گزشتہ ہفتے دفتر ِخارجہ کے ترجمان اُس وقت بہت مشکل صورت ِحال سے دوچار دکھائی دئیے جب اُن سے واشنگٹن کی طرف سے سیکرٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو اور وزیر ِاعظم عمران خان کے درمیان ایک متنازع فون کال کے ٹرانسکرپٹ پر ردعمل دینے کا کہا گیا۔ وہ اس خبر کی تصدیق نہیں کرسکتے تھے کہ یہ بات اُن کے ادارے اور وزیر ِاعظم کے لیے شرمندگی کا باعث بنتی۔ لیکن وہ اس کی تردید بھی نہیں کرسکتے تھے کیونکہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے یہ مواد سرکاری طور پرفراہم کردیا تھا۔ چنانچہ ترجمان نے روایتی انداز میں پہلو بچانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’ہم اس معاملے کو یہیں ختم کرنا چاہتے ہیں۔ وزیر ِخارجہ کا اس پر تفصیل سے تبصرہ آگیا ہے ۔ سیاسی طور پر ہمیں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ۔ ‘‘
دوسرے لفظوں میں ، اُنھوںنے اس سوال ، کہ کیا فون کال کے مواد پر پومپیو نے غلط بیانی سے کام لیا یا وزیر ِاعظم نے ، کا جواب یہ دیا کہ ’’اسے ختم کردیں اور آگے بڑھیں۔‘‘وہ شاید اس میں یہ اضافہ بھی کرنا چاہتے ، ’’ ایسا کچھ ہوا ہی نہیں۔‘‘ یہ ردِعمل ناروا ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سنگین مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس سے ارباب ِاقتدار کو لاحق ایک بیماری کا پتہ چلتا ہے ۔ وہ ہر بحث کا گلا گھونٹتے ہوئے قومی ہزیمت پر مٹی ڈالنا چاہتے ہیں۔ حقائق کی تردیدکو قومی مفاد کا نام دے کر خاموشی اختیار کرنے کا کہا جاتا ہے ۔ لیکن حقائق کے پہاڑ تردید کی مٹی ڈالنے سے کہاں چھپتے ہیں؟
دنیا بھر میں سچا ئی کو چھپانے یا کسی معاملے کو مبہم رکھنے کے لیے سفارتی چالبازی سے کام لیا جاتا ہے ، لیکن بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ اپنے ملک میں ہی ایسا کیا جائے ۔ اس حوالے سے موجودہ حکومت ماضی سے جان چھڑا کر آگے بڑھنے کی بجائے اس کے تسلسل کو تقویت دے رہی ہے ۔ لفاظی اور الجھائو کے نئے ریکارڈ قائم ہورہے ہیں۔ حقیقت سے توجہ ہٹانے کی کوششیں تیز تر ہوتی جارہی ہیں۔ ہر غلطی کا جواز ارزاں کیا جاتا ہے ۔ ہر غلط اقدام کی دلیل موجود ہے ۔ ہر احمقانہ فیصلے کو بصیرت کا بیش مہا موتی بنا کر پیش کیا جاتا ہے ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہر نگاہ موتی اور کنکر کا فرق کھو بیٹھی ہے ، اور کورچشمی قومی صفت ہے ۔
کہا گیا ہے کہ محدود صلاحیتوں کے مالک، وزیر ِاعلیٰ پنجاب بہتر ہیں کیونکہ وہ دلیر شخص ہیں۔ تاحال واضح نہیں کہ وہ کس معاملے میں دلیر ہیں؟ اُنھوںنے کس شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالا ہے ؟ فی الحال ہمیں اتنا ہی پتہ چلا ہے کہ وہ ارب پتی افراد اور طاقتور خاندانوں کی لابنگ کے نتیجے میں اوپر آئے ہیں۔ لیکن خیر، اگروزیر ِاعظم صاحب اُنہیں دلیر کہہ رہے ہیں تو مان لیتے ہیں۔عام فہم کی پامالی ہم نے ہیلی کاپٹر کے فی کلو میٹر خرچے کی مد میں بھی دیکھی۔خاور مانیکا کے معاملے پر بھی خاموشی طاری ہے ۔
پنجاب کے وزیر ِاطلاعات کے غیر محتاط بیانات کوہر حکومت اپنے لیے شرمندگی کا باعث سمجھتی ، اور کسی طور ان کا دفاع نہ کرتی۔ لیکن یہاں وہ جس کے بارے میں منہ میں جو آتا ہے کہتا چلا جا رہا ہے۔ دیگرصوبوں میں بھی یہی صورت ِحال ہے ۔ سندھ میں ایک کم تعلیم یافتہ شخص کو گورنر لگا کر صوبے کی تمام یونیورسٹیوں کا چانسلر بنا دیا گیا ۔ اب اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی اسناد اُن کے دستخطوں سے جاری ہوں گی۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہ سب کچھ ایسی جماعت کی طرف سے کیا جارہا ہے جو میرٹ کواہمیت دینے کا نعرہ لگاکر آئی ہے ۔ خیبرپختونخوا میںخالی ہونے والی ہر نشست پر اسمبلی میں پہنچنے والے بااختیار افراد کے رشتہ داروں کو ٹکٹ دیا گیا ہے ۔ چاہے یہ پرویز خٹک ہوں یا علی امین گنڈا پور، یا اسد قیصر ۔ ان کے رشتہ داراور دوست ہی امیدوار بننے کے اہل قرار پائے ہیں۔ یہاں اقربا پروری پر کسی کی پیشانی شکن آلود نہیں ۔ اس کی بجائے اس کی نشاندہی کرنے والوں پر جوابی حملے کیے جارہے ہیں۔ تنقید کا جواب تحقیر سے دینے کی پالیسی ہنوز تبدیل نہیں ہوئی ۔ مسائل کی نشاندہی پر سوشل میڈیا پر کیچڑ اچھالنے سے لے کر دھمکیاں، اور سوالات کا جواب دینے کی بجائے خاموش رہنے کی ہدایت، اور پھر حملے ۔۔۔’’یہ تو وہی جگہ ہے ، گزرے تھے ہم جہاں سے۔‘‘
اس پالیسی نے بحث کا گلا گھونٹ کر ہجو اور طعنہ زنی کو سیاست کا رائج الوقت بیانیہ بنادیا ہے ۔ سیاسی اختلافات کو ذاتی دشمنی کا رنگ دے کر نظام کو کمزور کردیا ہے ۔ اگر یہ انتقال ِا قتدار کا لمحاتی اشتعال ہوتا، یا محض جذباتی واقعات ہوتے تو انہیں یاد رکھنے، اور ان پر تبصرہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے ۔ یہ اس رویے کا پریشان کن اظہار ہے جو اس قوم کی فطرت ِ ثانیہ بن چکا ہے ۔سیاسی کارکنوں کی نئی نسل نفرت انگیز بیانیے اور جذباتی جارحیت کی پیداوار ہے ۔ اس نے دروغ گوئی ، التباسی تصورات اور خود ستائی کے ماحول میں پرورش پائی ہے ۔ اسے پتہ چل چکا ہے کہ الزام تراشی رنگ لاتی ہے ۔ یہ وہ ماحول ہے جہاں عقل اور معقولیت کی بات کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے ، اور جہاں دلیل اور منطق اپنا سا منہ لے کر رہ جاتی ہیں۔ بالکل رومن شہنشاہوں جیسا ماحول ہے جو پریشانی پیدا کرنے والے افراد کو پرتشدد کھیلوں کی نذر کردیتے تھے ۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اُن کی خطرناک توانائیوں کوتلف کرکے مزے سے حکومت کرتے رہتے ۔ آج بھی قوم کو اسی اکھاڑے میں دھکیل دیا گیا ہے ۔ قوم کواس مسابقت میں الجھا کر طاقت کے تمام ایوانوں پر قبضہ جاری ہے ۔
اس دلیل میں وزن ہے کہ بحث اور دلیل کا گلا گھونٹنے کی رسم کا افتتاح 2018 ء میں نہیں ہوا ۔ یہ مشق ہمارے ہاں کئی عشروں سے جاری تھی ۔ ہمارے اکثر ریاستی ادارے اپنے بارے میں ایک لفظ تک سننے کے روادار نہیں ۔ یہ بات تاریخی طور پر درست ہے ۔ ہم ایک کھلا اورلبرل سیاسی معاشرہ نہیں ہیں۔ حتیٰ کہ تاثر ہے کہ ہماری سب سے قابل ِ احترام سیاسی شخصیت، ذوالفقار علی بھٹو بھی تنقید برداشت نہیں کرتے تھے ۔ وہ دلیل اور فکر ی باز پرس کا جواب جسمانی انتقام سے دیتے تھے۔ اپنے سیاسی عروج کے زمانے میں شریف برادران کا تاثر بھی رعونت کا تھا۔ اُن کے نزدیک اہلیت کا معیار اُن سے ذاتی وفاداری تھی ۔ ہم جانتے ہیں کہ تما م آمر جواز کا جواب زور بازو سے دینے کے عادی ہوتے ہیں۔
آج فرق یہ پڑا ہے کہ اس رجحان میں شدت آگئی ہے ۔ اوریہ رجحان وقت کے ساتھ ساتھ خودبخود ختم نہیں ہوجائے گا۔ اب یہ ہماری قومی نفسیات کا حصہ ہے ۔ آپ کو آج سیاسی طور پر روادار اور برداشت کا حامل شہری ڈھونڈے سے نہیں ملتا۔ لیکن سیاسی اور جذباتی طورپر بپھرے ہوئے افراد ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ ذرا مخالفت کی جسارت کرکے دیکھیں۔ اس جنونی ذہنیت کی وجہ صرف سیاست نہیں ہے ۔ اگرچہ اس پر تیل سیاست نے ہی ڈالا ہے ۔ لیکن سوختگی کا سامان ہمارے ہاں رائج سماجی رویوں نے کیا ہے ۔ لیکن پھر دلیل کے دائرے سے باہر زندگی ایسی ہی مہلک ہوتی ہے ۔
قوم کو یہ رویہ اپنانے کی بھاری قیمت چکانی پڑسکتی ہے۔ ہم درست سوال پوچھنے ، اور اہم قومی معاملات پر پُرمغز بحث کرنے سے قاصر ہیں۔ ہمارے ہاں دلیل سے قائل کرنے ، یا درمیانی راستہ نکالنے کی کوئی گنجائش نہیں بچی۔ ہر طرف اشتعال کی آندھی ہے ، بپھرے ہوئے رویوںکے بگولے ہیں، تعصبات کی سنگلاخ دیواریں ہیں۔ ایک ماہر ِ نفسیات کا کہنا ہے ، ’’اگر آپ ایک مشتعل جنونی ہیں تو آپ کو الزام تراشی، تعصب اور نفرت سے لبریز فضااچھی لگے گی۔ آپ تعصب کے مقابلے پر دلیل نہیں رکھ سکتے ۔ نفرت کی آگ معقولیت کو بھسم کردیتی ہے۔ آپ اس کے راستے میں کوئی جواز نہیں رکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ خود اس کے راستے میں آئیں گے تو اپنا نقصان کریں گے ۔ اگر آپ ایسی جگہ رہتے ہیں جہاں یہ کیفیت پائی جاتی ہے تو یقین مانیں زندگی کے لیے اس سے زیادہ زہرناک مقام کوئی نہیں۔ ‘‘ معاشی مسائل ، ناقص گورننس اور انصاف کے فقدان سے بھی زیادہ یہ زہرناک ماحول ہمارے نظام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے ۔ درحقیقت یہی تمام مسائل کی جڑ بھی ہے ۔ اس نے ذہنوں کو آلودہ کرکے نفرت اور ریاکاری سکھادی ہے ۔ اس وقت عمران خان حکومت کی شروعات ہے ۔ اس کے پاس پائوں پر کھڑے ہونے کا وقت ہے ۔ یہ ان خطرناک رجحانات سے خود کو لاتعلق کرسکتی ہے ۔ یہ اپنی غلطیاں تسلیم کرنے کی بجائے قربانی کے بکرے تلاش کرنے کی روایت بدل سکتی ہے ۔ ضروری ہے کہ یہ تنقید کو احتساب اور بہتری کا ایک لازمی حصہ سمجھے۔
غلطی ہوجاتی ہے، اس میں کوئی غلط بات نہیں۔ لیکن اس کا ڈھٹائی سے دفاع کرنا نفرت انگیز با ت ہے ۔ غلطی تسلیم کرنے کی بجائے حقائق کو الٹنے کی کوشش کرنا، اور پریشان کن سچائی کے مقابلے میں جذباتی مناظر میں رنگ بھرنا کبھی بھی مسائل حل نہیں کرتا ۔ آپ تمام لوگوں کو ایک مرتبہ بے وقوف بناسکتے ہیں، اور کچھ لوگوں کو ہمیشہ بے وقوف بناسکتے ہیں۔ لیکن تمام لوگوں کو ہمہ وقت بے وقوف نہیں بناسکتے ہیں۔ ماضی کے حکمران ، چاہے وہ سویلین تھے یا فوجی، کو ابراہم لنکن کے اس مقولے کا علم تھا لیکن وہ اسے نظر انداز کرگئے ۔ وزیر ِاعظم عمران خان نے بھی اپنے اپوزیشن کے دنوں میں اس کا کئی مرتبہ حوالہ دیا ۔ بہتر ہوگا کہ وہ اسے جلی حروف میں لکھ کر اپنے دفترکے باہر آویزاں کردیں اور اپنے وزرا سے ایسا کرنے کا کہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)