• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

6ستمبرکو ہم ہر سال یومِ دفاع پاکستان مناتے ہیں اور ساری دنیا کو بتاتے ہیں کہ ہماری بہادر فوج نے کس طرح اپنے سے 7گنا بڑے دشمن کو شکست دی تھی۔ اور جہاں تک دشمنی کی بات ہے تو انسان ساری دنیا سے دوستی تو کر سکتا ہے لیکن ساری دنیا سے دشمنی نہیں کی جا سکتی۔کیونکہ زندگی میں ترقی کرنے کے لیے دوستی اور دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی بعض اوقات آپ کو دشمنی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور یہی وہ موقع ہوتا ہے ، جہاں آپ کی ذہانت اور قابلیت کا امتحان شروع ہوتا ہے۔د شمنی کا حالات و واقعات ، دشمن کی طاقت ، اسکے اثرو رسوخ اور اپنی طاقت کے غیر جانبدارانہ موازنے کے بعد جو جواب دیا جاتا ہے ۔ وہ بعض اوقات کمزور ہونے کے باوجود آپ کو فتح مند کر سکتا ہے جبکہ حالات کا غلط تجزیہ ، جذباتی پن اور حد سے بڑی ہوئی خود اعتمادی اکثر اوقات لے ڈوبتی ہے۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ دشمنی میں صرف ایک ہی میدان ِ جنگ نہیں ہوتا جہاں دشمن کے خلاف جنگ لڑی جاتی ہے۔ فوجی میدان ِ جنگ کے علاوہ اور بھی بہت سے میدان ہیں جہاں دشمن کے خلاف ہمہ وقت جنگ جاری رکھی جا سکتی ہے۔ اگر قوموں کے حوالے سے بات کریں تو وہ میدان ہیں معیشت ، صحت ، تعلیم اور سائنس وغیرہ ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ فوجی میدان تو کبھی کبھار ہی سجتا ہے اور جیسے جیسے مہلک ایٹمی ہتھیار ایجاد ہوگئے ہیں۔ ان کی موجودگی میں کسی بڑی جنگ کا مطلب پورے کرئہ ارض کی تباہی کے سِوا کچھ نہیں۔ اگر ہم پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ہونے والی جنگوں کا جائزہ لیں تو غیر ایٹمی جنگوں نے بھی ان دونوں ملکوں کی معیشت کو ایک عرصے تک تباہ کئے رکھا ہے۔ بلکہ ہمارا نقصان تو ناقابلِ تلافی تھا کہ ہم اپنے ملک کے ایک حصّے سے بھی محروم ہوگئے ۔ اگر غیر ایٹمی جنگوں سے اتنا نقصان ہوتا ہے تو آپ ایٹمی جنگ کی تباہ کاریوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ گویا یہ طے ہے کہ آج کی دنیا میں جنگ و جدل سے مسائل حل ہونے کی بجائے نہ صرف اور شدید ہوجاتے ہیں بلکہ نئے نئے مسائل بھی جنم لینے لگتے ہیں۔ جو بعض اوقات اس تنازعے سے بھی بدتر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے جنگ ہوئی تھی۔ یعنی اپنے وجود کی سلامتی کا سوال پیدا ہو سکتا ہے ہمارے بہادر فوجیوں نے ہمیشہ اپنے سے سات گنا بڑی فوج کا مقابلہ بڑی بہادری سے کیا ہے ۔ ستمبر کی جنگ میں جس طرح پاک فوج نے وطنِ عزیز کا دفاع کیا اور اپنی جانوں کی قربانی دی اس کی مثال نہیں ملتی ۔ انہوں نے اپنے فرائض کما حقہ ‘ ادا کیے اور دشمن کے ناپاک عزائم کو ناکام بنا کر وطنِ عزیز کی سلامتی کو یقینی بنایا۔ لیکن جیسا میں نے پہلے عرض کیا کہ دشمن سے جنگ صرف ایک ہی محاذ پر نہیں ہوتی ۔ پاکستانی فوج تو صرف جنگی میدان ہی سنبھال سکتی ہے اُن کی دی ہوئی قربانیاں اس وقت رائیگاں جاتی ہیں جب تعلیم ، سائنس ،اقتصادیات، صحت اور امن ِ عامہ کے حوالے سے ہماری کارکردگی ہمارے دشمن سے کافی بُری ہو۔ پنجابی کی ایک کہاوت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن آپ کے پائوں دیکھتا ہے اس لیے پائوں میں اچھے جوتے پہننے چاہئیں جبکہ دوست آپ کے سرکی طرف دیکھتا ہے اس لیے سر پر بھی اونچے شملے کی پگڑی ہونی چاہیے۔ اس کہاوت کا لبّ ِ لباب یہ ہے کہ دشمن کی نظروں میں آپ کی کوئی کمزوری نہیں آنی چاہیے تاکہ وہ خوش نہ ہوسکے۔ یہ بھی دشمن پر کاری ضرب ہوتی ہے کہ آپ غربت کی دلدل میں نہ پھنسے ہوں ، آپ کی صحت اچھی ہو، آپ اتنے با رسوخ ہوں کہ آپ کے دوستوں کی وجہ سے دشمن آپ کے خلاف کوئی سازش نہ کر سکے ۔ لیکن جب ہم آج خود کو بین الاقوامی اور قومی سطح پر دیکھتے ہیں تو ہمیں بہت دکھ ہوتا ہے کیونکہ ہمارے پائوں ننگے ، جسم پر پھٹے ہوئے کپڑے اور سر میں دھول پڑی ہوئی ہے۔ ہم لاغر ، کمزور اور بیمار ہیں اور دشمن ہم پر مسکرا رہا ہے۔ کبھی وہ کہتا ہے کہ ہم نے تو دنیا کو آئی ٹی ایکسپرٹ دئیے ، سائنسدان دئیے ، ہم دنیا کی ساتویں بڑی معیشت ہیں ، ہمارے زرِ مبادلہ کے ذخائر 400بلین ڈالر سے زیادہ ہیں۔ آپ نے دنیا کو کیا دیاانتہا پسند، آپ کی زندگی کے ہر شعبے میں زوال کا یہ حال ہے کہ آپ کے زرِ مبادلہ کے ذخائر صرف 10بلین رہ گئے ہیں۔ آپ کے ہاں دہشت گردی ہے ، بیروزگاری اور بیکاری ہے۔ کبھی وہ کہتا ہے کہ آپ ہماری جمہوریت پر بات نہ کریں آپ کو جمہوریت کا کیا پتہ ۔ اسی لیے وہ ہم سے بات چیت کرنا بھی پسند نہیں کرتا کہ ہم خطّے کے پسماندہ ترین ملک بن چکے ہیں۔فوجی طاقت بھی اس وقت تک کار گر ثابت نہیں ہوتی جب تک اس کے پیچھے مضبوط اقتصادی طاقت نہ ہو اور آج کی جنگ ٹیکنالوجی کی جنگ ہے جو ڈرون ایجاد کرتی ہے جبکہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی سے کوسوں دور ہیں ۔ کیا ہمارے شہیدوں کی روحیں بے چین نہ ہوتی ہوں گی کہ ہم نے اپنی جان دیکر ملک کی سرحدوں کی حفاظت کی لیکن معیشت کی مضبوطی ، روزگار کی فراہمی ، تعلیم ، صحت ، سائنس اور ٹیکنالوجی کا فروغ ، دہشت گردی کا خاتمہ یہ تو ہم نے نہیں کرنا تھا۔ یہ تو حکمرانوں نے کرنا تھا۔ تاکہ ہم اپنی خوشحالی کی بنیاد پر اپنے ملک کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا سکیں۔ کیا موجودہ حکمران اس پکار کو سنیں گے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین