چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس میاں ثاقب نثار نے گزشتہ ہفتے لاہور کے پرائیویٹ اسپتالوں میں مہنگے علاج کا از خود نوٹس لیتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ پرائیویٹ اسپتالوں نے علاج کے نام پر لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے، لوٹ مار کی اجازت نہیں دی جا سکتی، روزانہ کی بنیاد پر پرائیویٹ اسپتالوں کے خلاف شکایات موصول ہو رہی ہیں۔ ایک دن کے علاج کے نام پر لاکھوں روپے بٹور لئے جاتے ہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک نجی اسپتال کے سی ای او کو کہا کہ ’’ایک مریض کا 30دن کا بل 40لاکھ روپے آپ نے بٹور لئے، لوگوں کے کپڑے نہ اتاریں، گدھ نہ بنیں۔‘‘
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پرائیویٹ اسپتالوں کے بارے میں اپنے جو طویل ریمارکس دیئے وہ سو فیصد درست ہیں اور ہم تو ایک مدت سے شور مچا رہے ہیں کہ پرائیویٹ اسپتالوں نے جو لوٹ مار مچا رکھی ہے اس کو بند کرایا جائے مگر کون بند کراتا۔ ایک سابق وزیر صحت کے اپنے جڑواں بچے دو سال قبل اس نجی اسپتال میں ہوئے جس کے بارے میں چیف جسٹس نے ایکشن لیا ہواہے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت خصوصاً شہباز شریف یہ دعویٰ پچھلے پورے دس برس کرتے رہے کہ سرکاری اسپتالوں میں علاج بین الاقوامی معیار کا ہوتا ہے۔ جو لوٹ مار پی کے ایل آئی میں ہوئی اور جو پی کے ایل آئی کے بارے میں عدالت عظمیٰ نے کہا ہے وہ چھوٹے میاں صاحب کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ جس صوبے کا سابق وزیر صحت خود اقتدار میں رہ کر اپنے بچوں کی ڈلیوری کسی نجی اسپتال میں کراتا ہو، تو اس سے اندازہ لگا لیں کہ وہ سرکاری اسپتالوں پر کس قدر اعتماد کرتا تھا۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ملک کی تمام نامور گائناکالوجسٹس سرکاری اسپتالوں میں انتہائی بددلی کے ساتھ کام کرتی ہیں وہی ڈاکٹرز پرائیویٹ اسپتالوں میں رات رات بھر کام کرتی ہیں کیونکہ وہاں سے پیسے بٹورنے ہوتے ہیں۔ وہاں پر بغیر ضرورت کے سی سیکشن کر کے حاملہ خواتین کے خاندانوں کو لوٹا جا رہا ہے۔ سی سیکشن سے مراد آپریشن کے ذریعے بچے کی ڈلیوری ہے۔ کتنے دکھ اور افسوس کی بات ہے کہ گندے نالے پر واقع ایک نجی اسپتال میں نوجوان لیڈی ڈاکٹر ثنا مجاہد کے بیٹے کی نارمل ڈلیوری ہوئی مگر ڈاکٹروں کی غفلت اور لاپروائی سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ نارمل ڈلیوری میں موت ہونا ایک عجیب واقعہ ہے بہرحال اس پر تفصیلی بات پھر کریں گے۔ اور اس کا بیٹا ساری عمر کے لئے مامتا کے پیار سے محروم ہو گیا۔ پندرہ بوتلیں خون کی لگا دیں۔ یہ کیسا پرائیویٹ اسپتال ہے کہ جس کے بلڈ بنک میں خون نہیں تھا اور رات کے چار بجے لواحقین سے کہا جاتا ہے کہ چھ بوتلیں خون لے کر آئو۔ ایک ایسا خاندان جس کا تعلق دوسرے شہر سے ہو اور لاہور میں کوئی جاننے والا نہ ہو، وہ کہاں سے رات کو خون کا بندوبست کرے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا اس واقعے کی ذمہ دار لیڈی ڈاکٹر کے خلاف کارروائی ہو گی؟ کیا اس کا لائسنس کینسل ہو گا؟ کیا انصاف ملے گا؟ گدھ راج میں انصاف نہیں ملا کرتا بلکہ لوگوں کا گوشت نوچا جاتا ہے اور انہیں صرف موت دی جاتی ہے۔ چیف جسٹس نے اس واقعے کی انکوائری کرا کے ایک قابل ستائش قدم اٹھایا ہے۔ کیا انکوائری کرنے والی ڈاکٹرز انصاف کریں گی یا پھر اپنی پیٹی بہن کو بچائیں گی، یہ تو انکوائری کا نتیجہ آنے کے بعد پتہ چلے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’’خلاف قانون بننے والے نجی اسپتالوں کو گرا دیا جائے اور تمام چوروں کو پکڑنے کا وقت آ گیا ہے۔‘‘ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاہور شہر اور ملک کے دیگر علاقوں میں جب یہ نجی اسپتال خلاف قانون بنائے گئے تھے اس وقت کوئی تو اتھارٹی تھی جس نے ان کا نقشہ پاس کیا۔ بجلی، گیس اور پانی کی فراہمی کی۔ ڈی ایچ اے لاہور میں بغیر نقشہ پاس کرائے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ آپ کو پانی کا کنکشن لگا کر دیا جائے۔ ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی لاہور جو قوانین بناتی ہے ان کی خلاف ورزی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا تو پھر ایل ڈی اے اور کارپوریشن میں کس طرح خلاف قانون کام ہوتے رہے ہیں اور آج بھی ہو رہے ہیں۔ ایل ڈی اے میں رشوت کا بازار گرم ہے جو لوگ پٹرول پمپ لگاتے ہیں وہ مختلف محکموں اور ایل ڈی اے کو این او سی لینے کے لئے 25لاکھ روپے تک رشوت دیتے ہیں۔
لاہور کا ایک نجی اسپتال جو کہ فیروز پور روڈ پر انتہائی رش والی جگہ پر ہے اس کے بارے میں چیف جسٹس نے واضح کہہ دیا کہ اس اسپتال کو یہاں سے منتقل کیا جا سکتا ہے اور اس کی کار پارکنگ سرکاری سڑک پر ہوتی ہے جس پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ آج سے دس برس قبل اس نجی کار پارکنگ کا ٹھیکیدار اس اسپتال کے مالک کو روزانہ تیس ہزار روپے کار پارکنگ سے کما کر دیتا تھا اب کیا صورت ہو گی، آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ لاہور ڈیفنس میں ایک نجی اسپتال کی کار پارکنگ چار کنال میں ڈبل اسٹور میں ہے۔ اس کا سالانہ ٹھیکہ ڈھائی کروڑ روپے کے قریب ہے۔ اگر آپ کا مریض اسپتال میں داخل ہے اور آپ کو دس مرتبہ آنا پڑے تو آپ کو دس بار ٹوکن لینا پڑے گا یا پھر آپ 24گھنٹے کا ٹوکن 200/-روپے کا خرید لیں۔
آیئے اب تھوڑا سا جائزہ ان پرائیویٹ اسپتالوں کی لوٹ مار کا ہو جائے۔ حکومت نے کہا تھا کہ پرائیویٹ ٹیچنگ اسپتال پچاس فیصد بستر غریبوں مریضوں کے لئے مفت مختص رکھیں گے۔ کیا آج کسی نجی ٹیچنگ اسپتال میں ایسا ہوتا ہے۔ غریب مریضوں کو نجی اسپتالوں کی انتظامیہ انتہائی حقارت اور نفرت سے دیکھتی ہے۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی نامور پروفیسرز جن کی روزانہ کی پریکٹس لاکھوں روپے میں ہے وہ اب مریضوں کو نئے نئے طریقوں سے لوٹتے ہیں۔ غیر ضروری ٹیسٹ کراتے ہیں، پرائیویٹ اسپتال میں جاتے ہی مریض کو اس طرح ڈرایا جاتا ہے جیسے موت ابھی آ جائے گی۔
لاہور کے ایک نجی اسپتال نے پیرس وارڈ کے نام سے ایک وارڈ بنا رکھا ہے جہاں پر ڈالرز میں پیسے لئے جاتے ہیں۔ جہاں پر کمرے کا روزانہ کرایہ 35ہزار روپے ہے اور سویٹ روم کا پچاس ہزار روپے روزانہ ہے۔ فائیو اسٹار ہوٹلز سے زیادہ اس اسپتال کے کمروں کے کرائے ہیں۔
آج کوئی متوسط طبقے کا انسان کسی بھی نجی اسپتال میں علاج نہیں کرا سکتا۔ ایک معروف ڈاکٹر نے بتایا کہ انہوں نے ایک مریض کو تندرست ہونے پر صرف ایک دن بعد ہی گھر بھیج دیا تو اس ٹیچنگ اسپتال کے مالک ڈاکٹر نے ان کو بلا کر کہا کہ ڈاکٹر صاحب اس طرح تو ہم کاروبار کر چکے، آپ مریض کو زیادہ دن ٹھہرایا کریں۔ اس پر اس ڈاکٹر نے نجی ٹیچنگ اسپتال کے مالک کو کہا کہ آپ خود ڈاکٹر ہیں اور آپ کو بھی معلوم ہے کہ مریض اب تندرست ہے تو میں کیوں اس کو مزید اسپتال میں رکھتا۔ چنانچہ اس معروف ڈاکٹر نے وہ نجی اسپتال چھوڑدیا۔ لاہور میں دو نجی اسپتال گندے نالوں پر قائم ہیں۔ اب آپ خود سوچیں کہ وہاں پر لوگ تندرست ہو کر جاتے ہیں یا پھر مر کر جاتے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے ان نجی اسپتالوں کے گدھ راج میں کون ان کے ریٹ طے کرتا ہے؟ کون کمروں کا کرایہ طے کرتا ہے؟ کون کلینکل ٹیسٹوں کے ریٹ طے کرتا ہے؟ کون فیصلہ کرتا ہے کہ علاج ٹھیک ہو رہا ہے؟ اور مریض کو کتنے دن اسپتال میں ٹھہرانا ہے؟ ان اسپتالوں میں وارڈ کا کرایہ روزانہ ساڑھے چھ ہزار روپے ہے۔ (جاری ہے)
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)