کسی بھی ملک کی ترقی میںجہاں مردوں کا ہاتھ ہوتا ہے، وہاں خواتین بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ نا صرف حکومت، کاروباری شعبہ سے وابستہ خواتین کے لیے بہترین اور موزوں پالیسیاں تشکیل دے بلکہ ان کے خاندان کے افراد بھی ان کا ساتھ دیں۔
آج کے ترقی یافتہ دورمیں ملازمت پیشہ خواتین معاشرے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ پاکستان میں خواتین کی ایک کثیر تعداد طب، تدریس، افواج، نرسنگ ، انجینئرنگ، بینکاری، اکائونٹنگ اور لاتعدادنجی شعبوں میں کام کر رہی ہے۔ پاکستان میں ایسے گھرانوں کی کمی نہیںہے، جو خواتین کی خداداد صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی بخوشی اجازت دیتے ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق، کراچی یونیورسٹی میں طالبات کی تعداد لگ بھگ ستّر فیصد تک جا پہنچی ہے یعنی اس اندازے کو اگر درست تسلیم کرلیا جائے تو پھر طلبہ کی تعداد صرف تیس فیصد ہی تسلیم کی جائے گی۔ یقیناً ملک کی خواتین میں حصول ِتعلیم کا رُجحان بے حد خوش آئند ہے۔ ایسے گھرانے جہاں لڑکیوں کو پانچویں جماعت یا پھر آٹھویں جماعت سے آگے پڑھانا معیوب سمجھا جاتا تھا، آج ان گھرانوں کی لڑکیاں بھی پیشہ ورانہ اداروں میں تعلیم حاصل کررہی ہیں۔
لیکن اس کے باوجود ان ستّر فیصد طالبات میں سے اکثریت کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی تعلیم سے ملک و قوم کو تو چھوڑیں، خود اپنے لیے بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں کر پا تیں۔ ایسی لڑکیوں کی بہت بڑی تعداد ہے جنہوں نے پروفیشنل تعلیم حاصل کر رکھی ہے، مثلاً ایم بی بی ایس کررکھا ہے لیکن ڈاکٹر بننے کے بعد پریکٹس نہیں کررہیں، یا تو ان کی شادیاں ہوگئی ہیںاور سسرال والوں نے جاب کرنے یا کلینک کھولنے کی اجازت نہیں دی یا پھر ایم بی بی ایس کے بعد گھر سے ہاؤس جاب کرنے کی اجازت نہ مل سکی۔
ایک خیال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ آج خواتین کی اتنی بڑی تعداد کو حصولِ تعلیم کی اجازت صرف اس لیے مل سکی ہے تاکہ ان کی اچھی جگہ شادی ہو جائے۔ یعنی بنیادی مقصد شادی ہے اور جب شادی ہی زندگی کا مقصد ہے تو لڑکیوں کو پروفیشنل تعلیم دلوانے اور یونیورسٹیوں میں داخلہ دلوانے کی کیا ضرورت ہے؟
موجودہ حالات میں ہی نہیں، فطرت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ عورتوں کو اپنی زندگی کے معاشی اور سماجی فیصلوں کا مکمل اختیار حاصل ہونا چاہیے۔
ہمارے شہری معاشرے میں ماؤں کی تین اقسام ہیں۔ ایک وہ مائیں جو ملازمت کررہی ہیں مگر اُنہوں نے اپنی ملازمت یا اپنے کیرئیر کو بہت زیادہ اپنے اوپر سوار کرلیا ہے، تو ظاہر ہے ان کے گھر کا نظام متاثر ہوتا ہوگا۔ دوسری وہ مائیں جنہوں نے اپنے گھر کو بہت زیادہ اپنے ذہن پر سوار کرلیا ہے، تو پھر وہ اپنی ملازمت کی ذمہ داریوں کو صحیح طرح سے نہیں نبھا پاتیں۔ تیسری قسم وہ ہے جو ملازمت اور گھریلو دونوں قسم کی ذمہ داریاں اچھی طرح نبھا رہی ہیں اور انہوں نے گھر اور ملازمت دونوں میں توازن قائم رکھا ہوا ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ زیادہ تر ملازمت پیشہ مائیں اپنی دونوں ذمہ داریوں کو نبھا رہی ہیں۔ ملازمت پیشہ ماؤں کے اندر وقت کو صحیح تقسیم کرنے کی خوبی ہوتی ہے۔
ملازمت پیشہ مائیں بہترین مائیں ہوتی ہیں اور وہ گھریلو ماؤں کی نسبت اپنی اولاد کی کہیں زیادہ بہتر تربیت کرتی ہیں۔ ان ماؤں کے اندر نظم و ضبط زیادہ ہوتا ہے، اس لیے ان کے بچوں کی زندگی بہت ’منظم‘ ہوتی ہے۔ ان کے بچے بہت ذمہ دار اور وقت کے پابند ہوتے ہیں۔ ان کے اندر خود انحصاری کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے۔
آج جبکہ خواتین ہمارے ملک کی آبادی کا 49فیصد ہیں۔ اگر کسی بھی ملک کی 49فیصد آبادی کو محض گھر تک محدود کردیا جائے تو وہ ملک کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا۔ اگر ملک کی 49فیصد آبادی یعنی خواتین تعلیم حاصل کرکے اپنے لیے کسی پیشے کا انتخاب کرلیں تو یقیناً اس ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرسکتی ہیں۔
ہم سب کے مشاہدے میں یہ بھی ہے کہ ملازمت پیشہ مائیں اپنی ملازمت کی ذمّہ داریوں کے ساتھ اپنے گھر، اولاد اور رشتہ داریوں کی ذمہ داریاں بھی احسن طریقہ سے نبھاتی ہیں۔ ان کا دل و دماغ بہت وسیع ہوتا ہے۔ صبرو استقامت اور حسنِ سلوک کا مادّہ ان کے اندر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ایسی مائیں بہت حوصلہ مند ہوتی ہیں۔
ملازمت پیشہ خواتین کے بچوں کے اندر خودانحصاری کا جذبہ گھریلو ماؤں کے بچوں کی نسبت بہت زیادہ پایا جاتا ہے۔ ان کے اندر اپنا کام خود کرنے کی عادت ہوتی ہے، اس لیے کہ وہ ہر کام کے لیے گھریلو خواتین کے بچوں کی طرح اپنی ماں کا سہارا لینے کے شروع ہی سے عادی نہیں ہوتے۔
پاکستان کے ادارہ برائے شماریات کا کہنا ہے کہ، پاکستان میں برسرروزگار خواتین کی تعداد گزشتہ ایک دہائی کے دوران چھپن لاکھ نوے ہزار سے بڑھ کر ایک کروڑ اکیس لاکھ سے زیادہ ہوچکی ہے۔
پاکستان کی ورک فورس میں خواتین کی شرح بڑھانے کی ضرورت ہے۔ تاہم پاکستان میں دفاتر اور اداروں میں خواتین کے لیے کام کرنے کازیادہ قابل فخر ماحول موجود نہیں ہے، اوپر سے جو قانون سازی ہوتی ہے، اس پر بھی عمل درآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے کیا ہی اچھا ہو کہ ہر ادارہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرے اور کام کرنے کاایسا ماحول مہیا کرے، جہاں خواتین کو تحفظ کا احساس بھی حاصل ہو اور ان کی صلاحیتوں میں بھی اضافہ ہو۔