبح خانوں میں ہو جائے تو شہر آلودگی سے بچ سکتا ہے۔اگر لوگوں کو تسلی بخش قربانی کی جگہیں دستیاب ہوں اور لوگوں کو قربانی کی سہولت ملے تو شہر کی آلودگی میں کمی آسکتی ہے۔اس روش کو اگرچہ مدارس نے کسی حد تک جاری کیا ہے لیکن صرف قربانی کے جانور کے حصہ داروں تک محدود رکھا ہے۔اگر اسے عام لوگوں کی قربانی کے جانور بھی فیس لے کر قربان کئے جائیں تو لوگ اسے پسند کریں گے۔
ایک ایسے اسلامی ملک میں جس میں ہر سال قربانی ہوتی ہے۔تمام ملک کو معلوم ہے کہ قربانی ہونی ہے ، ایسے میں آلائشوں کا شہروں میں ایسے ہی پڑے رہنا اور مناسب بندوبست نہ ہونا ہماری قومی بے حسی اور اداروں کی ناکامی کا ثبوت چار سو پھیلا دکھائی دیتاہے۔گلی محلے میں ہر طرف پھیلا خون،آنتیں،اوجھڑیاں اور جانوروں کے دیگر اجزاء آلودگی تو پھیلاتے ہیں ساتھ ۔لال بیگ چوہے،چھچھوندر،کتے بلیاں ان آلودہ الائشوں پر پل کر انسانوں میں بیماریاں پھیلاتے ہیں۔اداروں اور لوگوں کو سوچنا چاہیے اور اس کامناسب بندو بست کریں۔عوام یہ سوچ کر کسی بھی خالی جگہ جانوروں کی باقیات چھوڑ دیتے ہیں کہ کوئی آئے گا اور اٹھا کر لے جائے گا۔یہ کئی کئی دن وہاں پڑی سڑ رہی ہوتی ہیں اور آلودگی پھیلا رہی ہوتی ہیں۔ اس کا بندوبست لوگوں کو خود کرنا ہے یا اداروں سے رابطہ کرنا ہے،یہ سوچنا ضروری ہے۔بندوبست کیا جائے تو کیا نہیں ہو سکتا۔جگہ جگہ آلائشوں کی بدبو،گلیوں بازاروں میں خون ہی خون،ہر نکڑ پر بدبو دار چربی کاا سٹال، طبیعت کو پراگندہ کرنے والے آنتوں سے چربی کو الگ کرنے کے نظارےاور جگہ جگہ قربانی کے جانوروں کے پھینکے ہوئے اجزاء۔یہ ہماری بدانتظامی ہے۔
کراچی جو پونے تین کروڑ آبادی کا شہر ہے جس میں پہلے ہی فضائی آلودگی ساری دنیا سے زیادہ ہے۔اس میں آلائشوں سےمزید آلودگی پھیل جاتی ہے۔ جو لوگ قربانی کرتے ہیں انہیں ایک ذمہ دار شہری کا فرض ادا کرنا چاہیے۔ گلیوں سڑکوں پر آلائشیں اور دیگر اجزاء پھینکنے سےگریزکرنااورانہیںاٹھانے کے لئے اداروں سے رابطہ کرنا چاہیے۔اداروں کو بھی اپنا فرض ادا کرنا چاہیے،صرف یہ کہہ دینا کہ ہمارے پاس اتنے کچرے کو اٹھانے کا بندوبست نہیں ہے۔شہریوں کو بیماریوں کے ذریعےموت کے منہ میں دھکیلنا ہے۔اگر محکمہ صحت ہرسال عید الاضحی کی آمد سے قبل لوگوں کو کچھ آگاہی دےاُنہیں بتائےکہ کھلے آلودہ ماحول میں کیا کیا بیماریاں پھیل سکتی ہیں، گوشت کن کن جراثیم سے آلودہ ہو سکتا ہے۔ آلائش کے پڑے رہنے سے کون کون سی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں تو ماحولیاتی آلودگی کے مسائل کم ہو سکتے ہیں۔اب تو سوشل میڈیا کا ایسا چلن ہو گیا ہے کہ کوئی بھی کام کی بات جس میں کوئی بھلائی ہو وہ لوگ خود بخود ایک واٹس اپ کے ذریعے اپنے پیاروں کو بھیج دیتے ہیں ۔ اگر محکمہ صحت کی جانب سے بھی اشتہاری کمپنیوں کی طرح ایسی کوئی ہدایات عوام کو بھیجی جائیں تو عوام کو آگہی ہوگی اور آگہی اپنا اثر رکھتی ہے۔