• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے، جن کی رگ رگ میں ماں کی محبت بسی ہوتی ہے، بلاشبہ میری ہر بھلائی کا کریڈٹ میری ماں کو جاتا ہے کہ اگر ان کی دی ہوئی تعلیم و تربیت اور قدم قدم پر رہنمائی شاملِ حال نہ ہوتی، تو شاید میں یہ سطور لکھنے کے قابل بھی نہ ہوتا۔ میں نے مشرقی پنجاب کے شہر، کپور تھلہ کے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی، جہاں تعلیم صرف لڑکوں ہی کے لیے نہیں، بلکہ لڑکیوں کے لیے بھی انتہائی ضروری سمجھی جاتی تھی۔ میرے خاندان کے بزرگوں نے علم کی ترویج کے لیے لڑکیوں کا ایک اسکول قائم کیا تھا، جہاں دینی و دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف زبانیں بھی سکھائی جاتی تھیں۔ میری والدہ نے انگریزی اور فارسی اپنے والد یعنی میرے نانا، ڈاکٹر سرجن میجر صادق علی سے اور عربی اپنے سسر، یعنی میرے دادا سے پڑھی، جب کہ اردو، پنجابی اور گرنتھی اسکول سے سیکھیں۔ انہوں نے ہومیو پیتھک کا باقاعدہ کورس کرکے طبیبہ کی سند بھی حاصل کی تھی۔ قدرت نے انہیں بے پناہ ذہانت اور صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ مزید برآں، ان میں ایک خوبی یہ بھی تھی کہ وہ گم شدہ افراد یا اشیاء کی بازیابی کے حوالے سے درست نشان دہی کردیتی تھیں۔ اس سلسلے میں لوگ دور دور سے ان کے پاس آتے تھے۔ علاقے کی غریب خواتین کی فلاح و بہبود کے لیے ایک انجمن بھی قائم کررکھی تھی اور وہ علم کو’’ رواں دریا‘‘ کہتی تھیں۔

والدہ کو میری دادی سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا اور اپنی ساس ہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انہوں نے علم کو دلیل اور مستند حوالوں سے پھیلانے کا عمل جاری رکھا۔ دادی کا یہ معمول تھا کہ عشاء کے بعد گھر کے کام کاج سے فراغت کے بعد خاندان کی خواتین اور لڑکیوں کو حویلی میں جمع کرکے ان سے باری باری پوچھتیں کہ انہوں نے آج کون سی کتاب، مضمون یا کہانی پڑھی، پھر کسی سے کہتیں کہ اس کتاب یا مضمون کا خلاصہ سنائو، اس کے لکھنے والے کا نام، ناشر کا نام بتائو اور یہ بھی کہ اس سے کیا سبق سیکھا۔ غرض، ہر روز تقریباً ڈھائی تین گھنٹے کی نشست میں کوئی فضول بات نہیں ہوتی تھی۔ برادری کے بچّے بھی آجاتے تھے، سب نہایت دل چسپی سے ان کی باتیں سنتے۔ ان دنوں قیام ِپاکستان کی تحریک زوروں پہ تھی اور ہم کپور تھلہ میں مقیم تھے۔ ہمیں یہ یقین تھا کہ مشرقی پنجاب کی جن ریاستوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہ پاکستان میں شامل ہوں گی، مگر انگریز اور ہندوئوں کے گٹھ جوڑ سے ایسا نہیں ہوسکا اور ہم پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ ہندوستانی فوج نے ہمیں زبردستی گھروں سے نکال کر جالندھر کے کیمپوں میں پہنچادیا، وہاں بھی اَن گنت مسائل کے باوجود میری والدہ نئی نسل کو درس وتدریس کے زیور سے آراستہ کرنے میں لگی رہیں۔ وہ آنے والے دَور کے بارے میں ہمارا ذہن تیار کرنے کا کام بہ حسن وخوبی سرانجام دے رہی تھیں۔ ان کا ایک جملہ مجھے آج بھی یاد ہے۔ انہوں نے کہا تھا ’’بچو! جب کوئی نیا گھر تعمیر ہوتا ہے، تو اس کی تعمیر میں مٹّی، پانی، ریت، پتھر اور سیمنٹ استعمال ہوتا ہے، پھرجب یہ مکمل ہوجاتا ہے، تو انسان اس کی آرائش کے لیے مختلف جتن کرنے لگتا ہے۔ قالین، فانوس اور فرنیچر سے اسےسجاتا ہے۔ پس، تم لوگ یہ بات ذہن میں بٹھالوکہ ہم جس جگہ جارہے ہیں، وہی ہمارا گھر (پاکستان) ہے۔ تمہیں اپنی محنت اور مشقّت سے اس کی آرائش و زیبائش کرنی ہے۔ اپنے ماضی کو یاد رکھنا اور اس کی مدد سے مستقبل کو سنوارنا۔‘‘

