• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس میں کوئی شک نہیں قومی زندگی کے ستر برس میں ہم وہ نہیں کرسکے جو کرنا چاہیے تھا۔ جو کچھ اب تک حاصل کیا وہ بہت کم ہے۔ اسکے مقابلے میں جتنی قوم میں صلاحیت اور قدرتی وسائل ہیں، ہم اپنی افرادی قوت اور قومی وسائل دونوں کا درست اور صحیح استعمال کرنے میں ناکام رہے۔ قیام پاکستان کے پہلے عشرے میں ابتدائی پانچ سال قائد اعظمؒ اور انکے تربیت یافتہ سیاستدان اقتدار میں تھے، یہ بڑا ہی آتشیں اور ہنگامی زمانہ تھا، آبادی کا تبادلہ، مہاجرین کا سیلاب، پوری فوج نہ مالی وسائل، ادھوری شہری انتظامیہ، کرنسی نہ بینکوں کا نظام، نوزائیدہ مملکت پر انڈیا کا حملہ، یہ سب کچھ ایک ہی وقت میں سنبھالا جا رہا تھا۔ ہندوستان کی دشمنی نے دہری مصیبت میں ڈال رکھا تھا۔ برصغیر پاک و ہند کی اقتصادیات کا انحصار زراعت پر تھا۔ مشرقی پاکستان میں چاول اور پٹ سن پیدا ہوئی مگر اسکے کارخانے مشرقی بنگال میں تھے۔ مشرقی بنگال ہندوستان کے پاس تھا چنانچہ انڈیا نے خام پٹ سن خریدنے سے انکار کر دیا۔ مغربی پاکستان میں کھانے کو گندم اور کمانے کو کپاس تھی اور کپاس کے کارخانے ہندوستان کے پاس تھے چنانچہ یہاں بھی انہوں نے کپاس خریدنے سے انکار کیا۔ اس وقت ہماری قیادت بیدار مغز، حوصلہ مند اور سرکاری مشینری یعنی سول سروس محنتی، جفاکش، تعلیمیافتہ، ہنرمند اور محب وطن تھی۔ دونوں نے مل کر مشکلات حل کرنے کا بیڑا اٹھایا اور دیکھتے ہی دیکھتے پٹ سن اور سوتی دھاگے کے کارخانے قائم ہوئے کپڑا بنا، پٹ سن کے کارخانے بھی چل پڑے اور پاکستان چند برس میں اقتصادی میدان میں ہندوستان سے کہیں آگے نکل گیا۔ پاکستان کے حصے میں تھوڑی سی فوج آئی لیکن ایسی ماہر اور دلیر کہ اس کے کارناموں نے دنیا کو ششدر کردیا۔ پاکستان کے حصے کا اسلحہ انڈیا کے اسلحہ خانوں میں دھرا تھا اور روپیہ بھی اس کی تحویل میں تھا۔ اس نے اسلحہ اور روپیہ دینے میں لیت و لعل سے کام لیا پھر بھی بقول اقبالؒ

مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

مومن سپاہی نے خالی پیٹ اور بے تیغ ہونے کے باوجود دشمن کے چھکے چھڑا دئیے اور دس گنا بڑا دشمن بھاگ کر اقوام متحدہ سے پناہ کا خواستگار ہوا۔ خود چھیڑی جنگ کو یو این او کے ذریعے کشمیر میں استصواب کے وعدے کیساتھ بند کروایا۔ یوں ہمارا آغاز دفاع، صنعت، تجارت اور شہری انتظامیہ کی طرف سے اطمینان بخش ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں قابل تقلید مثال بن گیا۔ قائد اعظم ؒکی وفات اور لیاقت علی کی شہادت کے بعد اگلے پانچ برس سیاسی اقتدار سول بیورو کریسی اور طالع آزما سیاستدانوں کے ہاتھ میں رہا۔ پھر بھی قومی ترقی کی رفتار برقرار رہی لیکن سیاسی استحکام باقی نہ تھا۔ ان دس برس میں ریاست کا نظام چلانے کیلئے آئین بنا نہ حقیقی جمہوریت کو موقع دیا گیا۔ سیاسی افراتفری سے فائدہ اٹھا کر یا تنگ آکر فوج نے اقتدار سنبھال لیا۔ ملک میں مارشل لا لگا دیا گیا۔ ایوب خان کی قیادت میں فوجی حکومت کے دوران دفاعی استحکام اور قومی ترقی کی رفتار جو بانیان پاکستان کے ہاتھوں شروع ہوئی اس کی رفتار نہ صرف برقرار رہی بلکہ اس میں نظم و استحکام آیا اور پاکستان اقتصادی میدان میں ترقی کرنیوالا دنیا کا تیز رفتار ملک قرار پایا۔ تب اقتصادیات میں نوبل انعام یافتہ امریکی ماہر نے پاکستان کو ایشیا کا ’’کیلیفورنیا‘‘ قرار دیا تھا۔

پہلے دس برس کی طرح ایوب خان کے دس سال ان دو عشروں میں پاکستان کی اقتصادی ترقی بے مثال رہی لیکن کوئی سیاسی نظام تشکیل نہ پا سکا۔ جمہورت کا کوئی نام لیوا نہ تھا چنانچہ سیاسی نظام تشکیل نہ دینے اور جمہوریت کو نظر انداز کرنے کا بہت تکلیف دہ خمیازہ بھگتنا پڑا۔ عوام کیلئے قابل اعتماد سیاسی نظام نہ ہونے سے اگلے دس برس ہولناک سیاسی بحران کے تھے۔ اس بحران میں فوجی اور سیاسی طالع آزمائوں کیلئے موقع فراہم کیا، عوام کو بھڑکایا گیا، ملک دولخت ہوا، خود غرض اور شہرت و اقتدار کے بھوکے حکمرانوں نے ملکی اقتصادیات، اخلاقیات، تعلیم و صنعت کی اینٹ سے اینٹ بجادی اور دنیا بھر میں تیزی سے ترقی کرتا پاکستان جس نے بیس برس میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا تھا، سیاسی عدم استحکام کے سبب اقتصادی ترقی میں جمود کا شکار ہوا بلکہ دولخت ہوگیا۔

اس جمود بلکہ تنزل کی بنیادی وجہ سول سروس کی تباہی بھی تھا۔ انگریزی دور حکومت نے بہترین تعلیم یافتہ، تربیت میں بے مثال اور اعلیٰ نظم و ضبط کی حامل سول سروس ورثہ میں چھوڑی تھی۔ برصغیر کے سب اداروں میں یہ ایک بہترین ادارہ تھا اور ریاستی امور کے تسلسل کا ضامن، حکومتیں بدلتی رہتیں مگر اس ادارے کے اعلیٰ تعلیم و تربیت اور اختیارات اور قواعد و قانون کے مطابق فیصلوں پر اصرار نے سیاسی اور فوجی حکمرانوں کو اسکے بارے میں حسد اور تعصب میں مبتلا کردیا۔ یہی سول سروس تھی جس نے پاکستان کے پہلے دن سے ایوب خان کے آخری روز تک قومی ترقی اور امن و امان کی ضمانت فراہم کی۔

