1965ء کی جنگ میں پاکستان ایئر فورس کی بے مثال کامیابیوں کی یاد کے طور پر7ستمبر کو یوم فضائیہ منایا جا تا ہے۔ اس جنگ میں کامیابیوں کے پیچھے ہمارے جوانوں کے جذبۂ ایمانی کے ساتھ ساتھ ان فنکاروں کا بھی بڑا ہاتھ تھا جو ہر محاذ پر جذباتی سطح پر ان کے ساتھ تھے ، انہی میں ایک بڑا نام میڈم نورجہاں کا بھی ہے ۔
میڈم نورجہاں کے انتقال کو 18سال ہو نے والے ہیں ، لیکن53سال قبل ملکۂ ترنم نورجہاں نے 1965ء کی جنگ میں جس جذبے سے ملی نغمے گائے، ان کی نغمگی وتازگی آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہے، تو پھر اس وقت جنگ کے کڑے حالات میںان نغموں نے فوجی جوانوں کے جوش و جذبہ میںکس قد طوفان برپا ہوتا ہوگا ، اس بارے میں دشمن سے بہتر کوئی نہیںجان سکتا۔ نورجہاں کے مقبول ملی نغموں میں اے راہِ حق کے شہیدوں، اے وطن کے سجیلے جوانو، رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو، میریا ڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں، اے پُتر ہٹاں تے نہیں وکدے وغیرہ شامل ہیں۔ ریڈیو پاکستان پر ان ملی نغموں کی ریکارڈنگ زیادہ تر اعظم خان نے کی، جو اس وقت ریڈیو کے پروڈیوسر تھے اورانہوں نے 1965ءکی جنگ کے دوران ملکہ ترنم نور جہاں کے ریڈیو پر گیارہ گانے ریکارڈ کیے۔8ستمبر کو ملکہ ترنم نور جہاں نے ریڈیوپاکستان کے اسٹیشن ڈائریکٹر شمس الدین بٹ کو فون کیا اور کہا کہ میں نور جہاں بول رہی ہوں، شمس الدین بٹ نے سمجھا کہ کوئی عورت نورجہاں بن کر مذاق کر رہی ہے، چنانچہ انہوں نے فون بند کردیا۔ پھر حسن لطیف، جو ملکہ ترنم کے گھر میں اس وقت موجود تھے، نے شمس الدین بٹ سے کہا کہ بٹ صاحب! ملکہ ترنم نور جہاں آپ کو فون کر رہی ہیں آپ سن لیں، دراصل وہ جنگ کے حوالے سے ملی نغمے ریکارڈ کروانا چاہتی ہیں، چنانچہ شمس الدین بٹ نے ملکہ ترنم نور جہاں کو ریڈیو پر بلا لیا ۔ میڈم ایک گھنٹے کے بعد وہاں پہنچ گئیں، اعظم خان انہیں لے کر شمس الدین بٹ کے کمرے میں پہنچے، وہاں پر ناصر کاظمی، صوفی غلام مصطفےٰ تبسم اور ایوب رومانی بھی موجود تھے۔ ان تمام افراد کی میٹنگ ہوئی جس میں فیصلہ ہوا کہ روزانہ ایک گانا ریکارڈ کیا جائےگا، جو اسی دن نشر ہوگا۔ اس گانے کی پروڈکشن کی ذمہ داری اعظم خان کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج تھی۔ صوفی غلام مصطفےٰ تبسم سے کہا گیاکہ آج کے لئے آپ نغمہ لکھ کردیں۔ انہوں نے پہلا نغمہ”میریاڈھول سپاہیا تینوں رب دیاں رکھاں “لکھ کر دیااور کہا کہ اس کی کمپوزیشن کریں۔ سلیم اقبال نے طرز بنائی اور گانا ریکارڈ ہوگیا۔ رات ساڑھے دس بجے یہ گانا آن ایئر چلا گیا۔ اس گانے کا بہت زبردست ریسپانس ملا، خاص طور پر بارڈر پر ہمارے جو جوان لڑ رہے تھے انہوں نے اسے بہت پسند کیا۔ اس گانے کے نشر ہونے پر بعض لوگوں نے کہا کہ سپاہی پر گانا بنا ہے تو اب فوجی افسر پر بھی گانا بننا چاہئے۔ جس پر صوفی صاحب نے یہ گانا لکھا،’’میرا ماہی چھیل چھبیلا ہائے نی کرنیل نی جرنیل نی‘‘۔ جنگ کے دوران جب فوجی جوان شہید اور زخمی ہو کر سی ایم ایچ ہسپتال پہنچے تو پھر صوفی غلام مصطفےٰ تبسم نے یہ نغمہ لکھا،’’اے پتر ہٹاں تے نہیں وکدےـ‘‘۔چوتھا گانا ملکہ ترنم کی آواز میں تنویر نقوی کا ریکارڈ کیا گیا، جس کے بول تھے،’’”رنگ لائے گا شہیدوں کا لہو“۔ پانچواں گانا رئیس امروہوی نے لکھا اور اس کے بول تھے،”امید فتح رکھو اور علم اٹھائے چلو“۔چھٹے روز، کوئی گانا نہ لکھا گیا تو میڈم نے کہا کہ علامہ اقبال کی نظم‘’’ ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن،گفتار میں، کردار میں، ﷲ کی برہان! ‘‘ ریکارڈ کر لیتے ہیں۔
ساتویں روز پشتو کے معروف شاعر سمندر خان سمندر نے علامہ اقبال کی مذکورہ نظم کا پشتومیں ترجمہ کیا جو میڈم کی آواز میں ہی ریکارڈ کیا گیا۔ قصور کے بارڈر پر بھی جنگ ہو رہی تھی، چنانچہ آٹھویں روز صوفی غلام مصطفےٰ تبسم نے گانا لکھا’ ’میرا سوہنا شہر قصور نی‘‘۔ نویں روز صوفی غلام مصطفےٰ تبسم نے تین فورسز کے لئے گانا بنایا، جس کے بول تھے،’’یہ ہواؤں کے مسافر یہ سمندروں کے راہی،تیرے سربکف مجاہد تیرے صف شکن سپاہیــ‘‘۔ دسواں گانا طالب جالندھری نے لکھا اور دیگر گانوں کی طرح یہ گانابھی ملکہ ترنم نورجہاں کی سریلی آواز میں ریکارڈ ہوا،جس کے بول تھے ’’تیرے باجرے دی راکھی اڑیا میں ناں بہندی وے‘‘۔
وطن کے جوان آج بھی سجیلے ہیں اور وطن کے لئے تن من دھن قربان کرنے کو تیار ہیں۔ جس طرح ان جوانوںنے دشمن کے دانت کھٹے کیے تھے اسی طرح نورجہاں اور ان جیسی جذبۂ حب الوطنی سے لبریز آوازوں نے ہمارے فوجی جوانوں کے جوش اور ولولے کو مہمیز کرنے میں اپنا کردار بخوبی نبھایا اور جب جب ان جوانوں کہ جذبۂ حریت کا ذکر ہو گا ملکہ ترنم نورجہاں کا ذکر بھی ضرور ہوگا۔ میڈم نے جمیل الدین عالی کا لکھا گیانغمہ اپنی آواز میں ریکارڈکرواکراپنے عزم کا اظہار بھی کیا تھا، اس کے بول تھے’’اے وطن کے سجیلے جوانو،میرے نغمے تمہارے لئے ہیں‘‘ ۔