• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جیو کے پروگرام ”جرگہ“ میں برادر سلیم صافی سے گفتگو میں صدر غلام اسحاق خان کے دست راست، جہاندیدہ روئیداد خان نے اعتراف کیا کہ غلام اسحاق خان محترمہ بینظیر بھٹو کو اس لئے نااہل قرار دلوانا چاہتے تھے کہ مرحومہ لیفٹسٹ تھیں اور مرحوم صدر چونکہ رائیٹسٹ تھے اس لئے وہ کسی مخالف ونگ کے ساتھ اشتراک عمل پر آمادہ نہیں ہوتے تھے… کیا یہ حسن اتفاق ہے یا تاریخ کا جبر کہ ایک غلام اسحاق خان پر کیا موقوف، قیام پاکستان تا امروز اختیارات کا اصل منبع و مراکز ”رائیٹسٹ“ ہی رہے ہیں۔ کیا یہ تماشہٴ دہر نہیں ہے کہ اپنی نجی زندگی میں یہ تمام کے تمام تو اتنے ”لبرل“ کہ حقیقی لبرل شرما جائیں، لیکن قوم کیلئے بہترین انتخاب، ”رجعت پسندی“ قرار پایا یہ ”تضاد“ تاریخ کے اوراق پلٹتے پلٹتے ’اشتراکیت“ کو زیرِ دام لانے کی خاطر رقصاں نظر آتا ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ مغرب کے تراشیدہ بتانِ رنگ و بو کس طرح بنیاد پرستی کا جامہ زیب تن کئے امریکی سامراج کی چاکری کرتے اور قوم کو امن، ترقی او علم و ہنر سے دور انتہا پسند راہوں کا سفیر بناتے رہے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کیپٹلزم اور کمیونزم ایک دوسرے کیخلاف کھل کر سامنے آگئے تھے اور چیانگ کائی شک کے بعد 1949ء میں چین میں کمیونزم کے آنے اور ستمبر1949ء میں روس کی جانب سے پہلے ایٹمی دھماکے نے امریکہ کے اوسان خطا کر دیئے تھے یہ وار اگر ایک طرف سرمایہ دارانہ سامراجی نظام پر کاری ثابت ہوئے تو دوسری طرف عالمی سامراج کو روس کے خلیج کے گرم پانیوں تک رسائی کی فکر لاحق ہو گئی تھی لہٰذا وہ فوری ایشیاء کی جانب متوجہ ہوا اور بھارتی وزیراعظم کو امریکہ آنے کی دعوت دے دی، اکتوبر 1949ء میں جواہر لال نہرو امریکہ گئے اور کسی بلاک میں شامل ہونے کی بجائے امریکی صدر کو اپنی غیر جانبدار پالیسی سے آگاہ کیا جس پر امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ ایچی سن نے یوں مایوسی کا اظہار کیا ”نہرو سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ اس امریکی منصوبے میں معاون ثابت ہو جو امریکہ، روس اور چین کیخلاف بروئے کار لانا چاہتا ہے۔“ The American Role in Pakistan اس موقع پر ایشیاء کے رگ و پے سے آشنا، امریکی حلیف برطانیہ کے سر ولیم بارٹن نے وزارت خارجہ کے فارن افیئرز کے جنوری کے شمارے میں امریکہ کو یہ مشورہ دیا ”مغرب مسلم پاکستان پر توجہ دے جو ان تیل پیدا کرنے والے مسلم ممالک کے قریب ہے، پاکستان کو یہ کام سونپا جا سکتا ہے کہ وہ کمیونزم سے حفاظت کیلئے مسلم ممالک کے اطراف ایک دیوار بنا ڈالے“ اس سلسلے میں برطانوی وزیر خارجہ ارنسٹ بی ون امریکی سیکرٹری آف اسٹیٹ ایچی سن سے ملے اور انہیں گریٹ گیم کی کامیابی کے واحد پُرامید آپشن کے بارے میں بتایا ”برطانیہ و امریکہ کو تیل کے دفاع کیلئے اشتراک کرنا چاہئے اور ہم یہ کام مسلم پاکستان کے ذریعے کر سکتے ہیں (American Role Page 70-71) ابن الوقت عناصر کی پاکستان میں زرخیزی کے باعث امریکہ کو اپنے منصوبے پر عمل درآمد کیلئے زیادہ تگ ودو نہیں کرنی پڑی، ذرا سے اشارے پر خارجہ سیکرٹری اکرام اللہ خان، وزیر خارجہ سر ظفر اللہ خان، سیکرٹری دفاع اسکندر مرزا اور وزیر خزانہ غلام محمد امریکہ یاترا اور امریکی سفارتخانے کے طواف کرنے لگے، اس سے امریکیوں نے یہ اندازہ لگایا کہ یہ لوگ کس ارزاں نرخ پر دستیاب ہیں ہر ایک کے من کو انہوں نے ٹٹولا تو ایک سے بڑھ کر ایک کو اقتدار کا رسیا پایا۔ اس حوالے سے غلام محمد کے متعلق امریکی سفارتخانے نے اپنی حکومت کو لکھا کہ ”غلام محمد پاکستان کی سربراہی کے خواب دیکھ رہا ہے“ الغرض ان تمام پاکستانی نمائندوں سے راہ و رسم کے بعد جو نتیجہ امریکہ کے ہاتھ لگا، اس کا اظہار امریکہ کے ڈائریکٹر آف میوچل سیکورٹی اسٹیٹ میکیگی نے اپنے ادارے کو ارسال کردہ رپورٹ میں یوں کیا ”جب روس سے سرد جنگ کی نوبت آئے گی تو پاکستان، برطانیہ و امریکہ کی ہر قسم کی امداد کیلئے تیار ہو جائے گا یہاں تک، جس میں ہوائی اڈے کا استعمال بھی شامل ہے“ (American Role P-88) اس منظرنامے میں ”استادوں“ کی نتیجہ خیز کوششوں کے بعد وزیر اعظم لیاقت علی خان روس کا دورہ منسوخ کرتے ہوئے امریکہ جا پہنچے اور تعلقات کے نئے دور کی شروعات کے ساتھ ہی گریٹ گیم کیلئے بساط سجانے کے عمل کا بھی آغاز ہو گیا، لیاقت علی خان شہید کر دیئے گئے اور گورنر جنرل غلام محمد ”ٹاپ“ پر آگئے اور یوں حقیقی اقتدار نوکر شاہی کو منتقل ہو گیا۔ بعد ازاں بوسیدہ و کمزور آلہ کاروں غلام محمد اور اسکندر مرزا کو نشان عبرت بنا دیا گیا اور ایوب خان جو کہ کار آمد مہرہ تھے، کلی اختیار کے ساتھ جلوہ افروز ہوئے۔ ایوب خان قیام پاکستان کے وقت برطانوی فوج میں لیفٹیننٹ کرنل تھے اور اس وقت سے برطانیہ کا نظر انتخابات تھے۔ لیاقت علی خان کی شہادت سے قبل جب سامراج مخالف محب وطن جنرل شیر محمد خان اور جنرل افتخار فضائی حادثے کا شکار ہو گئے تھے تو فوج میں سرعت کے ساتھ ترقیاں شروع ہو گئی تھیں اور ایوب خان صرف تین سال میں لیفٹیننٹ کرنل سے میجر جنرل بن گئے تھے۔ برطانیہ نے ہندوستان سے جاتے جاتے جنرل گریسی کے ساتھ انہیں نائب کمانڈر انچیف بنا دیا تھا، بہرکیف ایوب خان کو برطانیہ و امریکہ لے جایا گیا اور وفاداری کے کامل یقین کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ سیاسی قیادت کو رفتہ رفتہ منظر عام سے ہٹا کر ایوب خان کو اقتدار سونپ دیا جائے گا اور یہی ہوا، امریکہ کے مشہور سیکرٹری آف اسٹیٹ فاسٹر ڈلس کا قول ہے ”جو میرے ساتھ نہیں، وہ میرے مخالف ہیں“نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف سے بھی یہی کہا گیا تھا لیکن پرانے مفہوم کے ساتھ بدلتے حالات میں اس کا وہ تقاضا نہ تھا جو سرد جنگ کے زمانے میں تھا، اب اس کے معنی یہ ہوئے کہ یا تو ہمارے ساتھ ہوگے یا انتہا پسندوں کے ساتھ، جبکہ قبل ازیں یہ مطلب تھا ”جو کمیونسٹوں کے ساتھ ہے وہ ہمارا دشمن ہے“ اور اس فکر کو روبہ عمل لانے کیلئے سیاست کی بیخ کنی اور جمہوریت کو متروک بنانے کا ڈرامہ شروع ہوا، راولپنڈی سازش کیس، لیاقت علی خان کا قتل، حکومتوں کی اس قدر تیزی سے توڑ پھوڑ کہ نہروکو کہنا پڑا کہ میں اتنا جلدی لباس تبدیل نہیں کرتا جتنی جلدی پاکستان میں حکومت تبدیل ہو جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس ڈرامے کے مختلف حصے تھے، فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان میں آمریت کے ذریعے کمیونزم کا راستہ روکا جا سکتا ہے اور وقت نے اس کو درست بھی ثابت کیا لیکن اس کی قیمت پاکستان کو اپنی بربادی کی صورت میں چکانی پڑی۔ اس وقت دنیا اور سیاست دو بلاک لیفٹ، رائٹ میں تقسیم تھی، دائیں بازو کا جھکاؤ امریکہ کی طرف تھا اور بظاہر وہ مختلف لبادے اوڑھ کر اندرون خانہ امریکی عزائم کیلئے راہ ہموار کر رہے تھے بائیں بازو والے سامراج مخالف تھے، ترقی پسند (لبرل) قوتوں میں بھی اکثر کمیونسٹ خیالات سے متفق نہ تھیں لیکن وہ امریکہ کے مقابلے میں روس سے اشتراک عمل یا پھر غیرجانبدار خارجہ پالیسی کی حامی تھیں۔ ایوب خان کے دور میں لبرل قوتوں پر جبر کے تمام داؤ آزمائے گئے لیکن جمہوری قوتوں نے بالآخر طویل جدوجہد کے بعد انہیں بے دم کردیا، ایک شام پریذیڈنسی راولپنڈی میں بیٹھے تتلا کر باتیں کرنے والی اپنی معصوم نواسی سے زبان زد عام ”ایوب خان ہائے ہائے“ کا نعرہ سن کر فوری مستعفی ہوگئے (بحوالہ ایجنسیوں کی حکومت) اس موقع پر اگرچہ اقتدار ایک اور جرنیل کے سپرد کردیا گیا تھا لیکن عوامی جذبات ٹھنڈا کرنے اور اس یقین کے ساتھ کہ کنٹرولڈ ڈیموکریسی میں سامراج نواز جاگیردار و بنیاد پرست عوامی اعتماد حاصل کرلیں گے، 1970ء میں عام انتخابات کرائے گئے لیکن انتخابی نتائج نے امریکہ اور اس کے پاکستانی حلیفوں کو نیم پاگل کردیا۔ 300 میں سے شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ نے 160نشستیں حاصل کر لیں یہ متوسط و غریب طبقے کے باشعور و پڑھے لکھے نمائندے تھے ان میں جاگیردار و رجعت پسند ناپید تھے، ایوب خان مرحوم نے اپنی کتاب فرینڈز ناٹ ماسٹرز میں ون یونٹ کے تناظر میں بنگالیوں کی سیاسی سوچ اور غلبے کا ذکر کیا ہے، جو دبائے نہ دب سکا۔ 1970ء کے انتخابات کے بعد امریکہ کو خطرہ پیدا ہوگیا کہ اگر بنگالیوں نے مغربی پاکستان کی جمہوری قوتوں کے ساتھ مل کر آزاد خارجہ پالیسی اپنالی تو پھر وہ تو گریٹ گیم ہار جائیں گے لہٰذا ملک کے دولخت ہونے پر یہ خدشہ قصہ پارینہ بن گیا۔ بنگلہ دیش بن جانے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو بادل ناخواستہ قبول کئے گئے لیکن جب بھٹو مرحوم نے سفید ہاتھی کی پھبتی کسی تو پھر انجام بخیر نہ ہوا، مرد مومن ضیاء الحق کا دور سرد جنگ کا فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا لہٰذا پاکستان اسٹیبلشمنٹ اور اس کے حلیف نقاب اتار کر اور سیاسی حدود پھلانگ کر امریکی مقاصد کیلئے تلوار لئے میدان میں کود پڑے اور ان کے ”مجاہدین“نے سی آئی اے اور موساد کی تربیت سے امریکی اسلحہ و ڈالر سے صدر ریگن کے ”ہولی وار“میں وہ کارنامے انجام دیئے کہ انسانیت دنگ رہ گئی۔ روس امریکی قیادت میں پوری دنیا کا مقابلہ نہ کرسکا اور اس طرح ویتنام میں اپنی شکست کا بدلہ لینے کے ساتھ ساتھ امریکہ واحد سپرطاقت بن گیا۔ کمیونزم کے خاتمے، گرم پانیوں تک رسائی کی روسی طاقت ختم ہونے اور بعدازاں خود امریکہ کے خلیج میں بیٹھ جانے کے باعث پاکستان کی افادیت ختم ہوگئی، تو امریکہ نے اسے ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا اور آج وہی ہمارے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔ اس بحث کے تناظر میں غلام اسحاق خان مرحوم کی بائیں بازو کی مخالفت کے مقصد کو آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے غلام اسحاق خان یا اسٹیبلشمنٹ کی نیت میں ملکی خیرخواہی ہو لیکن ان کے عمل کے نتائج بہرصورت ملک و ملت کیلئے ضرررساں ثابت ہوئے۔ دنیا کے تمام ممالک کی خارجہ پالیسی ان کی داخلہ پالیسی و ضروریات کی تابع ہوتی ہے۔ ہمارا المیہ یہ رہا کہ ہماری داخلہ پالیسی خارجہ پالیسی کی تابع رہی، بیرون دنیا سے جو ڈکٹیشن ملی، ملک و ملت کو اس کے مطابق استعمال میں لایا جاتا، نتیجتاً وہ ممالک جو ہمارے طفیل دشمن سے چھٹکارا اور ترقی پا گئے ہمیں ناکامیاں اور دشمن پر دشمن ورثے میں دے گئے، موجودہ فوجی و سول اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیوں میں لچک خوش آئند ہے لیکن اس کے پرانے حلیف خود کو کلی تبدیلی پر ہنوز آمادہ نہیں کرسکے ہیں، چاکری کا شوق انہیں اب بھی بے چین رکھے ہوئے ہے، اگرچہ توبہ بھی کر چکے ہیں اور یوں حالت اس پرانے مے خوار کی سی ہوگئی ہے جو توبہ کی باریابی سے قبل ایک گھونٹ اور رگ جاں میں مستور کرنے کی خاطر ملتمس ہو۔
شاید ابھی نہ پہنچی ہو بابِ قبول تک
ساقی ذرا سی اور کہ توبہ سفر میں ہے
تازہ ترین