• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کی بجائے معیشت کو دستاویزی بنایا جائے، ماہرین

اسلام آباد (حنیف خالد) تحریک انصاف پاکستان کے وزیر خزانہ اقتصادی امور اسد عمر آئندہ ہفتے فنانس ایکٹ 2018میں جو اہم ترامیم کا بل پیش کرنے جارہے ہیں ذرائع کے مطابق پچھلی نون لیگی حکومت نے سالانہ آمدن پر ٹیکس کی چھوٹ 4 لاکھ سے بڑھا کر بارہ لاکھ روپے کر دی تھی جو فنانس ایکٹ 2018کا حصہ ہے تاہم اب خبر یہ ہے کہ اس استثنیٰ کو بارہ سے کم کرکے آٹھ لاکھ روپے سالانہ کیا جانے والا ہے اس سلسلے میں ماہرین اقتصادیات کی رائے یہ ہے کہ یہ فیصلہ ایک تو غیر مقبول ہوگا دوسرے اس میں زیادہ تر منفی اثر تنخواہ دار طبقے پر ہی پڑے گا جبکہ تنخواہ دار طبقے سے ٹوٹل ٹیکس کی وصولی پچھلے مالی سال تک کم وبیش 100 ارب روپے تھی وفاقی بجٹ 2018 میں دی گئی مراعات کی وجہ سے تنخواہ دار طبقے سے وصول ہونے والے انکم ٹیکس میں تقریباً 50 فیصد کمی واقع ہوسکتی ہے حکومت کو ماہرین کا مشورہ ہے کہ 4500ارب روپے کے سالانہ ریونیو ٹارگٹ میں تنخواہ دار طبقے کے 50 ارب روپے کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ یہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے لہذا حکومت کو چاہئے کہ تنخواہ دار طبقے کو ناراض کرنے اور اس طبقے کی بددعا لینے کی بجائے ٹیکس بنیاد کو وسیع کرنے کیلئے بھرپور توجہ دے اس کیلئے ایف بی آر کے پاس رئیل اسٹیٹ بڑی بڑی گاڑیوں غیر ملکی فضائی سفر کے بارے میں قابل قدر ڈیٹا موجود ہے اس کو استعمال کرکے ایک تو ٹیکس بیس بڑھائے دوسری طرف یہ بات ہر کسی کے علم میں ہے کہ سب سے زیادہ کالا دھن غیر منقولہ جائیداد میں لگا ہوا ہے اگر رئیل اسٹیٹ/پراپرٹی کے ڈی سی ریٹ مارکیٹ ریٹ کے قریب قریب نئی مجوزہ ترامیم کے ذریعے فکس کر دیئے جائیںتو ملک میں کالے دھن کا بڑی حد تک خاتمہ ہوسکتا ہے جو آج بھی محتاط اندازوں کے مطابق سینکڑوں ارب ہے تاہم کسٹم سائیڈ پر حکومت کو امپورٹ کا صحیح ڈیٹا حاصل کرنا ہوگا تاکہ انڈر انوائسنگ کو روکا جاسکے اگر امپورٹس کا صحیح ڈیٹا حاصل کرکے انڈر انوائسنگ پر قابو پا لیا جائے تو کسٹم ڈیوٹی کے ریٹ درآمدات پر بڑھا ئے بغیر نہ صرف کسٹم ڈیوٹی کا ریونیو میں کئی گنا اضافہ کر لیا جائے گا بلکہ سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس کی مد میں بھی قابل قدر اضافہ ممکن ہوجائے گا اور کوئی نئی ٹیکسیشن کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی حکومت کو چاہئے کہ وہ ٹیکسوں کے ریٹ میں اضافہ کرنے کی بجائے معیشت کی بہتری اور اس کو دستاویزی بنانے کے اقدامات پر زیادہ توجہ دے جس سے ٹیکس ریونیو میں آٹومیٹک (خودکار) بڑے پیمانے پر اضافہ ہوگا اور حکومت عوام میں غیر مقبول ہونے سے بچ جائے گی اور پارلیمان میں اپوزیشن کی شدید تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
تازہ ترین