• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

6ستمبر قوم کی وحدت، عظمت، عزیمت اور شجاعت کا استعارہ بن گیا ہے جو ہمارے جذبوں اور حوصلوں کو گرماتا رہتا ہے۔ میں نے اس درخشندہ اور تابندہ استعارے کو تمام تر وسعتوں کے ساتھ اپنی تازہ ترین تصنیف ’’جنگ ِ ستمبر کی یادیں‘‘ میں محفوظ کر لیا ہے۔ اِس سترہ روزہ جنگ میں قوم یک جان تھی، تمام تفرقے مٹ گئے تھے اور تمام سیاسی جماعتیں یک زبان تھیں۔ درحقیقت عوام اپنی مسلح افواج پر اِس لیے جان چھڑکتے ہیں کہ وہ جنگ ِ ستمبر کے معرکے میں سرخرو ہوئی تھیں۔ اپنی جانوں پر کھیل کر وطن کا دفاع کیا تھا اور آٹھ گنا طاقتور دشمن کو جارحیت کا مزہ چکھایا تھا۔ نعرۂ تکبیر سے بھارتی فوجیوں کے دل دہل جاتے اور کفر کا رنگ فق ہو جاتا۔ بری فوج کے شانہ بشانہ فضائیہ اور بحریہ نے بھی ناقابلِ فراموش کارنامے سرانجام دیے تھے۔

میں ان خوش نصیب صحافیوں میں سے ہوں جو ہر محاذِ جنگ پر گئے اور عوام اور فوج کے مابین اتحاد کے رشتوں کی کہکشائیں ہر سُو دیکھیں اور مردانگی اور فداکاری کے ناقابلِ یقین واقعات کی قندیلیں فروزاں پائیں۔ اس جنگ میں قوم کی تخلیقی صلاحیتیں اپنے عروج پر تھیں۔ ہر شخص اپنے وطن کے دفاع میں اپنا کردار اَدا کرنے کے لیے بےتاب نظر آتا۔ ہمارے شاعروں اور نغمہ کاروں نے جس جوش و خروش کے ساتھ شب و روز نغمے لکھے، دھنیں تیار کیں اور جس برق رفتاری سے اُنہیں فضا میں پھیلا دیا، وہ تاریخ عالم کا ایک یادگار واقعہ ہے۔ اس جنگ کا بنیادی سبب مظلوم کشمیریوں پر ناقابلِ برداشت بھارتی مظالم اور آزاد جموں و کشمیر کے اسٹرٹیجک اہمیت کے علاقوں پر بھارتی افواج کا قبضہ اور مظفرآباد کی طرف پیش قدمی روکنا تھی۔ تب آپریشن جبرالٹر ناگزیر ہو گیا تھا جس کا مقصد کشمیری عوام کو بھارت کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے اکھنور تک پہنچ کر جموں کی طرف جانے والی سڑک کاٹ دینا تھا۔ چنانچہ آزاد کشمیر کی فوجیں پاکستانی فوجی دستوں کے ساتھ کشمیر کے متنازع علاقے میں داخل ہوئیں اور تین روز میں جوڑیاں تک جا پہنچیں۔ میں چند احباب کے ساتھ اس محاذ پر گیا۔ آزادی کی جنگ لڑنے والوں کے حوصلے پہاڑوں کی مانند بلند تھے۔ بھارت نے 5اور 6ستمبر کی درمیانی رات لاہور پر حملہ کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے پوری قوم دفاعِ وطن میں سینہ سپر ہو گئی اور جنگی محاذ لاہور، سیالکوٹ، چونڈہ، ظفروال سے لے کر کھیم کرن اور راجستھان میں موناباؤ تک پھیل گیا۔ میں سارے محاذوں پر گیا اور جنگ ِ ستمبر کی یادیں صفحۂ قرطاس پر منتقل کرتا رہا۔ ’’جنگِ ستمبر کی یادیں‘‘ کے مطالعے سے آپ کشمیر کی جدوجہدِ آزادی میں شہدا کی قربانیوں اور ہندو ذہنیت کی پوری طرح آگاہی حاصل کر سکیں گے۔

مسلمانوں نے ہندوستان پر آٹھ سو سال حکومت کی اور اپنی کشادہ دلی، اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں اور تہذہبی برتری سے اِس خطے کو عمدہ معاشرت اور وحدت عطا کی۔ جب انگریز برسرِ اقتدار آئے، تو اُنہوں نے مضبوط حکومت قائم کرنے کے لیے ہندوؤں کے ساتھ ملی بھگت سے مسلمانوں کو پستی کی طرف دھکیل دیا۔ اُن کی تہذیب وتمدن کے نشانات مٹانے اور اُنہیں معاشی طور پر بھکاری بنا دینے کے منصوبے پروان چڑھتے رہے۔ اَن گنت سختیوں کے باوجود اُنہوں نے غیرمعمولی قوتِ ارادی کا مظاہرہ کیا اور شبلی، حالی، سرسید اور علامہ اقبال جیسی عظیم شخصیتوں نے اُن کے اندر آزادی کا جذبہ زندہ رکھا جبکہ قائداعظم نے سیاسی جدوجہد کے ذریعے پاکستان حاصل کیا۔ برہمن قیادت پاکستان کو روزِ آفرنیش ہی سے ختم کرنے پر تُلی ہوئی تھی، مگر پاکستان کے سیاست دانوں، سرکاری کارندوں، اعلیٰ منتظموں اور عوام نے بے مثال جذبۂ اخوت اور ایثار کا ثبوت دیا اور دن رات محنت کر کے نئی مملکت کو معاشی اور انتظامی طور پر اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیا۔

پنڈت نہرو نے لارڈ اور لیڈی ماؤنٹ بیٹن کو شیشے میں اُتار لیا تھا۔ پنجاب میں سرحدوں کے تعین کا وقت آیا، تو وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے ریڈکلف ایوارڈ میں تبدیلی کر کے فیروز پور اور گورداسپور کے مسلم اکثریتی اضلاع بھارت کے حوالے کر دیے اور یوں ریاست جموں و کشمیر کے ساتھ بھارت کا زمینی راستہ قائم ہوا جو پاکستان اور بھارت کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔ اس کی سرحدیں تبت، چین، افغانستان اور روس کے ساتھ ملتی ہیں اور یوں اسے غیر معمولی اسٹرٹیجک حیثیت حاصل ہے۔ اِس کے سلسلہ ہائے کوہ سے دریائے سندھ، جہلم اور چناب نکلتے ہیں جو پاکستان کے وسیع علاقوں کو سیراب کرتے ہوئے اس پورے علاقے کو ایک وحدت میں پرو دیتے ہیں۔ 1941ء کی مردم شماری کے مطابق ریاست کی مجموعی آبادی چالیس لاکھ تھی جس میں مسلمانوں کی 77فی صد اکثریت تھی، اِس لیے اسے پاکستان کا حصہ بن جانا تھا، مگر آزادیٔ ہند کا اعلان ہوتے ہی ہندو ڈوگرا مہاراجہ نے مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لیے صوبہ جموں میں مسلمانوں کا قتلِ عام شروع کر دیا اور کلکتے کے روزنامہ ’’اسٹیٹس مین‘‘ کی رپورٹ کے مطابق چند ہفتوں میں دو لاکھ مسلمان صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے جبکہ تین لاکھ جان بچا کر پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔ اس قتلِ عام کے خلاف پونچھ صوبے میں سردار عبدالقیوم خاں کی قیادت میں بغاوت ہوئی اور آزاد جموں و کشمیر ریاست کی بنیاد رکھی گئی۔ بعد ازاں گلگت بلتستان میں بھی فوجی تربیت یافتہ مسلمانوں نے مہاراجہ کے گورنر کو گرفتار کر کے پاکستان کا پرچم لہرا دیا اور پاکستان کو نظم ونسق سنبھالنے کی دعوت دی۔ اس کے بعد ہنزہ ریاست نے بھی پاکستان سے الحاق کا اعلان کر دیا۔ کشمیری مجاہدین اور قبائلی رضاکاروں نے عسکری اہمیت کا خاصا بڑا علاقہ ڈوگرا راج سے آزاد کرا لیا تھا۔

میں نے اپنی کتاب میں اِس بھیانک سازش کے تانے بانے تلاش کیے جس میں انڈیا سے کشمیر کے الحاق کا ڈرامہ رچایا تھا۔ کانگریسی قیادت نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ساتھ ملی بھگت سے سری نگر ایئرپورٹ پر فوجیں اُتارنے کا منصوبہ تیار کر لیا تھا۔ اسے قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے بھارت نے یہ پروپیگنڈہ تیار کیا کہ 26؍اکتوبر کو وی پی مینن ریاست جموں و کشمیر کے وزیراعظم مہر چند مہاجن کی معیت میں جموں گیا اور اُنہوں نے مہاراجہ سے دستاویزِ الحاق پر دستخط حاصل کیے جس میں امن و امان کی بحالی کے لیے بھارتی امداد کی بھی درخواست کی گئی تھی۔ برطانیہ کے معروف مصنف مسٹر ایلسٹیر لیمب جن سے میری ملاقات لندن میں 80کی دہائی میں ہوئی تھی، اُنہوں نے اپنی تصنیف Incomplete Partition (نامکمل تقسیم) میں اِس جھوٹی کہانی کا پول کھول دیا اور یہ ثابت کیا کہ وی پی مینن 26؍اکتوبر کو جموں نہیں گیا۔ ثبوت میں اُنہوں نے دہلی میں تعینات برطانوی ڈپٹی ہائی کمشنر الیگزنڈر سائمن کا 26؍اکتوبر کا روزنامچہ نقل کیا ہے جو برطانیہ کے آرکائیوز میں محفوظ ہے۔ اس میں لکھا کہ میں نے 26؍اکتوبر کو ضروری ملاقات کے لیے رابطہ کیا۔ اُنہوں نے کہا کہ میں اس وقت جموں جانے کے لیے پالم ایئرپورٹ پر ہوں۔ سائمن نے چانس لیا اور پالم ایئرپورٹ پہنچ گیا جہاں وی پی مینن سے ملاقات ہوئی۔ جس نے بتایا کہ میں واپس دہلی جا رہا ہوں کیونکہ اب طیارہ رات سے پہلے جموں ایئرپورٹ پر اُتر نہیں سکے گا، چنانچہ ہم دونوں اپنی اپنی گاڑیوں میں واپس دہلی آ گئے۔ گویا مہاراجہ کا دستاویزِ الحاق پر دستخط ثبت کرنے کا وقوعہ پیش ہی نہیں آیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ دستخط شدہ دستاویز ریاست جموں و کشمیر کی آرکائیوز میں ہے نہ سلامتی کونسل کی فائلوں میں اور نہ انڈیا آفس لائبریری لندن میں۔ اس کے باوجود طے شدہ منصوبے کے تحت 27؍اگست کی صبح بھارتی فوجیں برطانوی طیاروں میں جنہیں برطانوی ہواباز اُڑا رہے تھے، سری نگر ایئرپورٹ پر اُتار دی گئیں۔ یہ برصغیر کی تاریخ کی سیاہ ترین صبح تھی جس نے 1965ء کی جنگ کی بنیاد رکھ دی تھی۔ اب شہیدوں کے خون کی روشنی سے مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی سحر طلوع ہونے والی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین