• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غزنی پر افغان طالبان کے تازہ حملے کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے جس طرح پاکستان پر اپنا غصّہ نکالا اور پاکستان کی حکومت،اس کے اداروں ، سیاسی قیادت اور صحافیوں کا نام لے کر الزامات عایدکیے وہ اس امرکی عکاسی کرتے ہیں کہ وہ افغان طالبان پر فتح حاصل نہیں کر پارہے۔ افغانستان نے اپنی ناکامی چھپانے کی غرض سے تمام توپوں کا رخ پاکستان کی جانب کردیا ہے ۔ حالاں کہ افغانستان کابہ دستور عدم استحکام کی زد میں رہنا اس کے پڑوسیوں، بالخصوص پاکستان کے لیےانتہائی تکلیف دہ معاملہ بن چکا ہے۔پاکستان پر ہزار الزامات عایدکیے جائیں، لیکن اس حقیقت سے نظریں نہیں چرائی جا سکتیں کہ پاکستان افغانستان کے بعد اس تکلیف دہ صورت حال سے سب سے زیادہ متاثر ہواہے۔

غزنی میں پیش آنے والے حالیہ واقعات نےیہ ثابت کر دیاہےکہ افغان حکومت کی گرفت امریکی مدد کے باوجود اتنی کم زور ہے کہ افغان طالبان جب چاہیں ان کی حکومتی عمل داری کو چیلنج کر سکتے ہیں،بلکہ بہ راہ راست قبضہ بھی کر سکتے ہیں۔ افغان طالبان نے غزنی پر تقریباً پانچ دن قبضہ برقرار رکھ کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ کہیں بھی کبھی بھی معاملات کو افغان حکومت کے کنٹرول سے باہر کر سکتے ہیں۔ غزنی کی اس صورت حال سے صرف یہ صوبہ ہی متاثر نہیں ہوا ہے بلکہ کابل جانے والے راستوں پر بھی افغان طالبان کا بہت زیادہ اثر دیکھا گیاہے ۔ فاریاب اور بغلان میں بھی اسی قسم کی خونی مداخلت کے واقعات بار بار دیکھنے کو ملتےہیںاوریہ حقیقت بالکل سامنے آکھڑی ہوتی ہے کہ افغان طالبان افغانستان کے بہت سے علاقوں پر اپنی باضابطہ عمل داری صرف اس لیے نہیں قائم کرتے کہ وہ جانتے ہیں کہ ان کے پاس فضائی طاقت نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی عمل داری مستقل طورپر قائم نہیں رکھ سکتے۔ ورنہ یہ طے شدہ امر ہے اور امریکا کے معروف تھنک ٹینکس بھی اسے تسلیم کرتے ہیں کہ افغان حکومت کی عملداری محض 65فی صد افغانستان پر ہے، 23فی صد حصّے میں مزاحمت جاری ہے اور 12فی صد حصّہ بہ راہ راست طالبان کے کنٹرول میںہے۔ان حالات میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب دعوی 65فی صد کاہے تو حقیقت میں کنٹرول کتنے فی صد حصّے پر ہو گا۔

امریکامیں حال ہی میںبعض سرکاری دستاویزات ڈی کلاسیفائڈ ہوئی ہیں ۔ان دستاویزات کے مطابق امریکا نے 1995سے 2000تک تیس مرتبہ افغان طالبان سے بہ راہ راست بات چیت کی اور اپنے نا پسند ید ہ افراد (دہشت گردوں)کی سرگرمیوں پر پابندیوں کے حوالے سے طالبان کو قائل کرنے کی کوشش کی، مگروہ اس کوشش میں ناکام رہا۔ خیال رہے کہ امریکا ایسے اور بھی معاملات میں مستقل کوششوں میں مصروف رہا، مگر اسے ناکامی ملی۔اس کی ایک مثال ایران کے انقلاب کے بعد صدر کارٹرکے دورسے آج تک امریکا اورایران کے معاملات کی ہےجن میںامریکادوسرے فریق سےاپنی مرضی کی شرائط منوانے میں ناکام رہا ۔ اسی طرح صدر کلنٹن کے دورسے امریکانے افغان طالبان سے بہ راہ راست بات چیت شروع کی۔بش جونیئر کا رویہ نائن الیون کے بعد سخت ہو گیا تھا،مگر اس کے بعد صدر اوباما افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان سیاسی مفاہمت کی بات کرتے دکھائی دیے۔

