سکھر (بیورو رپورٹ، چوہدری محمد ارشاد) سکھر، روہڑی سمیت گرد و نواح کے علاقوں میں ہاتھ سے رسی بنانے کی گھریلو اور چھوٹی صنعتوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، سیکڑوں گھروں میں مرد و خواتین ہاتھ سے رسیاں بناکر انہیں مارکیٹوں میں فروخت کرکے اپنے گھر کا چولہا جلارہے ہیں۔ ہاتھ سے تیار کی جانیوالی رسی ملک کے مختلف شہروں کی مارکیٹوں میں فروخت کیلئے بھیجی جاتی ہے۔ ملک میں گذشتہ 8 سے 10 سالوں کے دوران بجلی کے بحران کے باعث جہاں متعدد چھوٹی بڑی صنعتیں متاثر ہوئی ہیں، وہاں رسی بنانے کی گھریلو اور چھوٹی صنعتوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، رسی بنانے کے کام میں بجلی کی ضرورت ہی نہیں پڑتی، سکھر میں خراب دھاگے کو کارآمد بناکر اس دھاگے سے مختلف اقسام کی رسیاں بنانے کے تقریباً 250 سے زائد گھروں ، شاہراہوں اور چھوٹے میدانوں میں کھلے آسمان تلے رسی بنانے کا کام کیا جاتا ہے ، اس چھوٹی اور گھریلو صنعت سے نہ صرف مرد بلکہ خواتین بھی وابستہ ہیں، گھروں میں خواتین رسیاں بنانے کا کام کرتی ہیں جبکہ کھلے میدانوں شاہراہوں پر مرد حضرات اس کام سے وابستہ ہیں، سکھر سمیت گردونواح کے علاقوں میں سیکڑوں محنت کش بنا بجلی کے اس گھریلو صنعت کے ذریعے اپنا روزگار کرنے میں مصروف ہیں۔شدید گرمی میں بھی رسی بنانے والے محنت کش کھلے آسمان تلے آگ برساتے سورج اور تیز دھوپ ، گرم ہواؤں میں بھی اپنے کام میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔ جہاں ایک جانب بجلی کے بحران کے باعث چھوٹی بڑی صنعتیں اور کاروباری سرگرمیاں متاثر ہورہی ہیں وہیں چھوٹی اور گھریلو صنعتوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، جس سے سینکڑوں افراد کو بھی روزگار کے مواقع ملے ہیں، خراب دھاگے سے تیار ہونے والی مختلف اقسام کی رسیوں کی بڑی منڈی سکھر ہے جہاں سے یہ مال تیار ہوکر سندھ ، بلوچستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں اور بالائی پنجاب کے مختلف علاقوں میں فروخت کیلئے بھیجا جاتا ہے، سکھر، پرانا سکھر اور گردونواح میں خراب دھاگے سے تیار ہونے والی رسیوں کے چرخوں اور گھروں میں موجود موٹروں کے ذریعے بان بنانے کے کام کرنے والے مزدوروں کی تعداد تقریباً1500سے 2000 تک ہے، ان مزدوروں کو روزانہ 300سے 350 روپے اجرت دی جاتی ہے، کراچی ، لاہور، فیصل آباد سمیت دیگر علاقوں میں موجود کپڑا بنانے والی ٹیکسٹائل ملوں میں کپڑے کی تیاری کے دوران جو دھاگہ خراب ہوتا ہے ، وہ عام مارکیٹ میں فروخت کردیا جاتا ہے، ان میں دو اقسام کے خراب دھاگے ہوتے ہیں، رنگین دھاگے کی قیمت 55 سے 60 روپے فی کلو جبکہ سفید دھاگہ 90 سے 100 روپے میں ملتا ہے، اس خراب دھاگے کو کارآمد بناکر چرخے پر کام کرنے والے مزدوررسیاں اور موٹروں پر گھروں میں بان بنانے والے مرد وخواتین اس دھاگے کو کارآمد بناکر مارکیٹ میں لاتے ہیں جہاں تیاری کے بعد رنگین دھاگے سے بنی ہوئی رسی کی قیمت فی کلو 95 سے 110 روپے ، سفید دھاگے سے تیار ہونیو الی رسی کی قیمت 150 سے 170 روپے فی کلو ہے جبکہ سفید دھاگے کو رنگ کرنے کے بعد اس کی قیمت 5 سے 10 روپے مزید بڑھ جاتی ہے، خراب دھاگے سے تیار ہونے