• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

8 اکتوبر2005ء کو مظفرآباد، آزاد کشمیر میں ایک شدید زلزلہ آیا، ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت 7.6ریکارڈ کی گئی۔ زلزلے میں87ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے۔

20ستمبر2017ء کو میکسیکو کے دارالحکومت میکسیکو سٹی میں7.1شدت کا زلزلہ آیا، جس نے اس شہر کو ہلا کر رکھ دیا۔ زلزلے میں 230افراد ہلاک ہوگئے۔

2013ء میں جاری ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق، 1994ء سے 2013ء کے درمیان زلزلوں کے نتیجے میں5لاکھ سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 11کروڑ 83 لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ زلزلے کے نتیجے میں آنے والے آفٹر شاکس، سونامی اور آتش فشاں سے ہونے والی ہلاکتیں اور نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔

ریسرچ کے مطابق لوگ شہروںکی طرف تیزی سے ہجرت کررہے ہیں، جن میں ایسے شہر بھی ہیں جو زلزلے کے مراکز کے زیادہ قریب ہیں۔

شاید ایک حقیقت، جسے اکثر لوگ نظرانداز کردیتے ہیں، وہ یہ ہے کہ ’زلزلے لوگوں کو نہیں مارتے (عموماً)، زلزلے میں گِرنے والی عمارتیں انسانوں کی ہلاکت کی وجہ بنتی ہیں‘۔ اس کا مطلب یہ ہو اکہ ہمیں عمارتوں کی بہتر تعمیرکے لیے کام کرنا ہوگا کہ وہ بڑے سے بڑے زلزلے کے جھٹکے برداشت کرجائیں۔ بصورت دیگر، آنے والے زلزلے، گزشتہ زلزلوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ جانی و مالی نقصان کا باعث بنیں گے۔

اقوام متحدہ کے اس ’سینڈائی فریم ورک فار ڈیزاسٹر رِسک رِیڈَکشن2015 تا2030 ‘معاہدے میں دنیا کے 100ممالک شراکت دار ہیں، جس کے 4ترجیحی شعبے ہیں۔ اس میں ترجیح نمبر 3یہ ہے: ’برداشت اور لچک پیدا کرنے کے لیے تباہی کے خطرات میں کمی کے لیے سرمایہ کاری کرنا‘۔ اس نکتے کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ سنگِ بنیاد سے ہی ڈیزائن اور تعمیر پر توجہ دے کر بہتر عمارتیں تعمیر کی جائیں ۔

اینڈریو وہائٹیکر، یونیورسٹی آف بفیلومیں سول انجینئرنگ کے پروفیسرہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ زلزلے کے دوران ایک عمارت کی حالت، پہیوں والے تختہ پر کھڑے ہوئے اس شخص کی طرح ہوتی ہےکہ اگر کسی طرح سے غیرمتوقع طور پر اچانک وہ پہیے چل پڑیں، تو وہ تختہ اپنے اوپر موجود وزن کو توازن فراہم کرنا چھوڑدیتا ہے، جس سے وہ شخص گِر بھی سکتا ہے۔عمومی اصول یہ ہے کہ عمارت جتنی زیادہ بلند ہوگی، بنیاد اور چوٹی کے مابین قوت میں اتنا ہی زیادہ تضاد پیدا ہوگا اور عمارت گِرنے کے خدشات اتنے ہی زیادہ بڑھ جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ زلزلے کےمراکز کے قریب قائم شہروں میں اس بات پر پابندی عائد ہوتی ہے کہ وہاں ایک خاص اونچائی سے زیادہ بلند عمارتیں تعمیر نہ کی جائیں۔

بلاشبہ، تعمیرات میں استعمال ہونے والا کچھ مواد (Material)دیگر مواد کے مقابلے میں زیادہ بہتر ثابت ہوتا ہے جیساکہ لکڑی۔ کیلی فورنیا انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے جیو فزکس اور سول انجینئرنگ کے پروفیسر تھامس ہِیٹن کہتے ہیں کہ، ’لکڑی ایک لحاظ سے تعمیرات کے لیے آئیڈیل مواد ہے، کہ یہ اپنی سختی اور مضبوطی کے مقابلے میںکم وزن ہے‘۔ کنکریٹ ہرچند کہ آسانی سے ٹوٹنے والا مواد ہے، تاہم اسے اگر اسٹیل کے ساتھ استعمال کیا جائے تو اس سے تیار ہونے والا بلاک یا اینٹ لچکدار بن جاتی ہے۔ دیگر مواد کی کارکردگی بدترین ہے، کچی مٹی سے بنی عمارتیں(جو 2015ء کے نیپال کے زلزلے میں لاکھوں کی تعداد میں تباہ ہوئیں) اور چُنائی کی گئی عمارتیں (جس میں کھرل کے ذریعے اینٹ یا پتھرکو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا جاتا ہے) کم شدت کا زلزلہ بھی برداشت نہیں کرپاتیں۔

زلزلے کی صورت میں، کھڑکی کےبغیر، کنکریٹ سے بنی عمارتیں بہتر لچک اور برداشت کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ ’جب میں ان عمارتوں پر نظر ڈالتا ہوں، جنھیں لوگ خوبصورت سمجھتے ہیں، ہوا دار اور کھڑکیوں سے بھرپور، تو میں زلزلے کی صورت میں ہر طرف انسانی لاشیں دیکھتا ہوں‘، پروفیسر تھامس ہِیٹن کہتے ہیں۔

کچھ نئی عمارتوں میں زلزلے سے محفوظ رہنے کی جدید تکنیکوں کو آزمایا جارہا ہے۔ ایسی ہی ایک تکنیک کا نام Base Isolation ہے۔ عمارت کی بنیاد میں ربر کے آلات نصب کیے جاتے ہیں، جو زلزلہ آنے کی صورت میں اضافی توانائی جذب کرلیتے ہیں، جس کے بعد وہ توانائی عمارت کی بالائی بنیادوں تک نہیں پہنچ پاتی۔ایک عام شخص اِسے موٹر گاڑی میں نصب Shock Absorberسے تشبیہہ دے سکتا ہے۔

اس کے علاوہ بھی نئے مواد تیار کرنے پر کام کیا جارہا ہے۔ ایک امریکی کمپنی دھات کے فوم یا پولی مر بنانے پر کام کررہی ہے، جو فضائی انجینئرنگ کی صنعت میں پہلے ہی استعمال ہورہے ہیں۔ یہ کمپنی Shape Memory Alloys پر بھی کام کررہی ہے، جو ناصرف زلزلے سے پیدا ہونے والی توانائی کو جذب کرلیں گے بلکہ زلزلے سے ہِل جانے والی عمارت کو واپس اپنی جگہ پر بحال کرنے کی صلاحیت کے بھی حامل ہونگے، اس طرح زلزلے سے متاثرہ عمارت کو مرمت کی ضرورت نہیں ہوگی۔ دیگر کمپنیاں خود بخود بحال ہونے والا تعمیراتی مواد تیار کرنے پر کام کررہی ہیں۔ کنکریٹ میں کیپسول رکھ دیے جائیں گے اور وہ زلزلے کے دوران عمارت کے فریم یا بنیاد میں پڑنے والے شگاف کو خود ہی بھر دیں گے۔

تازہ ترین