عالمی تجارت میں بحری نقل و حمل سب سے اہم ذریعہ ہے اورکُل عالمی تجارت کے مجموعی حجم میں اس کا حصّہ دو تہائی سے زاید بتایا جاتا ہے۔اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سمندر انسان کے لیے کس قدر اہمیت کے حامل ہیں۔دوسری جانب یہ انسان کے لیے پروٹین کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں ۔مختلف ممالک کے دعوئوں کے مطابق ان کے زیر انتظام رقبے میں سے 95فی صدتک سمندری حدود پر مشتمل ہے ۔3ارب 50کروڑ انسان بنیاد ی خوراک کے لیے سمندر اور ساحلی وسائل پر انحصار کرتے ہیں ۔یونائیٹڈ نیشنز ڈپارٹمنٹ آف اکنامک اینڈ سوشل افیئرزکے مطابق زمین پرموجود 97فی صدپانی دراصل سمندر میں پایا جاتاہے ۔تاہم سمندروں کے پانی کی آلودگی سے عالمی سطح پر ہر سال 12.8ارب ڈالرز کا نقصان ہوتا ہے۔
سمندروں کی وسعت کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اب تک انسان سمندری حیات کا صرف 10فی صد ہی دریافت کرپایا ہے ۔ انٹر نیشنل چیمبر آف شپنگ کے مطابق 150ممالک میں رجسٹرڈ 50ہزار سے زاید بحری جہازوں کے ذریعے90فی صد عالمی تجارت ہوتی ہے ۔ یونائیڈ نیشنز کانفرنس آن ٹریڈ اینڈ ڈیولپمنٹ کی رپورٹ ’’ ری ویو آف میری ٹائم ٹرانسپورٹ 2014ء‘‘ کے مطابق چار دہائیوں (1968-2008ء)میں سمندرکے راستےتجارت کے حجم میں 3گنا اضافہ ہوا۔2016ءکی رپوٹ کے مطابق پہلی مرتبہ سمندرکے راستے تجارت 10 ارب ٹن سے بڑھ چکی ہے۔اس کے باوجود سمندروں کے بارے میں بعض بہت تلخ حقایق بھی ہیں ۔ مثلاہر سال 6ارب 50کروڑ کلوگرام آلودہ پانی زمین سے سمندر کا حصہ بنتاہے۔زمین پر رکازی ایندھن جلنے سے پیدا ہونے و الی 30سے50فی صد تک کاربن ڈائی آکسائیڈ سمندر جذب کرتے ہیں۔تاہم سمندروںکا درجہ حرارت بڑھنےسے ان کی کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے کی صلاحیت کم ہو تی جارہی ہے ۔
کرہ ارض کے 70 فی صد سے زائد رقبے پر پانی پھیلا ہواہے۔لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کے چھوٹے بڑے سمندورں پر کن قوانین کا اطلاق ہوتا ہے؟اسی وجہ سے ’’سمندروں کی آزادی‘‘کےعالمی قانون کےبنیادی اصول کا سوال اٹھتا ہےجو بہت اہمیت کا حامل ہے کیوں کہ یہ تجارت سے لے کر سفر اور قومی سلامتی تک ہرمعاملے پر اثر انداز ہوتا ہے۔
مفادات اور حاکمیت
ہزاروں برسوںسے ہم معاش، تجارت، وسائل کی تلاش اور دریافت کے لیے سمندروں پر انحصار کرتے چلے آرہے ہیں۔ اسی لیےسکیورٹی، تجارت اور وسائل سمیت اس شعبے سے وابستہ مختلف مفادات میں توازن پیدا کرنے کے لیےعالمی جہاز رانی کا ایک نظام وضع کرنے کی ضرورت پیش آئی۔چناں چہ آج عالمی قوانین کا جامع مجموعہ سمندر میں کی جانے والی تمام سرگرمیوں اور سمندرکے بارے میں کیے جانے والے تمام دعووں کے بارے میں بنیادی ڈھانچا فراہم کرتاہے۔یہ قوانین جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے بدلتے رہتے ہیں۔ تاریخی طور پر مختلف ممالک نے اپنے ساحلوں کے پانی پر اور بحری سرحدوں پر حاکمیت اور مکمل اختیار سے متعلق ہر قسم کے دعوے کیے ہیں۔باالفاظ دیگر،یہ ممالک سمند ر کے پانیوں پر اپنی حاکمیت اور اختیار اسی طرح جتلا سکتے تھے جس طرح وہ اپنی زمینی حدودجتلاتے ہیں۔
’’علاقائی سمندر‘‘
طویل بحث کے بعد یہ اصول طے پایا کہ ساحلی ممالک کا اپنے ساحل کے ساتھ بہت ہی محدودبحری رقبے پر اختیار ہوگا۔ اس رقبے کو’’علاقائی سمندر‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس سے آگے کے پانی کو’’کُھلا سمندر‘‘ کہا جاتاہے جو ہر ایک کے لیے کُھلا ہوتاہے اور کسی کی ملکیت نہیں ہوتا۔طویل عرصے تک ’’علاقائی سمندر‘‘ اتنی دور تک پھیلے ہوتے تھے جتنی دور تک کوئی بھی ریاست اپنا اختیار قائم رکھ سکتی تھی۔ اس سمندری علاقے کا تعین توپ سے داغے جانے والے گولے کی پہنچ سے کیا جاتا تھا۔ یہ حد تقریباً 3 سمندری میل کے برابر ہوا کرتی تھی۔ اقوام متحدہ کے1982 کے سمندرسے متعلق کنونشن کے تحت ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں اس دائرہ اختیار کو 12 سمندری میل تک بڑھا دیا گیا ۔
’’بین الاقوامی پانی ‘‘
ہر ایک ریاست اپنے ساحل سے12 سمندری میل کے اندر ’’علاقائی پانی‘‘ پر مکمل اختیار رکھتی ہے۔ لیکن وہ اپنی حدود کے 24 سمندری میل کے اندر ہونے والی کسی بھی قسم کی کسٹم، مالی، امیگریشن اور حفظان صحت کے قوانین کی خلاف ورزی پر سزا دے سکتی ہے۔
دراصل عالمی قانون میں ’’بین الاقوامی پانی ‘‘کی کوئی جامع تعریف موجود نہیں ہے۔ جغرافیائی محلِ وقوع کے لحاظ سے، تمام سمندری پانی کسی نہ کسی حد تک بین الاقوامی پانی گردانے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کسی بھی ملک کے’’علاقائی پانی‘‘میںسے تمام ریاستوںکے گزرنے والے بحری جہازوں کو’’بے ضرر راستے‘‘کی سہولت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن بعض اوقات ’’بین الاقوامی پانی‘‘ کی اصطلاح غیر رسمی اور اختصار کے طورپر ان پانیوں کے لیے بھی استعمال کی جاتی ہے جو کسی بھی ریاست کے ’’علاقائی پانی ‘‘ کے باہر واقع ہوتے ہیں۔
ان (کُھلے)پانیوں میں تمام ریاستیں’’کُھلے سمندر کی آزادیوں‘‘ اور سمندر کے (فضائی حدود اور جہاز رانی جیسے) دیگر قانونی استعمال سے مستفید ہوتی ہیں۔ عام طور سے اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان پانیوں میں خشکی سے گِھرے ہوئے ممالک کے بحری جہازوں سمیت کسی بھی ملک کے بحری جہاز کسی دوسرے ملک کی مداخلت کے بغیر بلا روک ٹوک یہ آزادیاں استعمال کرنےکے حق دار ہوتے ہیں۔یاد رہے کہ روایتی بین الاقوامی قانون کایہ نظام سمندروں کے قانون کے کنونشن میں شامل ہے۔
سمندر سے متعلق قانون کاکنونشن ایک اور اہم سمندری اور جہاز رانی کے علاقے کا تعین بھی کرتا ہے جس کے تحت ساحل سے 200 سمندری میل تک کوئی بھی ساحلی ملک اکنامک زون( ای زیڈ) کہلانے والے ’’خصوصی اقتصادی زون‘‘ پر اپنا حق جتا سکتا ہے۔ اس زون کے اندر اس ملک کو چند مخصوص مقاصدکےلیے حقوق اور قانون نافذ کرنے کے اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔ ان اختیارات میں ماہی گیری اور ہوا اور پانی سے بجلی پیداکرنےکے حقوق شامل ہیں۔سمندروںکے روایتی استعمال کے حوالے سےعالمی سطح پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ سمندر کے قانون کا کنونشن روایتی بین الاقوامی قانون کا ایک حصہ ہے اور اس کی پاس داری تمام ممالک پر لازم ہے۔تاہم جب دو ممالک کے خصوصی اقتصادی زونز ایک دوسرے کی حدود کے اندر تک آتے ہوں تو ایسی صورت حال میں دونوں ممالک کا ایک دوسرے کی سمندری حدود طے کرنا اور پھر ان پر متفق ہونا ضروری ہوتا ہے۔
بین الاقومی پانیوں میںہر وقت بہت کچھ ہوتا رہتا ہے۔سامان لے کر لگ بھگ 90 ہزار تجارتی جہاز مختلف ممالک کا سفر کرتے ہیں۔ تمام ممالک ان پانیوںمیں پائپ لائنز ڈال سکتے ہیں اور ان کے نیچے تاربچھاسکتے ہیں۔کھلے پانیوں اورخصوصی اقتصادی علاقوں میں ماہی گیری بھی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔
جنگی بحری جہازوں سمیت علاقائی پانیوں میں بھی تمام بحری جہازوں کو ’’بے ضرر راستوں‘‘ کا حق حاصل ہوتا ہے۔ یہ جہاز علاقائی پانیوں میں سے اس وقت تک گزر سکتے ہیں جب تک وہ کسی ایسی سرگرمی میں ملوث نہ ہوں جن سے ساحلی ریاست کے امن، نظم و نسق یا سلامتی کو خطرہ لاحق نہ ہو۔ تاہم بعض اوقات کوئی ملک بہت زیادہ علاقے پرایسے سمندری اختیارات کادعوٰی کرکے غیر قانونی طور پر سمندروں تک رسائی یا ان کا استعمال محدود کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایسا ہونے کی صورت میںمتاثرہ ممالک سمندری حدودکا غیر قانونی استعمال کرنے والی حکومت سے احتجاج کرتے ہیں اور اس ملک کے ساتھ معاملات طے کر کے اس مسئلے کوعالمی قوانین کی روشنی میں سمندرسے متعلق قانون کے کنونشن کے تحت حل کرتے ہیں۔
بحری قزّاقوں کا مسئلہ
بین الاقوامی پانیوں میں بحری قزّاق لوگوں اورعالمی تجارت کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ قزّاقوں کے حملے انسانی ہم دردی کی بنیاد پر بھیجی جانے والی امداد کی ترسیل بھی روک سکتے ہیں، تجارتی سامان کی لاگت میں اضافے کا موجب بن سکتے ہیں اور بحری جہازوں کے عملے کی جان خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔چناں چہ اقوام متحدہ کے سمندر سے متعلق قانون کے کنونشن میں بیان کیا گیا ہےکہ تمام ممالک پر یہ فرض عاید ہوتاہے کہ وہ بحری قزّاقی کی روک تھام کے لیے تعاون کریں۔ دنیا کا کوئی بھی ملک کھلے پانیوں میں موجود بحری قزّاقوں کو گرفتار کر کے ان پر مقدمہ چلا سکتا ہے۔ بین الاقوامی قوانین کا یہ قدیم اصول ’’آفاقی دائرہ اختیار‘‘ کی ایک نادر مثال ہے۔
عالمی یوم منانے کا مقصد
ان قوانین پر عمل درآمد کرانے اور عالمی سطح پر پانی کے تجارتی جہازوں بلا روک ٹوک نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے ہر سال عالمی سطح پر میری ٹائم ڈےمنیا جاتا ہے۔اس برس یہ دن27ستمبر کو منایا جا رہا ہے، جس کا مقصد سمندروں کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور سمندری وسائل کے بھرپور استعمال سے متعلق آگاہی پیدا کرنا ہے۔اس برس اس عالمی یوم کا تھیم ہے:’’آئی ایم او70۔ ہمارا ورثہ،بہتر مستقبل کے لیے بہتر جہاز را نی ‘ ‘۔ چوں کہ اس برس انٹرنیشنل میری ٹائم آرگنائزیشن کے قیام کو ستّربرس ہوگئے ہیں۔ اس لیےتھیم کے انتخاب میں اس کے طویل سفر کو بھی مد نظر رکھا گیا ہے اور ماضی پر نظر ڈالتے ہوئے مستقبل کو بہتر بنانے کی کوشش کا پہلو اجاگر کیا گیا ہے۔