والی رسی اور بان کی مختلف مصنوعات مویشی باندھنے ، چار پائیوں ، مختلف اقسام کی مال بردار گاڑیوں میں سامان باندھنے ، گھروں میں سامان اتارنے اور چڑھانے میں استعمال کی جاتی ہیں، سکھر میں نشتر روڈ ، لیاقت چوک، اناج بازار، میانی روڈ، رسی کی مختلف اقسام کی ہولسیل دوکانیں موجود ہیں،رسی کی مختلف اقسام اور بان فروخت کرنے والے معروف تاجر اور ملک فلاحی جماعت کے صدر ملک محمد جاویدنے بتایا کہ سکھر اور گردونواح میں خراب دھاگے کو کارآمد بناکر اسے استعمال میں لانے کیلئے مختلف علاقوں میں 200 سے زائد ایسے مقامات ہیں جہاں پر کھلے میدانوں میں چرخے کے ذریعے مختلف اقسام کی رسیاں تیار کی جاتی ہیں جبکہ متعدد گھروں میں چھوٹی موٹروں کے ذریعے ناکارہ دھاگے سے چار پائیوں کا بان بنایا جاتا ہے ، گذشتہ 8 سے 10سالوں کے دوران بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے جہاں ایک جانب ملک میں چھوٹی بڑی صنعتیں متاثر ہوئی ہیں وہاں ناکارہ دھاگے کو کارآمد بنانے کی ان چھوٹی صنعتوں کی تعداد سکھر میں 30 سے 40 فیصد بڑھی ہے جس سے لوگوں کو روزگار کے مواقع بھی ملے ہیں، ایک چرخے پر تقریباً چھ مزدور کام کرتے ہیں اور ماہانہ ایک مزدور 12 سے 14 ہزار روپے کی مزدوری کرتا ہے، ناکارہ دھاگے کو کارآمد بناکر مختلف اقسام کی رسیاں بنانے میں بہت زیادہ محنت کی جاتی ہے کیونکہ تمام چرخے ہاتھ سے چلائے جاتے ہیں اور ناکارہ دھاگے سے رسی کی مکمل تیاری تک تمام تر کام ہاتھ سے کیا جاتا ہے، انتہائی سخت کام ہونے کے باعث جو اُجرت مزدوروں کو ملنی چاہئے وہ انہیں نہیں مل پاتی، ناکارہ دھاگے کو کارآمد بنانے کی اس چھوٹی صنعت میں اضافے کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس صنعت سے وابستہ افراد کھلے میدانوں میں رسی بنانے کا کام کرتے ہیں جہاں پر بجلی کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی ،یہ واحد صنعت ہے جو بجلی کے بحران سے متاثر نہیں ہوتی ،اس صنعت سے وابستہ مزدوروں کا کہنا ہے کہ ناکارہ دھاگے کو کارآمد بناکر مختلف اقسام کی رسیاں بنانا انتہائی محنت کا کام ہے اور جتنی زیادہ محنت ہم اس کام میں کرتے ہیں اتنی زیادہ ہمیں اجرت نہیں ملتی، جبکہ اس کاروبار سے وابستہ بعض تاجروں کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ یہ انتہائی مشکل اور محنت طلب کام ہے کیونکہ شدید گرمی اوردھوپ کے ودران یہ لوگ محنت مزدوری کرتے ہیں اس اعتبار سے اگر مزدوروں کی محنت دیکھی جائے تو انہیں جو اجرت دی جاتی ہے وہ انتہائی کم ہے،کیونکہ مارکیٹ میں جو غیر ملکی پلاسٹک کی مختلف اقسام کی رسیاں فروخت کی جارہی ہیں اس کے مقابلے میں ہاتھ سے بنائی جانے والی دھاگے کی رسیوں کی قیمتیں 70 سے 80 فیصد کم ہیں جبکہ لوگوں کی اکثریت دھاگے سے بنی ہوئی رسی کو پلاسٹک سے تیار کی جانے والی رسی کے مقابلے میں زیادہ مضبوط ،بہتر سمجھتے ہیں اورسستی ہونے کے باعث آج بھی ملک کی تمام مارکیٹوں میں غیر ملکی پلاسٹک سے تیار ہونے والی رسیوں کی فروخت مقامی سطح پر ناکارہ دھاگے سے تیار ہونے والی مختلف اقسام کی رسیوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے، یہی وجہ اس صنعت کے فروخت کا باعث بن رہی ہے۔