• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سلمٰی حسین

عام طور پر مغل معاشرہ اور اس کی ثقافت کو دربار کی شان و شوکت مغل حکمرانوں کے جاہ و جلال اور امراء کی خوشحالی سے جانچا پرکھا اور دیکھا گیا ہے ، اسی وجہ سے مغل دور حکومت کو ہندوستان کی تاریخ کا سنہری دور کہا جا تا ہے، اس سنہری دور کی نشانیاں آج تک محلات، باغات، قلعے، دروازے اور بارہ دریوں کی شکل میں موجود ہیں، جو عظمت رفتہ اور قصہ پارینہ کی یاد دلاتی ہیں، اس طرح جب ہم تاریخ میں مغل دربار کی رسومات، تفریحات، تہواروں، جشنوں اور جلوسوں کی شان و شوکت کےبارے میں پڑھتے ہیں تو ذہن یہی تصور قبول کرتا ہے کہ مغلوں نےہندوستان کو عظمت کی بلندیوں تک پہنچا دیا تھا۔ 

مغلیہ دور کی مصوری ،موسیقی، علم وادب، شعروشاعری، فن تعمیر اور انتظام سلطنت نےان کی حکومت کو دنیا کی دوسری عظیم سلطنتوں سے ممتاز کر دیا تھا۔ مغل حکمرانوں کی انسان دوستی اور انصاف پسندی کے واقعات سےیہی تاثر ملتا ہے کہ ان کےعہدمیں رعیت خوشحال، امن وامان اور چین کی زندگی گزاررہی تھی- شہری زندگی میں ثقافت کے دوسرے پہلوؤں پر توجہ دی جاتی تھی۔ – مثلا قلعے، جو پہلے حفاظت کےلئے بنتےتھے،پھر خوبصورتی کےلئے تعمیر ہونے لگے محلات و باغات ،میناروں و برجوں اور مقبروں کی عمارتو ںميں نزاکت آنے لگی، لباس، کھانے، رہائش کے سازو سامان، تہوار، جشن ،تفریحات ،مشغلوں اور کھیلوں میں جدتیں ہونے لگیں اس مرحلہ پر ان ماہر فن کاروں اور کاریگروں کی ضرورت ہوتی تھی جو حکمران طبقے کےلئے جدید سے جدید چیز یںتیار کرسکیں ۔– حکمران طبقے کی خوشحالی کے ساتھ ہی شاعروں ادیبوں اور مورخیں کی سرپرستی کی جاتی، موسیقی ورقص کی محفلیں منعقد ہوتیں اورجمالیاتی احساسات کی تکمیل کے لئے مصوری کو ترقی دی جاتی ،ان سرگرمیوں نے ایک اعلی ثقافت کو جنم دیا۔ – مغل ثقافت رفاہی مرحلوں سےگزر کر اپنے عروج پر پہنچی – ۔ مختلف مغل شہنشاہوں کے دور میں مختلف فنون نے ترقی کی۔سب سے پہلے1549 دو ایرانی مصوروں کو داستانِ امیر حمزہ کو تصویری شکل میں پیش کرنے کو کہا انہوں نے یہ کام تقریباً 1400 کپڑے پر بنی ہوئی بڑی پینٹنگز کے ساتھ مکمل کیا ، اس طرح ہندوستان میں مصوری کی ایک باقاعدہ روایت کا آغاز ہوا۔

اکبربادشاہ کا دور فنون لطیفہ کے لحاظ سے کافی زرخیز ثابت ہوا ۔ اس دور میں فن تعمیرات، فن خطاطی اور دوسرے اسلامی فنون ایرانی، ترکی اور ہندوستانی امتزاج سے اک نئی شکل میں آئے۔ فن تعمیرات میں سب سے قدیم مغل یاد گار بادشاہ ہمایوں کا مقبرہ ہے ،جو اکبر کے دور میں بنایا گیا تھا۔ اس مقبرے کو’’ میرک مرزا گیاس ‘‘نے ڈیزائن کیا تھا ،اسی دور میں آگرہ میں لازوال مغل تعمیرات اکبر کے دور میں ہوئیں۔ اکبر نے فتح پور سیکری کے نام سے ایک شہر آباد کیا تھا جس کا زیادہ تر حصہ مغلیہ تعمیرات کی خصوصیات کا حامل تھا۔ یہ شہر 1585 میں ترک کر دیا گیا ۔اکبر نے مقامی پینٹرز تیار کرنے کے لیے ایک اکیڈمی بھی بنائی، جس میں ایرانی پینٹرز مقامی لوگوں کو تربیت دیتے تھے۔