یہ دن منانے کا مقصد گلوبل سوسائٹی اور جہاز رانی کے درمیان باہمی اہمیت کے حامل رشتے کومضبوط بنانا اوربین الاقوامی میری ٹائم تنظیم کے عالمی کردار اور افادیت کو اُجاگر کرنا بھی ہوتا ہے۔اس کے علاوہ سمندرکے راستے تجارت کو محفوظ تر بنانے کےلیے نئی ٹیکنالوجی کا استعمال اور اس سے سمندر کے قدرتی ماحول کو ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کرنے کے طریقوں کے متعلق آگاہی پیدا کرنااور سمندری حدود کی حفاظت بھی اس کا ایک اہم پہلو ہے۔
پاکستان کو اﷲ تعالیٰ نے گرم پانی کے سمندر، اہم ساحلی پٹّی اور وسیع ’’خصوصی اقتصادی زون‘‘ سے نوازا ہے۔ جو سمندری حیات اور مادی وسائل سے مالا مال ہے ۔پاکستان میں تمام ترسمندری تجارت کراچی کی بندرگاہوں کے ذریعے کی جاتی ہے۔ گوادر کی بندرگاہ کی ترقی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہوچکی ہے۔ پاکستان کے سمندر کو لاحق مختلف خطرات اور چیلنجز سے نمٹتے ہوئے سمندری وسائل کے بھرپور استعمال اور اس کی حفاظت کو فول پروف بنانے کے لیےپاکستان نیوی اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔
ہماری حدود
کراچی سے گوادر تک پاکستان کا جو ساحلی علاقہ ہے اگر اس کے درمیان (مرکز) میں بیٹھ کر سمندر میں سیدھے زاویۂ قائمہ (90 ڈگری) پر تیرتے جائیں تو 200 بحری میلوں تک کا وہ پانی ہماری ملکیت ہو گا جو کراچی اور گوادر کے سامنے دائیں بائیں خشکی اور ساحلوں تک پھیلا ہو گا۔ اس200میل پانی کے اوپر اور اس کے نیچے جو کچھ ہو گا وہ ہمارا ہو گا اور اس کے آگے جو سمندر 201ویں سمندری میل سے شروع ہو گا وہ بین الاقوامی سمندر کہلائے گا جس پر کسی کا قبضہ نہیں ہو گا۔ دُنیا کے تمام ممالک کے بحری جہاز وہاں آ جا سکیں گے اور انہیں اس کی تہہ میں سےمچھلیاں پکڑنے، تیل نکالنے یا دیگر معدنیات نکال کر اپنے ملک لے جانے کی کھلی چھٹی ہو گی۔
بحری اصطلاح میں ساحل سے 12میل آگے تک کا علاقہ کانٹی نینٹل شیلف (Continental Shelf) کہلاتاہے۔اس شیلف میں سمندر زیادہ گہرانہیں ہوتا ، لیکن جوں جوں آگے بڑھیں، گہرائی بڑھتی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بحری جہاز جب کسی بندرگاہ پر آ کر لنگر انداز ہوتے ہیں تو ان کی لنگر اندازی کے مقامات اتنے گہرے کر دیے جاتے ہیں کہ جہاز ان کے اوپر تیرتا رہتا ہے اور اس کا پیندا زمین کو نہیں چھوتا۔کانٹی نینٹل شیلف میں مچھلیاں اور دیگر آبی مخلوقات تو ہوتی ہی ہیں،اس کے علاوہ وہا ں تہہ میں تیل اور گیس کے بھی وسیع ذخائر ہوتے ہیں۔
پاکستان کی میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی (MSA) کے پاس سمندری گشت کے جو محدود وسائل ہیں وہ انہیں استعمال کرتے ہوئے اپنےخصوصی اقتصادی زون میں (یعنی 200سمندری میل میں) پیٹرولنگ کرتی ہے پھر بھی ہمارے سمندر کی بے کنار وسعتیں بھارتی ماہی گیروں کی جانب سے مچھلیوں کے غیر قانونی شکار اوربعض اسمگلرز کو روکنے کی راہ میں حائل رہتی ہیں۔
اقوام متحدہ نے کئی برس قبل یہ قانون بنایا تھاکہ ساحلی ممالک کا اپنے ساحلوںسے200 میل دور تک کا علاقہ ان ممالک کی ملکیت تصور ہو گا۔ اس کے اوپر اور نیچےکے ذخائرپر بھی ان کاحق تسلیم کیاجائےگا۔ 20مارچ2015ء کو اقوام متحدہ نے پاکستان کی سمندری حدود میں 150میل کا اضافہ کیا تو اس کے نتیجے میں 50,000 مربع کلو میٹر کا بحری علاقہ مزید پاکستان کے خصوصی اقتصادی زون میں شامل ہو گیا۔اس سے پہلے پاکستان کےمذکورہ زون کا رقبہ2,40,000مربع کلو میٹرز تھا جو اب بڑھ کر تقریباً 3لاکھ (2,90,000) مربع کلو میٹر زہو گیا ہےجو ہمارے لیے بہت اچھی بات ہے۔لیکن اس کے ساتھ بڑی ذمے داری بھی نتھی ہو گئی ہے۔یعنی یہ کہ ایک تو پاکستان کو اپنےEEZ میں تیل اور گیس وغیرہ کی تلاش کا کام تیز تر کرنا ہو گا اوردوسرے اپنی میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی (MSA) کی تنظیم اور اس کے وسائل میں اضافہ کرنا ہو گا۔
پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی
پاکستان میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی یکم جنوری 1987ء کو قایم کی گئی تھی۔ اس کا کام پاکستان کی میری ٹائم (سمندری) حدود کی حفاظت اور پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ کرناہے۔اس ایجنسی کے انصرامی اور انتظامی مستقر کراچی، گوادر اور پسنی میں واقع ہیں۔ اس کے وسائل میں چار کار ویٹ قسم کے جنگی بحری جہاز (وحدت، نصرت، رحمت اور برکت)، ہوائی جہازوں کا ایک سکوارڈرن اور ان کے علاوہ کئی پیٹرول بوٹس (گشتی کشتیاں) شامل ہیں۔تاہم اب ان محدود وسائل میں اضافہ ناگزیر ہو گیا ہے۔
میری ٹائم سیکیورٹی کے حوالے سے اچھی خبر یہ ہے کہ چین میں تیار ہونے والا 1500 ٹن وزنی میری ٹائم پیٹرول شپ جولائی کے مہینے میںچین کے شہرگوانگ زومیں پاکستان میری ٹائم ایجنسی کے حوالے کردیا گیا تھا ۔پی ایم ایس او کشمیر ،پاکستان اور چین کے درمیان معاہدے کے سلسلے کا چوتھا جہازہے۔اس جہاز کو گوانگ زو میں میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی کے فلیٹ میں کمیشنڈ کیا گیا۔یہ94 میٹرز طویل جہاز جدیدہتھیاروں، مواصلاتی آلات اور سمت شناسی کے ساز و سامان سے لیس ہے۔اس میں دو جدید ڈیزل انجن نصب ہیں جو 26ناٹیکل میل فی گھنٹہ کی رفتار سے جہاز کوچلا سکتے ہیں۔ یہ جہاز اسمگلنگ کی روک تھام، سمندری نگرانی، سرچ اور ریسکیوآپریشن کرے گااور سمندری آلودگی پر قابو پانے میں مدد کرے گا۔ اس کے ساتھ جہازپرہیلی کاپٹر کی موجودگی اسےلمبے عرصے تک بحری آپریشنز کرنے کے قابل بناتا ہے۔
پاکستان کی ایک ہزارکلومیٹرزسےزایدطویل اسٹرٹیجک ساحلی پٹی ہے جو دُنیا بھر کے جہازوں کی ایک بڑی تعداد کی گزرگاہ ہے۔ ہماری سمندری حدود تین لاکھ کلومیٹرزسے زیادہ ہے جو ہمارے دو صوبوں ،خیبرپختونخوا اور پنجاب کے رقبے کے مساوی ہے اور جو بلوچستان کے رقبےسے ذرا کم ہے۔ اس سمندر میں قدرت کے خزانے چھپے ہوئے ہیں جنہیں دریافت کرلیا جائے تو پاکستان کی قسمت بدل سکتی ہے۔تاہم پاکستان نے 70 سال تک اس پر خاص توجہ نہیں دی کیوں کہ ہمیں زمین، گھر ،کھیتوں اور کھلیانوں کی عادت ہے۔ وہ ٹھیک بھی ہے، مگر سمندر کی اہمیت کو پاکستان نہیں سمجھ پایا۔حالاں کہ دُنیا بھر کے دانش وروں اور امیر البحروں کی متفقہ رائے یہی ہے کہ جس کی سمندروں پر حکم رانی ہوگی وہی زمین پر حکم رانی کرے گا۔
ہمارے لیے عمل کا وقت
دنیا کی معیشت میں تجارت کا اہم ترین ذریعہ بحری راہ داریاں ہیں۔ اقوام کی تاریخ دیکھیں تو بحری تجارت پر خصوصی توجہ دینے والے ممالک نے نمایاں ترقی کی اور دنیا کے کئی خطوں میں اپنے مفادات کے لیے اثر و رسوخ قائم کرنے میں بھی کام یاب رہے۔صرف ایشیا میں بڑی اور چھوٹی 1720 بندرگاہیں اور جیٹیاں موجود ہیں جہاں بین الاقوامی اور خطے کے ممالک کے درمیان تجارت کے لئے نقل و حمل کا بڑا ذریعہ بحری راہ داری ہے۔پاکستان میں بھی بحری تجارت اور اس سے منسلک کاروباراور تفریحی منصوبوںپرمقامی سرمایہ کاری کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے۔دوسری جانب تاجر وں ، صنعت کارو ں اور سرمایہ کاروں کو میری ٹائم سیکٹر کی طرف راغب کرنے کے لیے ون ونڈو آپریشن جیسی سہولتوں کا مطالبہ بھی کیا جارہا ہے۔
ملک کی اہم ترین بندرگاہ کراچی پورٹ کے بعد پورٹ قاسم بھی کافی عرصے سے پر فعال ہے۔ملک کی سب سے بڑی اور جدید بندرگاہ کراچی پورٹ پر سالانہ پچاس ہزار ٹن سے زاید کارگو ہینڈل کیا جاتاہے۔ سال 2016۔2017 کے دوران کراچی کی بندرگاہ پر 1922 تجارتی جہازوں کی آمدورفت ہوئی اور 52 ملین ٹن سے زاید مال کی ترسیل ہوئی ۔پورٹ قاسم پر اس سال 1407 تجارتی جہازوں کی آمدورفت ہوئی۔ ملک کی تیسری اور مستقبل کی اہم بندرگاہ گوادر بلوچستان میں واقع ہے جسے خطے میں گیم چینجر کہا جارہا ہے۔یہ بندرگارہ دنیا بھر میں اہمیت حاصل کیے ہوئےہےاور عنقریب مکمل طور پر فعال ہوجائے گی۔گوادر پورٹ کے ساتھ خطے کا اہم ترین منصوبہ، پاک چین اقتصادی راہ داری زیر تعمیر ہے جس کی تکمیل سے چین اور وسط ایشیائی ممالک کو پاکستان کے تعاون سے دنیا بھر سے تجارت کے لیے بہ یک وقت زمینی اور بحری تجارتی راہ داری دست یاب ہوگی۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ آج سمندروں کے راستے 80 فی صد عالمی تجارت ہوتی ہےاور ترقی یافتہ ممالک میں یہ تناسب اس سے بھی زیادہ ہے۔دوسری جانب پاکستان کی تجارت کا70 فی صدسے زاید حصہ بحری تجارت سے وابستہ ہے۔دنیا میں سمندر کے ساتھ آباد ممالک کی بندرگاہیں جدید خطوط پر استوار کی جارہی ہیں اورجنوبی ایشیا میں چین آٹھ بندرگاہوں کو جدید بنانے کے امور میں ان ممالک سے خصوصی تعاون کر رہا ہے۔
بحری تجارت کےماہرین کے مطابق ملک کی بحری معیشت کو مستحکم بنا کرہم ملک کی مجموعی قومی پیداوار کو تین گنا تک بڑھاسکتے ہیں۔ان کے مطابق جامع میری ٹائم پالیسی کے تحت پاکستان کےبہت متحرک بحری شعبے کی حکمت عملی میں جامع اصلاحات کرنا ضروری ہے کیوں کہ سی پیک کا منصوبہ مکمل ہوتے ہی پاکستان میں بحری سرگرمیاں کئی گنا بڑھ جائیں گی۔ لہٰذا ہمارے بحری شعبے کی منظم ترقی کے ضمن میں بندرگاہوں اور جہاز رانی کی صنعت کے درمیان موجودہ اشتراک مزید اہمیت اختیار کر جائے گا۔چناں چہ اولین ضرورت اس امر کی ہے کہ ملکی معیشت کے اس اہم پہلو کی اہمیت کا صحیح طورپرادراک کیا جائے اور اپنے عوام، بالخصوص نوجوان نسل اور میر ی ٹائم انفرااسٹرکچر کی استعداد بڑھانے کے لیے مناسب مواقعےپیدا کیے جائیں تاکہ ملک کے بحری وسائل سے دیرپا فواید حاصل کیے جاسکیں۔ ورلڈ میری ٹائم ڈے اور اس طرح کے دیگر ایونٹس عالمی معیشت میں بحر ی صنعت کے کردارکی جانب توجہ مبذول کرانے اور عوام میں بحری شعبےسےمتعلق شعور اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