• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلاشبہ اللہ پاک کی مخلوق میں ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ اردگرد نگاہ ڈالیں تو اکثریت ایسے لوگوں کی ملے گی جنہیں صرف دنیا عزیز ہے۔ وہ ہر وقت متاع دنیا اکٹھی کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اُنہیں آخرت کا احساس ہے نہ مال جمع کرنے سے فرصت۔ عام مزدور سے لے کر کارخانہ دار تک مال بنانے کے لئے جھوٹ بولنے، بے ایمانی کرنے اور ضرورت پڑنے پر دھوکہ دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ دوسری طرف ایک قلیل تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو دن رات صرف آخرت کمانے اور رضائے الٰہی حاصل کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو روحانی بالیدگی کے حصول کے لئے دنیا کو تقریباً ترک کر چکے ہیں۔ وہ اپنی ہر ضرورت کے لئے اپنے خالق حقیقی کی طرف دیکھتے ہیں، فاقہ کشی اور عسرت میں بھی نہ مایوس ہوتے نہ ہی بدظن ہوتے ہیں۔ صرف دنیا اور صرف آخرت چاہنے والوں کے درمیان ایک قلیل مگر ممتاز تعداد ایسے حضرات کی بھی ہے جو دونوں جہانوں کے درمیان توازن قائم رکھتے ہیں اور اسوئہ حسنہ کی روشنی میں دنیا بھی سنوارتے ہیں اور آخرت میں بھی سرخروئی کے لئے نیک اعمال کرتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مشہور دعا یاد کیجئے جسے طواف کعبہ کے دوران رکن یمانی سے لے کر حجراسود تک پڑھا جاتا ہے۔ دعائے ابراہیمی دنیا اور آخرت کا حسین امتزاج ہے کہ اے رب! میری دنیا بھی سنوار دے اور آخرت بھی سنوار دے۔ مجھے جہنم کی آگ اور قبر کے عذاب سے بچا لے۔ رضائے الٰہی کے حصول کے لئے کوئی بہت بڑا عالم دین، فقیہ، حافظ قرآن اور امام ہونا ضروری نہیں۔ ایک عام معمولی انسان سے لے کر بڑے ’’آدمی‘‘ تک کوئی بھی رضائے الٰہی حاصل کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ اسے خلوص نیت سے اپنا مطمح زندگی یا مقصد حیات بنائے اور ایسے اعمال کرے جن سے رضائے الٰہی حاصل ہوتی ہے اور ایسے اعمال سے دور رہے جن سے اللہ پاک کی ناراضی کا اندیشہ ہوتا ہے۔ مجھے مولانا مودودی جیسے عظیم عالم و فاضل اور مفسر قرآن کی ایک بات یاد آ رہی ہے جو آج کل سوشل میڈیا پر بھی گردش کر رہی ہے۔ ایک بار کسی نے مولانا سے پوچھا کہ کیا آپ کو کبھی کسی ولی اللہ کے نیاز حاصل ہوئے۔ آپ نے فوراً جواب دیا ہاں بالکل کچھ روز قبل، میں ریل میں سفر کے بعد لاہور اسٹیشن پر اترا، سامان قلی کو دیا اور اسٹیشن سے باہر آ کر جب قلی کو میں نے سرکار کی مقرر شدہ مزدوری سے کچھ زیادہ پیسے دیئے تو اس نے فوراً زائد رقم واپس کر دی اور کہا میں وہی مزدوری لوں گا جو مقرر شدہ ہے۔ وہ ولی اللہ تھا۔ ذرا غور کیجئے مولانا مودودی نے اُسے ولی اللہ کیوں کہا:اول اس لئے کہ غربت کے باوجود اس کا قلب حب مال اور لالچ سے پاک تھا۔ دوم وہ مزدوری کر کے رزق حلال کما رہا تھا۔ سوم اپنے فرائض ایمانداری سے سرانجام دے رہا تھا۔ اسے آپ قناعت پسندی بھی کہہ سکتے ہیں۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ دنیا کی محبت سے دل پاک کر کے قناعت قبول کرنا جہاد اور مجاہدہ ہے اور یہ جہاد صرف رضائے الٰہی کے جذبے کی دین یا عطا ہوتا ہے۔ جس دل نے رضائے الٰہی کی خاطر اپنے آپ کو حب ِدنیا، بغض، نفرت، حسد اور غصے سے پاک کر لیا وہ ولی اللہ ہو گیا اور اللہ کا دوست بن گیا۔ گزشتہ دنوں میڈیا پر ایک افریقی ملک کے امام مسجد کا ایک سطری خطبۂ جمعہ کا بہت ذکر ہوا۔ دراصل یہ جمعہ کا خطبہ نہ تھا بلکہ خطبے سے قبل وعظ تھا۔ اُس امام نے وعظ کو ایک سطر میں بند کیا اور کہا کہ بھوکے انسان کو کھانا کھلانا مسجد بنانے سے بڑا کارثواب ہے۔ میں اس بات کا قائل ہوں کہ رضائے الٰہی کے حصول کا شارٹ کٹ مخلوق خدا کی خدمت ہے چنانچہ میں ان لوگوں کو عظیم سمجھتا ہوں جو مخلوق خدا کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں۔ خدمت کے جذبے کے ساتھ ساتھ اگر رضائے الٰہی کی آرزو اور جذبہ بھی محرک ہو تو انہیں ولی اللہ سمجھتا ہوں۔

اس حوالے سے یہ خبر پڑھ کر مجھے قلبی مسرت ہوئی کہ گزشتہ دنوں ورلڈ اکنامک فورم نے ’’اخوت‘‘ کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب کو عالمی ایوارڈ ’’شواب‘‘ سے نوازا۔ بے شک یہ ملک و قوم کے لئے ایک منفرد اعزاز ہے کہ جس ملک پر ہر طرف سے دہشت گردی کا کیچڑ اچھالا جا رہا ہے وہاں انسانی خدمت کے ایسے منصوبے اور ادارے بھی موجود ہیں جن کی خدمات کا اعتراف عالمی سطح پر کیا جا رہا ہے۔ اس سے پاکستان کا ’’سافٹ امیج‘‘ ابھرنے اور ابھارنے میں مدد ملے گی۔ ورلڈ اکنامک فورم ایک اہم ادارہ ہے جس میں دنیا بھر کے لیڈران، معیشت دان، سرمایہ کار، اہم این جی اوز اور ممتاز اداروں کے سربراہ شرکت کرتے ہیں۔ اس بار اس میں دنیا بھر سے قریباًچھ سو وفود نے شرکت کی۔ انہوں نے ڈاکٹر امجد ثاقب کے کارنامے پر حیرت کا اظہار بھی کیا اور خراج تحسین کے پھول بھی نچھاور کئے۔ سودی زنجیروں میں جکڑی دنیا حیرت میں گم ہے کہ ڈاکٹر امجد ثاقب نے بلاسود 61ارب روپوں کے قرضے دے کر کس طرح لاکھوں خاندانوں کو معاشی غم سے آزاد کیا اور اکثریت کو معاشی خوشحالی سے آشنا کیا۔ سود کے نظام میں جکڑے لوگ حیرت زدہ تھے کہ ان قرضوں کی واپسی سو فیصد ہے۔ سود اللہ اور اللہ کے رسولؐ کے خلاف جنگ ہے اور سود سے آزاد معاشی نظام متعارف کرانا نہ ہی صرف ایک عظیم دینی خدمت ہے بلکہ رضائے الٰہی کے حصول کا بہترین ذریعہ بھی ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب اس سے قبل بہت سے عالمی اعزازات حاصل کر چکے ہیں۔ وہ قوم کی مبارکوں کے حقدار ہیں۔ اگر بنگلہ دیش کے ڈاکٹر یونس کو سود کے ساتھ قرض دے کر عام لوگوں کی معاشی خدمت پر نوبیل پرائز مل سکتا ہے تو اِن شاء اللہ ایک دن یہ اعزاز پاکستان کے ڈاکٹر امجد ثاقب کو بھی ملے گا۔ ان کا کارنامہ دنیا اور آخرت دونوں کو سنوارنے کا حسین امتزاج ہے۔ سبحان اللہ ذرا الفاظ کی گہرائی اور گیرائی پر غور کیجئے ’’جو شخص اللہ کے بندوں کے لئے خیر کا راستہ بناتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کی نسلوں میں خیر منتقل فرما دیتا ہے۔ ‘‘

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین