• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران حکومت کی کامیابی یا ناکامی کا بوجھ وزیر خزانہ اسد عمر کے لمبے قد اور ناتواں کندھوں پر آن پڑا ہے اگر تو وہ ملک کو اقتصادی بھنور سے نکلنے کا راستہ دکھا پاتے ہیں تو واہ واہ۔ عمران حکومت چل پڑے گی لیکن اگر وہ اس بوجھ سے دب کر کنفیوز رہتے ہیں، فیصلہ نہیں کر پاتے یا پھر غیر ضروری تاخیر کرتے ہیں تو جان لیجئے گا کہ موجودہ حکومت اپنا پہلا امتحان پاس نہیں کر پائی۔

اسد عمر کے والد ریٹائرڈ میجر جنرل غلام عمر عمدہ شعری ذوق رکھتے تھے، اقبال کی نظمیں تو انہیں زبانی یاد تھیں وہ اپنے بچپن ہی سے علامہ اقبال کی شاعری اور فکر سے متاثر تھے، اقبال سے ان کا عشق زندگی کے آخری لمحے تک جاری رہا۔ اسد عمر فنانس اور مینجمنٹ کے شعبوں کے کھلاڑی ہونے کے سبب اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں زیادہ مصروف رہتے ہیں پھر بھی کہیں نہ کہیں والد کا شعری ذوق منتقل تو ہوا ہو گا اس لئے ان پر بوجھ اور ذمہ داری کے حوالے سے کلیاتِ سراج میں سے ایک شعر پیش خدمت ہے ؎

نہ پائے سو پرسش کیا بادشاہ

مقرر ہوا ہے اس کے ذمے گناہ

اسد عمر کا پہلا مسئلہ 10ارب ڈالر کا ہے۔ اس ذمہ داری سے وہ کیسے عہدہ برآ ہوتے ہیں کیا کشکول لے کر آئی ایم ایف کے دروازے پر 10ارب ڈالر کا سوال کرتے ہیں یا پھر اپنے دوست عربوں یا مربی چینیوں سے آسان شرائط پر کمٹ منٹ لے کر عالمی اداروں کے دروازوں پر جاتے ہیں یا پھر اسد عمر اور ان کے تھنک ٹینک کے پاس جادو اور روحانیت کے ایسے کمال ہیں کہ وہ بنا قرض مانگے ہی ملکی معاملات کو درست کر لیں گے یا پھر اسد عمر کی پُراسرار اور لمبی خاموشی کی وجہ ان کی خفیہ مہارت ہے جو تیر بہدف اقتصادی فارمولے سے ملک کو ایک بار پھر پٹڑی پر چڑھا دیں گے یا کہیں خدانخواستہ اسد عمر اس بوجھ تلے اتنے دب جائیں کہ پی ٹی آئی کی کشتی کو بھنور میں دھکیل دیں۔

برتفنن طبع عرض ہے کہ ضلع سرگودھا کے قدیمی قبائل میں سے ایک ’’لک‘‘ اپنی مشرقی فہم و فراست اور دیہی دور اندیشی کے حوالے سے مشہور ہیں۔ لک بڑے بہادر بھی ہیں مگر ساتھ ہی بلاوجہ اور بلا غرض لڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ ایک زمانہ تھا کہ وہ انگریزوں کے لئے دردِ سر بنے مگر دوسری جنگ عظیم سے بہت پہلے وہ انگریزوں کے مطیع اور سلطنت برطانیہ کے اتحادی بن چکے تھے۔ جرمنی سے جنگ شروع ہوئی تو پنجاب میں فوجیوں کی بھرتی یعنی لام بندی شروع ہوئی۔ ڈپٹی کمشنر نے لک قبیلہ کو بھرتی کی طرف راغب کرنے کے لئے سکیسر میں دربار لگایا اور کرسی نشین، سفید پوش و نمبردار لک معززین کو بتایا کہ ہٹلر نامی ایک خونخوار اور ظالم شخص آپ کی مالکہ اور ملکہ برطانیہ پر حملہ آور ہے، ملکہ چاہتی ہے کہ لک اس معاملے میں لڑنے کے لئے آگے آئیں، چند لمحے خاموشی رہی مگر پھر ایک بوڑھا کرسی نشین لک کھڑا ہوا اور انتہائی سنجیدگی سے کہنے لگا کہ اگر ہماری پیاری ملکہ اس قدر مشکل میں آگئی ہے کہ اسے لک قبیلہ کی مدد کی ضرورت پڑ گئی ہے تو پھر میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ ملکہ فوراً ہٹلر سے صلح کر ے۔ امید یہی کی جاتی ہے کہ اسد عمر اقتصادی حالات سے نکلنے کے لئے لک فارمولا کی بجائے کوئی نیا راستہ نکالیں گے تاکہ اس ملک کے مجبور اور مقہور عوام کے دلدّر دور ہوں اور وہ تبدیلی آنے کے بعد تو معاشی آسانیاں دیکھ سکیں۔

اسد عمر پر بوجھ ہی بوجھ ہیں، گردشی قرضوں اور لوڈشیڈنگ کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اگر گردشی قرضے ادا نہ ہوئے تو لوڈشیڈنگ آٹھ گھنٹے فی دن تک پہنچ جائے گی۔ عوام خان کچھ ماہ تو صبر کرے گا مگر پھر عوام خان کی بیوی ہر روز اس کو طعنے دے گی، ہا ہا کار مچے گی۔ امید کرنی چاہئے کہ وزیر خزانہ چھ ماہ کے اندر اس معاملے کا ایسا حل نکال لیں گے جس سے لوڈشیڈنگ دو گھنٹے فی دن سے زیادہ نہ ہو۔

کہنے کو تو بہت دلائل دیئے جا سکتے ہیں لیکن سیدھی سادی بات یہ ہے کہ عوام خان کے لئے آسانیاں پیدا نہ ہوئیں اور عسکری خان نے معاشی مشکلات کو بڑھتے دیکھا تو یقین جان لیجئے حکومت کے پائوں اکھڑ جائیں گے۔ عوام خان نے توقعات اس قدر باندھ لی ہیں کہ سب کو پورا کرنا تو ناممکن ہو گا۔ ہاں 6ماہ میں وہ سمت تو دکھائی دینی چاہئے جس سے عوام خان اور عسکری خان کو یقین ہو جائے کہ کم از کم سمت تو درست ہے۔

اسد عمر پر یہ بھی بوجھ ہے کہ اس نے لڑکھڑاتی ہوئی پی آئی اے، ڈوبتی ہوئی سٹیل ملز اور دیگر سرکاری کارپوریشنز کا کچھ فیصلہ کرنا ہے۔ ان کی نجکاری کرنی ہے یا ان کی بہتری کے لئے کوئی اور لائحہ عمل طے کرنا ہے؟ عمران خان نے مجھے ایک ٹی وی انٹرویو میں بتایا تھا کہ ان کے ذہن میں دو سو کے قریب سمندر پار پاکستانی ہیں جو آ کر پاکستان کے اداروں کو بہتر کر دیں گے اسد عمر کو چاہئے کہ عمران خان سے وہ فہرست جلد از جلد لے کر نقصان میں چلنے والے تمام ادارے ان ماہرین کے سپرد کریں۔ ابھی تک تو اس فہرست میں سے صرف ایک نام انیل مسرت سامنے آیا ہے جو 50لاکھ گھر بنانے کے منصوبے کے ساتھ پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ اس حوالے سے ہونے والی میٹنگز میں بھی وہ شامل ہو رہے ہیں۔ امید کی جانی چاہئے کہ وہ اپنی پروفیشنل مہارت کی بناء پر پاکستان میں جہاں تعمیر و ترقی کا معیار بلند کریں گے وہاں لوئر مڈل کلاس کی ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے سستی ہائوسنگ کے منصوبے بنائیں گے۔ بیرون ملک آباد باقی 199افراد کو بھی فوراً بلایا جائے تاکہ وہ اسد عمر کے ممد و معاون بن کر ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں۔ چھ ماہ گزر گئے تو عوامی دبائو بڑھ جائے گا ہنی مون پیریڈ ختم ہو جائے گا اس میں ان 199پروفیشنلز (اگر وہ واقعی ہیں؟) کا کام کرنا اور ملک کو سیدھے راستے پر لانا اور مشکل ہو جائے گا۔ اس لئے انہیں جلدی سے بلائیں اور پاکستان کے مسئلے حل کرائیں۔ اسد عمر کارپوریٹ دنیا کے ستارے رہے ہیں، ایک بڑی پرائیویٹ کمپنی کے سربراہ رہے ہیں، پڑھی لکھی یوتھ انہیں رول ماڈل سمجھتی رہی ہے، وہ ہر ماہ کہیں نہ کہیں Motivationalلیکچر دیتے ہیں۔ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اپنا عمر بھر کا تجربہ، مطالعہ اور تحقیق کو کام میں لاتے ہوئے جلد از جلد معاشی مسائل کے حل کی طرف قدم بڑھائیں گے۔ اسحاق ڈار اور شاہد خاقان عباسی پر معیشت خراب کرنے اور ایل این جی کی مہنگے داموں خرید کے حوالے سے بہت کچھ کہا گیا تھا اسد عمر کو اس حوالے سے بھی وضاحت کرنی ہو گی کہ کیا سچ اور کیا جھوٹ تھا۔ اگر الزامات سچے تھے تو پھر ان کے خلاف مقدمات درج ہونے چاہئیں اور اگر معاملہ صرف سیاسی تھا تو چاہے بالواسطہ ہی سہی وضاحت کر دیں تاکہ کم از کم ریکارڈ تو صحیح ہو جائے۔

مجھے پھر سے کہنے دیجئے کہ سارے کا سارا بوجھ اسد عمر پر ہے اور وہ تاحال معاشی بحران کے حل کے حوالے سے پراسرار طور پر خاموش ہیں۔ اسحاق ڈار کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے سارے ملک کو اپنے سر پر اٹھا لیا تھا، ہر کمیٹی کے سربراہ وہ تھے، سیاسی معاملات میں بھی پیش پیش اور اقتصادی معاملات میں بھی سب سے آگے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے پاس کسی بھی کام کے لئے وقت نہ بچا۔ اسد عمر کو چاہئے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر صرف اور صرف معیشت پر توجہ دیں۔ معیشت درست ہو گئی تو اسد عمر کا بول بالا ہو گا اور عمران بھی سربلند ہو گا اور اگر معیشت نہ چلی تو پھر واہ واہ نہیں ٹھاہ ٹھاہ ہو گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین