آغا شعیب عباس
صوبۂ سندھ کے دوسرے بڑے شہر، حیدر آباد کی بنیاد میاں غلام شاہ کلہوڑو نے رکھی تھی۔ انہوں نے اس شہر کو دارالحکومت بنایا اوریہاں سول کام کے لیےکچھ عمارتیںبھی تعمیر کرائیں۔ایسی ہی ایک تعمیر ’’پکا قلعہ ‘‘ ہے، جو حیدرآباد کےوسط میں ایک عظیم الشان قلعے کی باقیات آج بھی موجود ہیں۔ کبھی اس کی شان و شوکت کے چرچے ہر جگہ ہوا کرتے تھے، مگر آج اس کی خستہ حالت اپنی حالت زار خود بیان کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ خدا آباد میں مسلسل آنے والے سیلابوں سے میاں غلام شاہ کلہوڑو تنگ آگئے تھے،جس کی وجہ سےانہوں نے اپنا دارالحکومت کسی نئے دیار میں بسانے کا ارادہ کیا۔ انہوں نے نیا دارالحکومت گنج یا گنجو نامی ایک پہاڑی پر قائم ماہی گیروں کے ایک قدیم گاؤں کے کھنڈرات پر بسانے کا ارادہ کیا۔ مقامی زبان میں گنجو کے معانی بنجر کے ہیں۔ اس پہاڑی پر قائم مشہور زمانہ پکا قلعہ تعمیر کیا گیا،اس کی تعمیر دیوان گدومل کی زیرِ نگرانی ہوئی تھی، جو کہ ایک قابل درباری تھے۔ اس کام کے لیے انہیں میاں غلام شاہ کلہوڑو کی جانب سے دو کشتیاں بھر کر سرمایہ دیا گیا تھا۔ انہوں نے شاہی قلعے یا پکا قلعہ کونہ صرف رہائش کے لیےاستعمال کیا بلکہ یہاںامور حکومت بھی حل کرتے تھے، یعنی عدالتیں بھی لگائی جاتی تھیں۔ خاندان کے رہنے کے لئے حرم بنائے اوراس میںمساجد بھی تعمیر کروائیں۔بد قسمتی سے1843ء انگریزوں نے اس پر قبضہ کر لیا تھا۔1857ء میں برطانوی فوجیوں نے قلعے کے کچھ حصے مسمار کیے اور اس جگہ پر اپنے فوجیوں اور جنگی ساز و سامان کے لیے کمرے تعمیر کروالیے۔ پکا قلعہ تیس ایکڑ کی جگہ پر بنا ہوا ہے۔ میاں غلام شاہ کلہوڑوسندھ کے مشہور حکمران تھے،انہیں افغان بادشاہ احمد شاہ درانی نے شاہ وردی خان کا لقب دیا اور وہ اسی نام سے پہچانےجاتے تھے۔ میاں نور محمد کلہوڑو کی حکومت کے بعد وہ سندھ میں نہ صرف استحکام لے کر آئے بلکہ انہوں نے سندھ کو دوبارہ منظم کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے مراٹھاوں اور رائے کچھ کے مستقل جاگیرداروں کو صحرائے تھرمیں شکست دی اورفتح سے ہمکنار ہوئے۔پہاڑی پر قلعہ بنانے کا مقصد سندھ کےعوام کا دفاع کرنا تھا۔پکا قلعہ کو سندھی زبان میں’’ پکو قلعو ‘‘کہتےہیں ۔ قلعے میں ایک خیمے نما حصہ ہے ،جس کو
پکی اینٹوں سے بنایا گیا ہے، خیال کیا جاتا ہے کہ بادشاہ اپنے گھوڑے اس پکی اینٹوں کے خیموں میں باندھتے تھے ،مگر اس پکے خیمے کی حالت اب مخدوش ہو چکی ہے۔کہاجاتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قلعے کے نوادرات بھی چوری ہوتے گئے۔ میر حرم کے نزدیک ایک لکڑی کا دروازہ ہے جس میں کیلیں لگی ہوئی ہیں ۔اس کا صرف ایک مرکزی دروازہ ہے، جو شاہی بازار کی طرف کھلتا ہے۔ برطانوی دور میں محنت کش اور کاری گراس میں رہتے تھے۔حرم کے اندرکئی پینٹنگز لگی ہوئی ہیں ،اندرپانچ بڑے ہال ہیں یہ وہ جگہ ہے جہاں میر اپنا خزانہ رکھتے تھے۔ کچھ ہالوں کوبرطانوی راج میں ریکارڈ آفس میں تبدیل کردیا گیا تھا، جب کہ تین ہالوں کو میوزیم بنا دیا گیا ہے،مشہور واقعہ ہے کہ جب انگریزوں نے قلعے پر قبضہ کیا تھا، تو سندھ کے مشہور جنرل ہوش محمد شیدی وطن کا دفاع کرتے ہوئے شہید ہوگئےتھے۔ واضح رہے کہ ہوش محمد شیدی تالپور افواج کے کمانڈر تھے۔انہیںسندھ کا بچہ بچہ انتہائی احترام سے دیکھتا ہے۔برطانوی انتظامیہ نے قلعے پر قبضےکے بعد اس کے کچھ حصے منہدم ، وہاں افواج اور مزدوروں کی رہائش گاہ تعمیر کرا دی تھیں۔وادی سندھ کی یہ قدیم یادگار اب مکمل تجارتی و رہائشی مرکز بن چکی ہے۔ تجاوزات نے اس قدیم قلعے کےحسن کو گہنا دیا ہے،قلعے کی بیرونی دیواربھی انتہائی مخدوش ہو چکی ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ پکّا قلعہ کی مرمت و تزئین و آرائش کروائی جائے، تاکہ یہ تاریخی ورثہ تباہی سے بچ سکے اور آنے والی نسلیں بھی اسے دیکھ سکیں، اس کی اہمیت سے واقف ہو سکیں۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ تاریخی ورثوں یا عمارات کی حفاظت کی ذمے داری صرف مقتدر حلقوں کی نہیں ہوتی، بلکہ عوام کو بھی چاہیے کہ اس کی دیکھ بھال میں اپنا کردار ادا کریں۔علاوہ ازیںاسکول ، کالج کے طلباء کو تاریخی مقامات کا دورہ کر وانا چاہیے تاکہ نئی نسل ثقافتی ورثےسے آگاہ ہو سکے۔