• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ سولہ سترہ سال پہلے کی بات ہے۔ ان دنوں میں اپنے کام کے سلسلے میں کراچی میں مقیم تھا۔ میں کوئٹہ کا رہنے والا ہوں، مجھے صوفیوں اور درویشوں سے بہت لگائو ہے۔ کراچی میں بھی جب کوئی ایسے بزرگ کا ذکر کرتا، میں فوراً ان سے ملنے پہنچ جاتا۔ یہاں میرا زیادہ تر وقت گل فراز خان نامی ایک شخص کے ساتھ گزرتا تھا۔ وہ ہمارے شہر اور قبیلے کا تھا۔ کراچی میں اس کی کپڑے کی دکان تھی، جس سے اچھی گزر بسر ہورہی تھی۔ دکان سے ملحق کمرے میں اپنی بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہا تھا، لیکن اولاد کی نعمت سے محروم تھا۔ کراچی میں رہائش کے دوران جب میری اس سے راہ و رسم بڑھی، تو ایک روز اس نے بتایا کہ ’’میرا ایک ہی بھائی تھا، والدین کا ایک حادثے میں لڑکپن ہی میں انتقال ہوگیا، تو ہم دونوں بھائیوں نے خوب محنت مشقّت کی۔ گلی گلی کپڑےبیچ کرکچھ رقم اکٹھی کی اور ارادہ کیا کہ مارکیٹ میں کرائے پر ایک دکان لے کرکاروبار شروع کیا جائے۔کچھ عرصے بعد ہمیں بازار میں ایک اچھی دکان کی خبر ملی، تو میرا چھوٹا بھائی ،دکان کے مالک سے کرائے وغیرہ کے معاملات طے کرنے کے لیے صبح ہی روانہ ہوگیا، ابھی اسے گئے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ یہ اندوہ ناک خبر ملی کہ اس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا اور وہ موقعے ہی پرجاں بحق ہوگیا۔ بھائی کی موت نے مجھ پر گہرا اثر ڈالا۔ مَیں،جو پکّا نمازی اور عبادت گزار تھا، بھائی کی موت کے بعد نماز ، روزے سب چھوڑ کر اللہ میاں سے خفا سا ہوگیا۔ پھر دکان لینے کا ارادہ ترک کرکے وہ شہر ہی چھوڑ دیا، جس میں میرے بھائی کی یادیںمجھے ستاتی تھیں۔ بیوی کو لے کر کراچی آگیا، مگر شادی کے پندرہ سال بعد بھی اولاد نہ ہونے سے خاصا دکھی ہوں۔ میں نے اپنے طورپر ہر طرح کا علاج معالجہ کروایا۔ جس نے بھی کسی اچھے ڈاکٹر یا پیر فقیر کے آستانے کا پتا دیا، وہاں پہنچا ،مگر ہر جگہ وقت اور پیسا برباد کرنے کے باوجود مایوسی ہی میرا مقدر ٹھہری اور بیوی سے شدید محبت کی وجہ سے دوسری شادی کا سوچنا بھی گوارا نہیں کرتا۔‘‘ گل فراز خان کی دکھ بھری داستان سننے کے بعد میں اسے صرف تسلّیاں ہی دے سکتا تھا۔ اسے نماز کے وقت مسجد چلنے کو کہتا، تو وہ منہ پھیر لیتا۔ لیکن چوں کہ میری رہایش اس کے گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھی، اس لیے ہر دوسرے تیسرے روز اس سے ملنے چلا جاتا تھا۔

ایک روز میں اس کی دکان پر گیا، تو وہاں ایک خوش شکل اور پڑھا لکھا نوجوان بیٹھا تھا۔ گل فراز نے اس سے میرا تعارف کروایا۔ اس کے پاس معلومات کا خزانہ تھا۔ اسے سیاست، مذہب اور حالاتِ حاضرہ پر خاصا عبور تھا، اس کی خوش گفتاری کی وجہ سے میں توجّہ سے اس کی باتیں سننے لگا۔ دورانِ گفتگو پتا چلا کہ وہ بھی ولیوں، صوفیوں کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس نے بتایا ’’آج کل ایک پیر صاحب کا بڑا چرچا ہے، کہتے ہیں کہ انہیں ولی اللہ کا درجہ حاصل ہے۔ اللہ کے بہت برگزیدہ بندے ہیں اورلوگوں سے بہت کم ملتے ہیں۔ تعویذ، گنڈوں کے بہ جائے صرف پندو نصائح سے بندے کا باطن صاف کردیتے ہیں۔‘‘

میں نے ان سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا، تو اس نے کہا ’’میں بھی ابھی تک ان سے نہیں ملا، کل چھٹی ہے، دس بجے ادھر ہی آجانا، ہم دونوں اکٹھے چلیں گے۔‘‘میں نے گل فراز سے بھی چلنے کو کہا، تو اس نے صاف انکار کردیا، کہنے لگا۔ ’’میں پیروں، فقیروں کے چکّر میں پہلے ہی لاکھوں روپے برباد کرچکا ہوں، آج کے زمانے میں سچّے پیر نہیں ملتے، سب فراڈ اور جعلی ہیں۔‘‘ اس سے مزید اصرار بے کار تھا، اگلے روز صبح دس بجے کے قریب میں دکان پر پہنچ گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ لڑکا بھی آگیا۔ میں اس کے ساتھ جانے کے لیے کھڑا ہوا، تو گل فراز کے دل میں اچانک نہ جانے کیا خیال آیاکہ فوراً دکان سے اٹھتے ہوئے کہنے لگا کہ ’’ذرا ٹھہرو، مَیں بھی ساتھ چلتا ہوں۔‘‘ مجھے خوشی ہوئی اورکچھ دیر بعد ہم تینوں چل پڑے۔ جب مطلوبہ مقام پر پہنچے، تو وہاں بہت رش لگا ہوا تھا۔ ملاقاتیوں کو نمبروں کے حساب سے اندر بلایا جارہا تھا۔ تھوڑی دیر تک تو گل فراز خاموش بیٹھا رہا، پھر اس نے کہا ’’یار! یہ کراچی ہے، یہاں دھوکے باز اور فراڈیوں کی کمی نہیں۔ میں متعدد بار ان کے جال میں پھنس چکا ہوں، مگر یہاں آکرحیرت انگیز طور پر میرا دل اندر سے سکون محسوس کررہا ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ اپنی بے اولادی کا مسئلہ ان کے سامنے بیان کر ہی دوں۔‘‘ ہم نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔ جب ہمارا نمبر آیا، توہم نے واقعی ان بزرگ کو ’’مردِ مومن‘‘ پایا۔ وہ انتہائی شفیق اوررحم دل شخصیت کے حامل تھے، ان کی باتیں بھی دل و دماغ میں اتر جانے والی تھیں۔ ہم ان کے سامنے تعظیماً بیٹھ گئے۔ ان کا ایک ایک لفظ دل میں اترنے اور سونے میں تولنے والا تھا، جب یہ نشست ختم ہوئی، تو انہوں نے گل فراز کی طرف دیکھا اور کہنے لگے۔ ’’کیا بات ہے میاں! ذرا پاس آئو۔‘‘ گل فراز ڈرتے ڈرتے ان کے قریب گیا، تو انہوں نے کہا۔ ’’اللہ کو راضی کرنے کے بجائے، تم تو اسی سے خفا ہوگئے؟‘‘ بزرگ کی بات سنتے ہی گل فراز کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ اس کے برسوں سے رکے آنسو ضبط کے بندھن توڑ کر آنکھوں سے بہہ نکلے، اس نے اپنی ساری محرومیاں کھول کر رکھ دیں۔ بزرگ نے تحمّل سے اس کی بات سنی اور جب وہ پرسکون ہوگیا، تو اسے پانی پلایا اور کہا۔ ’’یاد رکھو بچّے! اللہ اپنے بندے کو کبھی کچھ دے کر اور کبھی کچھ لے کر آزماتا ہے۔ تم نے تو الٹا اس سے خفگی مول لے لی، ذرا بھی صبر نہ کیا۔ بہرحال، اپنی غلطی پر دونوں میاں بیوی صدقِ دل سے معافی مانگو اور نماز، روزے قائم کرکے عبادات کی طرف لوٹ آئو۔ اللہ تعالیٰ کا تم پر خاص فضل و کرم ہوگا۔‘‘ انہوں نے نو پرچیاں لکھ کردیں اور تاکید کی کہ ’’ہر اسلامی مہینے کی پہلی جمعرات کو رات سونے سے قبل ایک پرچی پانی کے گلاس میں گھول کر دونوں میاں بیوی آدھا آدھا گلاس پی لیں، اس دوران ایک نماز بھی قضا نہ ہو، ایک نماز بھی قضا ہونے سے اس کا اثر زائل ہوجائے گا۔ پہلے اللہ کو راضی کرو، پھر حالات بھی بدل جائیں گے۔‘‘ وہ واقعی مخلص اور انسانیت کا درد رکھنے والے بزرگ تھے۔ ہم سے کچھ طلب کیا، نہ کسی قسم کے جلال کا مظاہرہ کیا۔ نرمی اور شفقت سے ہمیں سمجھاتے رہے۔

ہم جب واپس لوٹے، تو دل اور ذہن ہلکے پھلکے محسوس ہورہے تھے۔

چند روز بعد میں گل فراز کی دکان پر گیا، تو وہ بند تھی۔ میں سمجھا کہ وہ اپنے گائوں، کوئٹہ چلا گیا ہوگا، کچھ عرصے بعد آجائے گا، لیکن وہ واپس نہیں آیا۔ ادھر میرے کراچی قیام کی مدّت بھی ختم ہوگئی، تو چند ماہ بعد مَیں بھی وہاں سے چلا آیا۔ تقریباً ڈیڑھ سال بعد ایک روز ژوب گیا، وہاں بازار میں کسی نے مجھے پیچھے سے آواز دی، میں نے مڑ کر دیکھا، تو پہلی نظر میں تو پہچان نہیں پایا، لیکن جب وہ ’’یارا‘‘ کہہ کر گلے لگا، تو فوراً ہی پہچان گیا کہ وہ گل فراز ہے۔ اس نے داڑھی رکھ لی تھی۔ کراچی میں وہ کلین شیو رہتا تھا، میں نے اس سے گرم جوشی کا مظاہرہ کیا، پھر ہم دونوں ایک چائے خانے پر جاکر بیٹھ گئے۔ اس نے بتایا کہ ’’میری بیوی کا اصرار تھا کہ بزرگ کا بتایا ہوا عمل وہ گائوں جاکرشروع کرے گی۔ اس کی ضد پر میں نے ہتھیار ڈال دیئے اور تیسرے ہی روز اپنے گائوں چلا آیا۔ یہاں آکر میں نے اپنے معمولاتِ زندگی یک سر بدل ڈالے اور پرانا گل فراز بن کر باقاعدگی سے نمازیں شروع کرکے اللہ تعالیٰ سے معافی طلب کی۔ اس نے مجھے واقعی معاف کردیا۔ جس روز آخری پرچی گھول کر اس کا پانی پیا، اس کے پندرہ روز بعد ہی میری بیوی نے وہ خوش خبری سنادی، جس کے سننے کے لیے میرے کان برسوں سے ترس رہے تھے۔ ہمارے یہاں جڑواں بیٹے پیدا ہوئے، اللہ کے فضل و کرم سے دونوں تندرست ہیں۔ اللہ نے میری توبہ قبول فرمالی، میں واقعی بھٹک گیا تھا۔‘‘

گل فراز اپنی دانست میں سمجھ رہا تھا کہ وہ اللہ سے خفا ہے، مگر حقیقت یہ تھی کہ وہ آزمایش سے بدک گیا تھا، جب یہ نکتہ اسے بزرگ نے سمجھایا، تو شرمندہ ہوکر راہِ راست پر آگیا۔ اللہ سے معافیاں طلب کیں، جو اس نے قبول کرلیں اور اپنی رحمتوں سے نواز دیا، آج بھی وہ علاقے میں کپڑے کی دکان چلا رہا ہے۔ کبھی سال، دو سال بعد اس سے ملنا ہوتا ہے، تو اسے خوش دیکھ کر میرا دل بھی خوشی سے لبریز ہوجاتا ہے۔

(صفدر کاکڑ، ژوب،بلوچستان)

تازہ ترین
تازہ ترین