یہ تھا میری والدہ کا پہلا سبق، جو انہوں نے پاکستان میں قدم رکھنے سے قبل ہمیں ذہن نشین کروایا۔ ہم نے ان کی باتیں اچھی طرح گرہ میں باندھ لیں، پاکستان کی سرحد میں داخل ہوتے ہی سب نے سجدئہ شکر ادا کیا۔ پھر کچھ عرصے بعد ہم بہاول پور منتقل ہوگئے۔ وہاں میرے ابّو نے اپنے ایک رشتے دار سے پانچ ہزار روپے ادھار لے کر نئے سرے سے زندگی کا آغاز کیا۔ کچھ عرصے بعد جب ہمارے مالی حالات بہتر ہوئے، تو ابو نے قرض کی پوری رقم لوٹادی۔ یہ 1949ء کے شروع کی بات ہے۔ اِن دنوں کیمیکل ملی ایک نئی کھاد مارکیٹ میں آئی تھی، جس کے بارے میں بتایا گیا کہ اس کے استعمال سے فصلیں بہت اچھی ہوجائیں گی۔ چچا نے کھاد خریدنے کے لیے سب سے مشورے مانگے، تو والدہ نے کہا، ’’اگر تم کیمیکل زمین میں ڈالوگے، تو لامحالہ اس کا اثر اناج پر بھی ہوگا۔ مصنوعی چیز تو مصنوعی ہی ہوتی ہے۔ اگرچہ، اس کھاد سے پیداوار تو بڑھ جائے گی، مگر اس کے کیمیکلز سے حاصل ہونے والی اجناس کے استعمال سے انسانوں سمیت مویشیوں میں ایسی بیماریاں جنم لیں گی، جن کے بارے میں کبھی کسی نے سوچاتک نہ ہوگا۔ معذوروں کی تعداد میں اضافہ ہوگا، اچانک اموات کے واقعات بڑھ جائیں گے اور دماغی خلل کی ایسی بیماریاں جنم لیں گی کہ، جو سمجھ سے بالاتر ہوں گی۔‘‘ اگرموجودہ دَور میں جنم لینے والی طرح طرح کی موذی بیماریوں کا ماضی کے تناظر میں جائزہ لیا جائے، تو پتا چلتا ہے کہ آج کئی دہائیوں بعد ان کی پیش گوئی واقعی درست ثابت ہونے لگی ہے۔میڈیکل سائنس کی بے پناہ ترقی کے باوجود مصنوعی کھاد استعمال کرنے والے ممالک کے لوگ مختلف اقسام کی بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں، جن میں شیزوفرینیا، ذیابطیس، امراضِ قلب اور کینسر سمیت دیگر کئی اقسام کے خطرناک امراض سرِفہرست ہیں۔

میری والدہ بچپن میں جب مجھے کوئی نصیحت کرتیں، تو روزمرّہ کی باتوں کے دوران کوئی ایسا واقعہ سناتیں کہ وہ میرے کچّے ذہن میں سبق بن کر نقش ہوجاتا، انہوں نے خاص طور پر گھر میں ایک وسیع کتب خانہ بنایا تھا، اس سے ملحقہ ایک وسیع گیلری نما مستطیل کمرا بھی تھا، جس میں ہمارے ابائو اجداد کی تصاویر، مختصر سوانح کے ساتھ دیواروں پر آویزاں تھیں۔ خواتین کی تصویروں کی گیلری الگ تھی، وہ اکثر مجھے ان شخصیات کی خدمات کے بارے میں بتاتی رہتیں، انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر تم نے بھی اپنے بزرگوں جیسی خدمات انجام دیں، توتمہاری تصویر بھی اس گیلری میں لگ سکتی ہے۔ وہ کہتی تھیں کہ دولت اور شہرت کے پیچھے کبھی نہیں بھاگنا چاہیے، دین اور دنیا کی بھلائی اور اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کے لیے کی گئی محنت، مرنے کے بعد بھی صدقہ جاریہ کی صورت زندہ رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اچھی نیّت پر اچھا اجر عطا فرماتاہے۔‘‘ مختصر یہ کہ میری والدہ کی تربیت اور ان کی بیش بہا خوبیوں سے نہ صرف ان کی اولاد بلکہ ہروہ شخص مستفید ہوا، جس کی فلاح و بہبود میں ان کی نیک نیّت، خلوص اور محنت شامل تھی۔ انہوں نے اپنی علمی و روحانی صلاحیتوں سے اپنے اردگرد کے ماحول کو ہمیشہ روشن رکھا۔ گرچہ ان سے بچھڑے نصف صدی ہونے کو ہے، مگرشایدہی میرا کوئی دن ایساگزرا ہو، جب ان کی کسی ایک نصیحت نے میری رہنمائی نہ کی ہو۔

(ڈاکٹر سیّد امجد علی جعفری، کراچی)

تازہ ترین
تازہ ترین