یحییٰ خان کو بغض اور اعلیٰ افسران سے ذاتی عناد تھا چنانچہ اقتدار میں آتے ہی اس نے بہترین افسران کو بدعنوانی کے بے سروپا الزامات لگا کر مارشل لا آرڈرکے تحت ملازمتوں سے برطرف کردیا۔ یحییٰ خان کے بعد حکومت ایسے شخص کے پاس آئی جو اگرچہ اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا لیکن منتقم مزاج، حاسد اور بدترین احساس برتری میں مبتلا، اس نے سول سروس کا آئینی تحفظ ختم کرڈالا۔ بچ رہنے والے بہترین افسروں کی اکثریت کو نکال باہر کیا، بھٹو کے ہاتھوں سول سروس ہی نہیں ہر ادارے کی در گت بنائی گئی۔ پاکستان جو پہلے ہی دولخت ہوچکا تھا اس کی اقتصادی ترقی، امن و امان کی ضمانت، تعلیم کا معیار، اقتصادی حالت، کرنسی کا استحکام دیکھتے ہی دیکھتے زمین بوس ہو گیا۔ بھٹو نے سول سروس کو کمزور کردیا، ترقی کرتے ہوئے نجی اداروں کو قومی تحویل میں لے کر پاکستان کا شاندار مستقبل بدعنوانی، ناکارکردگی، بری حکمرانی اور افلاس کے اندھیروں میں جھونک دیا۔

بھٹو کے بعد ملک ایک دفعہ پھر مارشل لا کی زد میں تھا۔ ضیاء الحق کے بارے ذرائع ابلاغ اور سورج مکھی دانشوروں کے تعصب کے باوجود ایوب خان کے بعد پیدا شدہ افراتفری پر اس نے قابو پایا۔ قوم کو احساس کمتری سے نکالا۔ بچ جانے والی سول سروس کے بہترین افسروں پر اعتماد کیا۔ انہیں احترام اور عزت کے ساتھ اختیارات تفویض کئے تو سیاسی مخالفت اور روس کے افغانستان پر حملے کے باوجود ملک کے اندر امن کو برقرار رکھا گیا۔ ملک تیزی سے ترقی کرنے لگا، دنیا بھر میں ہمارے دوستوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، اقتصادی میدان میں ہم نے ایک دفعہ پھر دشمنوں کو کوسوں پیچھے چھوڑ دیا۔ ملک میں صنعت اور زراعت میں قابل ذکر ترقی ہوئی۔ فوجی طاقت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ بہت سی فوجی ضروریات میں خودکفالت حاصل کر لی گئی۔ ملک ایٹمی طاقت بنا، ضیاء الحق کے بعد ناتجربہ کاری اور بدعنوانی کا بدترین دور شروع ہوا اور ساتھ ہی سول سروس کی موت واقع ہوگئی۔

اچھی حکمرانی کا، اچھی سول سروس کے بغیر تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ سول سروس کسی بھی ریاست میں ’’ریڑھ کی ہڈی‘‘ کی حیثیت رکھتی ہے اور ریڑھ کی ہڈی کے بغیر کھڑا بھی نہیں ہوا جاسکتا، چہ جائیکہ آپ بھاگنے کی کوشش کریں۔ ملک کے استحکام، قوم کی ترقی اور اچھی حکمرانی کیلئے سول سروس پر بھروسہ کرنا اور اسے بہتر بنانا ہوگا۔

پاکستان کے ابتدائی زمانے کی سول سروس واپس لائیں۔ اس کی توہین کرنا بند کریں، ان کی تعلیم اور اچھی تربیت کا بندوبست کریں، ملازمت کی شرائط بہتر بنائیں، ان کی عزت نفس کی حفاظت کریں اور قانونی تحفظ فراہم کریں۔ قواعد و ضوابط کی پابندی سے باہر نکلنے پر مجبور نہ کریں۔ پوسٹنگ اور ٹرانسفر کا قابل بھروسہ نظام وضع کریں پھر ان پر اعتماد کر کے دیکھیں تو یقیناً قوم کو یہ سروس مایوس نہیں کرے گی۔اس بات کو بھولنا نہیںچاہئے کہ دنیا بھر میں کوئی ریاست نہیں جس نے اچھی، پیشہ ور، دیانتدار اور پرعزم سول سروس کے بغیر ترقی کی ہو یا استحکام حاصل کیا ہو۔

تازہ ترین