قطر میں افغان طالبان کادفتر کھولنے کی تجویر اس امرکی واضح مثال ہے کہ امریکاکس حد تک خواہش مند تھا کہ کوئی راستہ نکل آئے اور اس جنگ سے اسے چھٹکارا مل سکےجسے اس سال اکتوبر میں سترہ برس ہوجائیں گے۔ صدر ٹرمپ بھی افغان طالبان سے بہ راہ راست بات چیت کے خواہش مند ہیں۔ عیدالفطر کے موقعے پرہونے والی جنگ بندی نے یہ تاثر قائم کیا تھا کہ شاید طالبان بھی جنگ سے تنگ آچکے ہیں۔ مگر ان کے تازہ حملوں نے اس خیال کی نفی کر دی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں میکس بوٹ نے تحریر کیا ہے کہ افغان طالبان کو اس جنگ کے دوران یہ یقین ہو چکا ہے کہ امریکی سرپرستی کے باوجود افغان حکومت انہیں شکست نہیں دے سکتی جس کا واضح طورپر یہ مطلب ہے کہ وہ برابری کی سطح پر ہیں۔ اس صورت میں امریکاکے پاس راستہ یہ ہے کہ برطانیہ کی طرح اس خطے میں اگلے سو سال تک اپنی فوج تعینات رکھے۔ کیوں کہ اگر ایسا نہیں کیاگیا تویہاں سے امریکاکےلیےبڑے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔وہاں یہ تجویز بھی بڑی شد ومد سے دی جارہی ہے کہ بلیک واٹر کو افغانستان میںبہت متحرک کر دیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو پاکستان اور افغانستان میں دہشت گردی کی نئی لہرآسکتی ہے۔پھرداعش کا افغانستان میں اثرورسوخ قائم کرنا ،بہ یک وقت پا کستا ن ، افغانستان اور افغان طالبان کے لیے سنگین خطرات کی نشان دہی کرتاہے،کیوں کہ داعش افغان طالبان سے بھی متصادم ہو رہی ہے۔ایسی صورت حال امریکاکےلیے بہت پسندیدہ ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افغانستان میں داعش کے پنپنے میں کس کا ہاتھ ہے ۔

اس سب کے باوجود غزنی کے حالیہ واقعات اور اس سے پہلے کا سارا نزلہ افغان صدر، اشرف غنی نے پاکستان پر گرا دیا اور پاکستا ن کے خلاف بات کرتے ہوئے ہمارے ملک کے ممتاز صحافیوں کو بھی رگڑتے ہوئے تقریر جھاڑ دی۔تاہم انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان میںچند ماہ قبل جب ایک تنظیم کی جانب سے پختون لانگ مارچ کیا جارہا تھا تو انہوں نے اس کے حق میں بیان داغ دیا تھا،حالاں کہ یہ خالصتاً پاکستان کا داخلی معاملہ تھا۔یہ حقیقت بھی ان کے ذہن میں رہنی چاہیے کہ ان کے صدارتی انتخاب کے وقت پاکستان نہ صرف غیر جانب دار رہا تھا، بلکہ دنیا نے اس کی غیر جانب داری کو تسلیم بھی کیا تھا ۔ اس وقت کے پاکستانی وزیر اعظم نوازشریف نے افغان سیاسی زعما سے ملاقات کرکے انہیںیقین دلایاتھاکہ افغانستان میںپاکستان کا کوئی پسندیدہ یاناپسندیدہ امیدوار نہیں ہے۔پاکستان کی اس حکمت عملی سے پاک، افغان تعلقات میں بہتری کی اُمید پیدا ہوئی تھی۔ مگر افغان حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ امریکا کی فوجی طاقت اور اقتصادی مدداوربھارت کو حاصل امریکی خوش نودی اور اس کی جانب سے افغانستان کو دی جانے والی اقتصادی امداد کی وجہ سےوہ ان دونوں کے حلقہ اثر سے باہر نکل کر سوچ ہی نہیں سکتی ۔بھارت کی جانب سےپاکستان کے پڑوس میں کی جانے والی سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستان کا تشویش میں مبتلا ہو نا فطری عمل ہے۔ اور جب پاکستان یہ دیکھتا ہے کہ غزنی میں ہونے والے حملوں میں افغان طالبان کی بہ راہ راست حمایت،یہاں تک کہ پاکستان میںمیتیں لانے تک کا الزام دھر دیا جاتاہے تو پاکستان کے لیے کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ وہ افغانستان سے کسی بھلائی کی امید رکھے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ انہیں میتیں پاکستان لانے کا پتاتوچل گیا، مگرافغان حکومت نے میتیں لے جانے والوں کو پکڑا اور نہ ہی جنازوں کو روکا، حالاں کہ کہاں غزنی اور کہاں پاکستانی سرحد ۔

تازہ ترین