• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ارم فاطمہ، لاہور

سر راشد کی انگلش کلاس کا پیریڈ تھا، جب بچوں کو پتا چلا کہ پرنسپل سے میٹنگ کی وجہ سے وہ کلاس نہیں لے رہے، تو تمام بچے نعمان کے گرد جمع ہوگئے۔ اس سے کہنے لگے کہ وہ موبائل پر انہیں گیم کھیل کر دکھائے، جو اس کے ابو نے امریکا سے بھیجا ہے۔ سب بچے جانتے تھے کہ اسکول میں موبائل لانا منع ہے، پھر بھی نعمان چھپا کر اسکول لے آتا تھا، فری پیریڈ یا پھر بریک میں سب بچے اس کے پاس بیٹھ کر گیم دیکھتے اور خوش ہوتے۔ صرف سمیع اور احسان خالی پیریڈ میں یا تو اسکول کا نامکمل کام کرتے یا ٹیسٹ کی تیاری کرتے تھے۔ انہوں نے نعمان کو کئی بار منع کیا کہ وہ موبائل اسکول نہ لایا کرے۔ ایک تو بچوں کی پڑھائی کا حرج ہوتا تھا اور دوسرا کئی بچے حسرت بھری نگاہوں سے نعمان کے کمپیوٹر گیم اور موبائل کو دیکھتے تھے۔ ابھی انہوں نے کلاس ٹیچر سے کچھ نہیں کہا تھا کہ نعمان موبائل لے کر اسکول آتا ہے، جانے کیوں؟

ایک دن وہ دونوں اپنا کام کر رہے تھے اور بچے نعمان کے موبائل پر گیم دیکھ رہے تھے کہ ناصر نے کہا، ’’تمہارے ابو تمہارے لئے کتنی اچھی چیزیں لاتے ہیں۔ بہت سے کھلونے اور گیمز‘‘

نعمان کہنے لگا، ’’میں نے ابو سے یہی کہا ہے کہ مجھے بھی امریکا جانا ہے اور وہاں جا کر پڑھنا ہے۔ مجھے پاکستان میں نہیں رہنا۔ یہاں ماحول اچھا نہیں ہے۔ ہر طرف دھول مٹی ہے حادثے بہت ہوتے ہیں کہیں چوریاں اور کہیں دھماکے ہوتے رہتے ہیں‘‘۔ ’’امریکا میں سکون اور امن ہے، پڑھائی کے بعد بھی وہیں رہوں گا‘‘۔

سمیع کو یہ سن کر بہت افسوس ہوا، وہ کہنے لگا، ’’نعمان بہت افسوس کی بات ہے تم اپنے وطن کو برا کہہ رہے ہو، جہاں تم پیدا ہوئے جس نے تمہیں پہچان دی۔ تم کہیں بھی چلے جاؤ تمہاری پہچان یہی ہے ’’پاکستان‘‘غیر ملک چلے جاؤ یا وہاں رہنے لگو تم ان جیسے نہیں ہو جاؤ گے اور نہ وہ تمہیں اپنا مانیں گے۔ یہ ہمارا ملک ہماری جان ہمارا ایمان ہے۔ ہمیں اس کی ترقی اور خوشحالی کے لئے کام کرنا ہے، نہ کہ کسی غیر ملک کے لئے‘‘۔ مگر نعمان پہ کوئی اثر نہ ہوا۔

اگلے کئی دن تک نعمان اسکول نہیں آیا، سب بچے پریشان تھے۔ سمیع بھی سوچنے لگا پتا نہیں کیا بات ہے نعمان اسکول نہیں آرہا۔

ہفتے دس دن بعد نعمان اسکول آیا تو کلاس ٹیچر نے پوچھا، ’’آپ اتنے دن اسکول سے کیوں غیر حاضر رہے؟‘‘

نعمان نے کہا کہ، ’’مس، میرے ابو پاکستان آگئے ہیں‘‘۔

پھر وہ سمیع سے کہنے لگا، ’’تم ٹھیک کہتے تھے، اپنا ملک اپنا ہی ہوتا ہے‘‘۔

’’ایک دن ابو کام پر جا رہے تھے کہ، انہوں نے دو افراد کو لڑتے دیکھا۔ سڑک سنسان تھی۔ انہوں نے ایک لمحے کے لئے گاڑی روکی تھی کہ دونوں لڑکوں نے انہیں جکڑ لیا اور کہنے لگے والٹ نکالو اتنے میں پولیس کی کار رکی تو انہوں نے پولیس سے کہا، یہ ہمیں لوٹنا چاہ رہا ہے۔ ابو نے ڈرائیونگ لائسنس اور آفس کارڈ دکھایا انہوں نے پوچھا، آپ پاکستان سے ہیں؟‘‘۔

ابو نے کہا ہاں تو کہنے لگے، ’’آپ پولیس اسٹیشن چلیں اور اپنی گواہی کے لئے آفس کولیگ کو بلائیں‘‘۔

ابو نے بہت کہا کہ، ’’میں صرف دیکھنے کے لئے رکا تھا کہ کیا مسئلہ ہے، آپ لوگوں نے مجھے مجرم بنا دیا ہے‘‘۔

ابو کے آفس ہیڈ نے ان کی شرافت اور ایمان داری کی گواہی دی تو انہوں نے ابو کو جانے دیا۔

ابو سب کچھ چھوڑ کر اپنے وطن اور اپنے لوگوں میں آگئے ہیں۔ میں اپنے کہے الفاظ پر بہت شرمندہ ہوں۔ اب میں تعلیم حاصل کروں گا، اپنے ملک و قوم کے لئے کام کروں گا۔

پوری کلاس نعمان کے جذبے سے متاثر ہوئی اور انہوں نے بھی اس عزم کا اظہار کیا کہ، وہ بھی اپنے ملک کی ترقی اور بقا کے لئے جان دے دیں گے۔

تازہ ترین
تازہ ترین