شاہ جہاںنے تاج محل بنوا کر مغلیہ فن تعمیر کو بام عروج تک پہنچا یا۔ شاہ جہان نے دہلی میں لال قلعہ بنوایا اور دوسرے فنون کو بھی بام عروج عطا کیا۔ مغلیہ فنون لطیفہ کا دورِ عظمت جو ہمایوں سے شروع ہوا تھا وہ اورنگزیب عالمگیر کے دور حکومت تک آکر ختم ہو گیا۔ اسی دور میں مغلیہ اکیڈمی کو بھی ختم کر دیا گیا اور بہت سے فن کار مغل دربار چھوڑ کر علاقائی درباروں سے جڑ گئے۔

مغلیہ دور کی یاد گار تعمیرات نہ صرف فن تعمیرات کا اعلیٰ نمونہ ہیں بلکہ پوری دنیا میں اپنی مثال آپ ہیں۔، جیسے بادشاہی مسجد لاہور ،جو اورنگ زیب نے تعمیر کروائی ،اسی طرح نولکھا محل تعمیر کرایا، چونکہ اس پر لاگت نو لاکھ آئی تھی اس لیے اس کا نام نو لکھا محل پڑ گیا۔اسی طرح اعتماد الدولہ کا مقبرہ جو آگرہ میں واقع ہے، اس کو بے بی محل اور تاج محل کا ابتدائی نمونہ بھی کہا جاتا ہے ،کیونکہ یہ نور جہاں نے اپنے باپ’’ مرزا گیاس بیگ‘‘ کی یاد میں تعمیر کروایا تھا، اسی طرح لاہور قلعہ، شالیمار باغ، مسجد وزیر خان، قلعہ آگرہ، مسجد وزیر خان، اور شاہ جہان مسجد ٹھٹھہ اپنے دور کی عظیم یادگاریں ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ، ایک خاص علاقے اور دور کے فنون لطیفہ میں اس دور کے سماجی ، سیاسی، اخلاقی، مذہبی، اجتماعی اور معاشرتی عوامل کا بڑا ہاتھ ہوتا ہے۔

مغلوں کی تاریخ کے اوراق الٹنے کے بعد یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ مغل فن مصوری ہندوستانی فن مصوری کی تاریخ میں نہ صرف حسین حادثہ ہے ،بلکہ ایک حسین اضافہ بھی ہے۔وہ چیزیں جو مغلوں کے ہاتھوں رواج پائيں، ان میں تزئین کاری اور شبیہ سازی قابل ذکر ہیں۔ مغل فن مصوری نے کئی تاریخی مراحل طے کیے اور کئی خاندانوں کے ہاتھوں ترقی کے ان مدارج کو پہنچی۔

منگولوں سے فن مصوری کا آغاز ہوا تو تیموروں نے اسے اپنے خون سے سینچا اور ایران کے صفوی بادشاہوں نے اس کی ناز برداری کی۔

14 ویں صدی سے 16 ویں صدی تک ایران کی فن مصوری تزئین کاری تک محدود تھا، کیونکہ درباروں میں کتابوں کی تزئین کا رواج عام تھا۔ اس دور میں ہرات اور بخارا اس کا مرکز رہے۔ عباسی خاندان کے حکمرانوں نے اس فن کو آگے بڑھایا۔

منگولوں کے متواتر حملوں سے علوم و فنون کی ترویج میں بڑی رکاوٹ آئی، سیاسی انتشار نے لوگوں کے سکون کو درہم برہم کر دیا لیکن جلد ہی ان کی تلواریں نیام میں چلی گئیں۔ درباروں میں فنون پر دسترس رکھنے والے جمع ہوئے اور پھر ایک بار سمرقند اور بخارا ماہرین فن سے بھر گيا۔

بابر فنون لطیفہ کا بڑا دلدادہ تھا۔ شاعری، مصوری اور فلسفے میں اسے بڑی دلچسپی تھی۔ تزک بابری میں ایران کے مشہور مصور بہزاد کے قلم کی بڑی تعریف کی ۔ بابر کا یہ ذوق موروثی تھا۔ تیمور کی طرح وہ بھی جلال و جمال کا پرستار تھا،افسوس کہ زندگی کی رزم آرائيوں نے اسے مہلت نہیں دی اور جب ماہرین فن کی سرپرستی کا وقت آيا توداعی اجل کو لبیک کہا۔ہمایوں بھی اپنے والد بابر کی طرح جمالیات کا دلدادہ تھا۔ ایک دن کی بات ہے کہ ایک خوبصورت سی فاختہ کہیں سے آ نکلی۔ شہنشاہ نے دوڑ کر اسے پکڑ لیا اور مصوروں کو بلواکر اس کی تصویر بنائی اور پھر اسے آزاد کر دیا۔ ایران کے دور اقامت میں ہمایوں کی کئی نامور مصوروں سے ملاقات ہوئی جو بعد میں ان کی دعوت پر ہندوستان آئے اور یہیں سے مصوری کے ایک نئےا سکول کی ابتدا ہوئی جو بعد میں مغل فن مصوری کے نام سے مشہور ہوئی۔ایرانی مصوروں نے مصوری کے ایسے معجزے دکھائے، کہ اگر حادثات زمانہ اور انقلابات وقت سے محفوظ رہ جاتے تو لوگوں کو محو حیرت بنائے رہتے۔ میر سید علی اور عبدالصمد نے چاول کے دانے پر چوگان کا پورا میدان دکھایا ،جس میں تماشائیوں سمیت کھلاڑیوں اور گھوڑوں کی شبیہیں تھیں۔ایران اور ہندوستان کے امتزاج سے انڈیا میں ایک نیا رواج ظہور پزیر ہوا۔عبدالصمد نے ہندوستانی مصوروں کی مدد سے داستان امیر حمزہ کی تزئین کا کام سر انجام دیا اور بادشاہ سے نادرالعصر کا خطاب حاصل کیا۔

بادشاہ جلال الدین محمد اکبر کے دور میں بھی فن مصوری کی تجدید ہوئی۔ ایرانی اور ہندوستانی مصوروں کی اتنی بڑی تعداد اس سے قبل کبھی کسی دربار میں اکٹھا نہیں ہوئی تھی۔ دو مختلف مزاج کے مصور جب مل بیٹھے تو ان کے قلم میں یکسانیت آئی اور اکبر کا دربار فن مصوری کا گہوارہ بن گيا۔

اکبر کے عہد کی معروف کتاب آئين اکبری میں درج ہے، اکبر نے درباری مصوروں کو اپنے دادا کی کتاب بابر نامہ کی تزئین کا کام سپرد کیا اور تزئین کاری کو فروغ دیا۔ رزم نامہ، تیمور نامہ، خمسۂ نظامی اور بہارستان کی تزئين کاری اکبری عہد کا انمول خزانہ ہیں۔

بادشاہ جہانگیر زندگی کو حسن کے آئینے میں دیکھنے کا قائل تھا اور کم و بیش شاہجہاں کی بھی یہی حالت تھی۔ جہانگیر کو شراب و جام سے بہت قرب حاصل رہا، چنانچہ اس زمانے کی مصوری میں یہی علامتیں جلوہ گر نظر آتی ہیں۔شاہجہانی دور میں طلائی کا کام ہویدا ہوا۔ معروف مورخ بنارسی پرشاد سکسینہ کے مطابق تصویروں میں طلائی کاری اثر فن تعمیر کے زیر اثر آيا، کیونکہ شاہجہاں نے تاج محل کی تعمیر میں طلائی کاری پر بڑا زور دیا تھا۔شاہ جہاں کی طرح ان کا بڑا بیٹا دارا شکوہ بھی مصوری کا بڑا دلدادہ تھا اور ان کا مرقع انڈو ایرانی فن میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔

اورنگزیب کو ذاتی طور پر اس سے کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن دربار کے امرا میں اس فن کا چرچا تھا۔ اورنگزیب کے قیام دکن نے بہت سے لوگوں کو دکن کا ساکن بنا دیا۔ پیسہ حاصل کرنے کے لیے مصوروں نے عوام کی دلچسپی کی چیزیں بنانا شروع کیں تاکہ فروخت میں آسانی ہو۔

کہا جاتا ہے کہ مغل بادشاہ اکبر نے رات میں روشن گیند سے چوگان کی ابتدا کی تھی لیکن اس پورے میدان کو چاول کے دانے پر دکھانے کا کارنامہ مغل دربار کے مصور عبدالصمد نےکیا تھا۔

اس طرح دکن میں مصوری کے ایک نئےا سکول کی ابتدا ہوئی اور فن مصوری دربار سے نکل کر عوام تک پہنچی۔ دکن کے علاوہ مصوروں کے کئی کنبے مختلف سمتوں پر نکل پڑے، جن میں سے کچھ اودھ کے دربار میں آ گئے، کچھ پٹنہ چلے گئے کچھ اورنگ آباد اور حیدرآباد چلے گئے۔

تازہ ترین