• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کو زیادہ تر لوگ صرف باہمی رابطے کے ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں، تاہم کچھ لوگوں کے لیے یہ آمدن کا ذریعہ بھی ہے۔ دنیا بھر میں فیس بک کے ذریعے لوگ کاروبار سے لاکھوں کما رہے ہیں۔ اب ان میں پاکستانی خواتین بھی شامل ہوگئی ہیں، جن کو اس کاروبار کے گُر کوئی اور نہیں بلکہ خود فیس بک سکھارہا ہے۔تاہم فیس بک تو اس کاروبار کا صرف ایک پہلو ہے۔

سوشل میڈیا پر پاکستان کی کاروباری خواتین کے بارے میں کیے جانے والے ایک سروے کے مطابق پاکستان میں جہاں خواتین، مردوں کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں اپنا مقام بنارہی ہیں، وہاں کاروبار بھی ایسا شعبہ ہے، جہاں متعدد خواتین اپنی محنت اور کوشش سے کاروباری برادری کا حصہ بن رہی ہیں۔ان خواتین میں سے زیادہ تر اپنے ذاتی کاروبار سے وابستہ ہیں، جنھوں نے چھوٹے پیمانے پر آغاز کیا اور اب آن لائن بزنس چلارہی ہیں۔

خواتین کو اپنے کاروبار کے فروغ میں جہاں دیگر کئی مسائل درپیش ہوتے ہیں، وہیں انھیں سوشل میڈیا پیجز پر موجود ایپلی کیشنز کے بارے میں بھی بتانا پڑتا ہے۔ اگر کوئی خاتون فیس بک استعمال کررہی ہے تو وہ گوگل پیج سے واقف نہیں ہوتی اور ایسی بھی کئی خواتین ہیں، جو انٹرنیٹ پر ہر ایپلی کیشن استعمال کرنا ضروری نہیں سمجھتی۔ ایسے میں ان کو دوسری ایپلی کیشن جوائن کروانے میں کافی محنت لگتی ہے۔گوگل بزنس ویمن گروپ،کراچی کے مطابق، اکثر خواتین اپنے کاروباری معاملات زیر بحث نہیں لاتیں، جن کیلئے ایسی آگاہی ورکشاپس اور کانفرنسز معاون ثابت ہوتی ہیں۔ جب خواتین ایک ساتھ مل بیٹھ کر معاملات اور اپنے کاروباری مسائل کے حل زیر بحث لائیں گی تو کوئی شک نہیں کہ کاروباری خواتین کے مسائل کافی حد تک حل ہوسکیں گے۔ اگر کوئی خاتون کاروبار شروع کرنا چاہ رہی ہے اور مسائل کے باعث ایسا نہیں کرپارہی تو انھیں چاہئے کہ اپنے مسائل کو پیشہ ورانہ کاروباری خواتین کے ساتھ مل کر حل کرے۔ ایک اور مثبت پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ مشہور سرچ انجن چلانے والی کمپنی ’گوگل‘ بھی پاکستان میں کافی سرگرم ہوچکی ہے۔ گوگل پاکستان کی کاروباری خواتین کی بھی مدد کررہی ہے۔

یہاں بات ہو رہی ہے خواتین کے آن لائن کاروبار چلانے کی تو اگر آپ سوشل میڈیا کو دیکھیں تو آپ کو آن لائن کاروبار کے بے شمار پیج نظر آئیں گے، جو کسی نہ کسی صورت نہ صرف خواتین کے استعمال کی اشیا کے ہوتے ہیں بلکہ ان کو چلانے والی بھی خواتین ہی ہوتی ہیں۔ان میں خاص طور پر بیوٹی پارلر، بوتیک، ہاتھ سے بنے ہوئے بیگز، شادی بیاہ کی فوٹو گرافی اور آرڈر پر تیار کئے جانے والے اسپیشل کیک وغیرہ کے پیج سر فہرست ہیں۔ ایسی بہت ساری خواتین جو سلائی کڑھائی کرنا جانتی تھیں لیکن ان کے پاس اپنا کام لوگوں کے سامنے پیش کرنا ایک مشکل امر تھا ، دکانوں یا بڑے بوتیک والے ان سے کم قیمت پر چیزیں خریدتے اور آگے اپنی مرضی کے داموں فروخت کرتے تھے۔ 

ایسے میں تھوڑی بہت پڑھی لکھی خواتین ، جو انٹرنیٹ کو استعمال کرنا جانتی ہیں ان کا یہ مسئلہ بھی حل ہو گیاہے۔ اب وہ بغیر کسی مشکل کے ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگوں کے سامنے اپنی بنائی ہوئی مصنوعات پیش کر سکتی ہیں، طریقہ بہت آسان ہے، تیار پراڈکٹ کی تصویر بنا کر فیس بک کے پیج پر ڈال دی جاتی ہے اور وہ پلک جھپکتے ہی ہزاروں لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے۔یوں انہیں بزنس پروموشن کا زیادہ موقع مل جاتا ہے۔ کاروبار کا یہ طریقہ چھوٹے کاروباری افراد کیلئے بہت زیادہ سودمند ثابت ہوا ہے۔

سوشل میڈیا نے خواتین کو کاروبار کرنے کے لیے سرحدوں سے بھی آزاد کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف لوکل بلکہ کئی ایسی خواتین بھی ہیں، جنہوں نے اپنا کام انتہائی چھوٹے درجے سے شروع کیا اور اب وہ بیرون ملک

سے بھی آرڈرز لیتی ہیں اور اپنی مصنوعات کو دنیا بھر میں فروخت کرتی ہیں۔ اس ضمن میں بہت سے ادارے ایسے ہیں، جو آن لائن کاروبار کررہے ہیں اور خاص طور پرپاکستان سے کڑھائی کئے ہوئے کپڑے اور ہینڈ بیگز بنواکر اسے دنیا بھر میں آن لائن فروخت کرتے ہیں۔آن لائن بزنس کے بارے میں خواتین کی ملی جلی رائے پائی جاتی ہے تاہم اس کاروبار کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ پہلے رقم لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور نہ ہی گھر سے باہر جانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ ’ویمن ان سوشل میڈیا بزنس‘ نامی ایک ادارے نے اپنی ویب سائٹ پر سوشل میڈیا کے ذریعے کاروبار کرنے والی خواتین کیلئے ایک فورم بنایا ہے، جہاں خواتین اپنے کاروبار کو مزید بہتربنانے کے لیے مسائل کو زیر بحث لا سکتی ہیں۔ پاکستان میں اگرچہ کاروبار کا یہ رحجان نیا ہے لیکن انتہائی کامیاب ہے۔ ایسی خواتین جو اپنے کسی ذاتی کاروبار سے وابستہ ہیں یا نیا کاروبارشروع کرنا چاہتی ہیں، ان کو اپنے کاروبار کی تشہیر میں استعمال ہونے والے اس ٹول کی اہمیت سے آگاہ کرنے اور اس کے استعمال کیلئے بڑے پیمانے پر ٹریننگ کورسز کروائے جانے کی ضرورت ہے۔

تازہ ترین