• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عجیب سا منظر نامہ آنکھوں کے سامنے بنتا اور بگڑتا نظر آرہا ہے۔ عمران خان نے قوم سے جو وعدے کئے تھے ان کا حشر آپ دیکھ رہے ہیں، اگرچہ میں خلوص نیت سے سمجھتا ہوں کہ پچاس ساٹھ دن تو بہت ہی کم عرصہ ہوتا ہے کیونکہ حکومتی کاروبار کو سمجھنے میں مہینے اور سال لگتے ہیں۔ یہ ہرگز بچوں کا کھیل نہیں، عمران خان کے وعدوں میں سب سے نمایاں وعدہ پچاس لاکھ گھر تعمیر کرنے کا تھا جس پر ابھی تک عمران حکومت قائم ہے اور ماہرین بھی تقریباً ڈھونڈھ چکی ہے۔آج کے منظر نامے کو بنتے اور بگڑتے دیکھتا ہوں تو مجھے یہی پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ مستقبل میں عمران خان کی گردن کا طوق بنتا نظر آتا ہے۔ چند روز قبل شہباز شریف کو بلایا کسی اور کیس میں گیا مگر گرفتاری آشیانہ ہائوسنگ اسکیم میں ہوئی۔ شہباز شریف نے آشیانہ ہائوسنگ اسکیم کے تحت کم آمدنی والے لوگوں کو گھر فراہم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے ترجمانوں کا کہنا ہے کہ اسکیم میں نہ حکومتی خزانے سے کوئی رقم لی گئی نہ حکومتی وسائل ملوث تھے۔ ٹھیکے میں گڑ بڑ دیکھ کر خود شہباز نے مقدمہ اینٹی کرپشن محکمے کے حوالے کیا تھا۔ نیب کا دعویٰ ہے کہ اس اسکیم میں اربوں کا گھپلا ہوا، شنید ہے فواد حسن فواد وعدہ معاف گواہ بن کر بہت سے راز افشا کرچکے ہیں اور سارا ملبہ سابق وزیر اعلیٰ پر ڈال چکے ہیں۔ مجھے یقین نہیں لیکن اگر یہ خبر درست بھی ہے تو ظاہر ہے کہ خادم اعلیٰ کے اسٹاف کا کام ان کے احکامات کی تعمیل ہی ہوتا ہے کیونکہ خادم اعلیٰ افسران کی عقل مت مار کر انہیں ربوٹ بنادیتے ہیں اور ریموٹ کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ انہیں نہ کسی کے مشورے کی ضرورت ہوتی ہے نہ وہ اختلاف رائے پسند کرتے ہیں۔ وہ صرف اپنے خوابوں کو علمی جامہ پہنانے میں یقین رکھتے ہیں اور اپنے خوابوں میں کسی اور کا خواب شامل کرکے انہیں’’مکدر‘‘نہیں کرتے۔ سابق خادم اعلیٰ کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے ترقیاتی منصوبوں میں اربوں روپے بچائے اور یہ کہ ان کا دامن اور ہاتھ دونوں صاف ہیں۔ پوری صوبائی حکومت اور کئی درجن سرکاری محکموں کی موجودگی میں 56کمپنیاں بنانا اور ان کی سربراہی اپنے پسندیدہ افسران کو لاکھوں روپے ماہوار پہ عطا کرنا بھی انہی کا خواب تھا ورنہ گزشتہ دو صدیوں سے صوبائی حکومت کے محکمے ہی منصوبے بناتے، حاکموں کی منظوری لیتے اور ان کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتے تھے۔ سابق خادم اعلیٰ کے بڑے بھائی نے بھی بطور وزیر اعلیٰ لیبر کالونیاں بنوائیں اور بہت سے ترقیاتی منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا لیکن ان کے حوالے سے ان کی مخالف حکمران محترمہ بینظیر بھٹو کو کوئی مواد نہ مل سکا، جب حکمران قانون ضابطے اور روایات سے ہٹ کر ایسے کام کریں جن کی قانون میں گنجائش موجود نہ ہو تو بہرحال وہی انجام ہوگا جو کمپنیوں کے حوالے سے خادم اعلیٰ پنجاب کا ہورہا ہے۔ صاف پانی کمپنی اربوں کھا گئی اور شہریوں کو ایک بوند پانی نہ ملا۔ اس سے ملتی جلتی کارروائیاں دوسری کمپنیوں سے بھی منسوب ہیں۔ یہی کام موجود صوبائی محکموں سے کرائے جاتے تو اربوں روپے بچتے اور وزیر اعلیٰ پر حرف بھی نہ آتا۔ خیر کوئی بات نہیں کیونکہ جب کوئی حکمران تین بار منتخب ہو تو اس میں تکبر اور حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی کا پیدا ہوجانا قدرتی بات ہے۔ انہی’’خوبیوں‘‘ یعنی تکبر اور حدسے بڑھی ہوئی خود اعتمادی کا نتیجہ ماڈل ٹائون سانحہ، 56کمپنیاں وغیرہ وغیرہ ہیں۔ رہی میٹرو بس یا اورنج ٹرین یہ بہرحال لاہور کے عوام کی سہولت کے منصوبے تھے۔ اس حوالے سے ترجیحات پر بحث ہوسکتی ہے لیکن نیت پر نہیں۔ ان کے برعکس آشیانہ اسکیم تو کوئی سفید یا کالا ہاتھی بھی نہیں تھی اور نہ ہی مستقل بوجھ بن کر پنجاب کے خزانے کا سانس بند کرنے لگی جس طرح میٹرو بس اور اورنج ٹرین کی سبسڈی صوبائی خزانے کے لئے مستقل عذاب بن جائیں گی۔ مختصر یہ کہ جب میں آشیانہ اسکیم میں شہباز شریف کی گرفتاری کا سوچتا ہوں تو مجھے پچاس لاکھ گھر، اگر بن گئے، موجودہ حکمرانوں کے گلے کا پھندا نظر آتے ہیں۔ بنتا بگڑتا منظر نامہ بتاتا ہے کہ وطن عزیز میں جو بھی کوئی بڑا ترقیاتی منصوبہ بنا کر بڑا لیڈر بنے گا اس میں بے قاعدگیاں (Irregularities) ڈھونڈھنے کے لئے نیب موجود ہے۔ یہ الگ بات کہ نیب کی نالائقی ہمارے سیاستدانوں کے لئے باعث رحمت ہے کہ آج تک نہ کوئی انکوائری نتیجہ خیز ہوئی نہ شک و شبہ سے بالاتر جرم ثابت ہوسکا اور نہ ہی عدالتوں نے سزائیں سنائیں۔ اب تو خود اعلیٰ عدالتیں نیب کی اہلیت و صلاحیت پر شک کا اظہار کررہی ہیں۔ یوں بیچاری نیب لوگوں کی نگاہوں میں وقار بھی کھوچکی ہے اور سیاستدانوں کے لئے انتقامی ادارہ بن چکی ہے۔ خوب ہیں ہمارے تجزیہ نگار کہ ان کے نزدیک میاں شہباز شریف کی گرفتاری ضمنی انتخابات پر اثر انداز ہونے کی سازش ہے۔ یقین رکھیے اگر پہلے مسلم لیگ(ن) کو ہزاروں ووٹ ملنے تھے تو اب ماشاء اللہ لاکھوں ملیں گے۔ مسلم لیگ ن کو ناراض ہونے کے بجائے نیب کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ گرم سیاسی فضا میں گرفتاریاں اور ہتھکڑیاں بےپناہ ہمدردی اور محبت پیدا کرتی ہیں۔ اس لئے میرے نزدیک نیب ایک لیڈر ساز ادارہ ہے جو لیڈر بناتا اور چھوٹے لیڈروں کو بڑا اور بڑوں کو مزید بڑا بناتا ہے۔اس سے زیادہ نیب سیاستدانوں کی اور کیا خدمت کرسکتا ہے کہ جن لیڈروں کی کئی کئی براعظموں میں پھیلی جائیدادیں زبان زد عام ہیں اور کمپیوٹر سے لے کر سوشل میڈیا تک گردش کررہی ہیں وہ یا تو نیب کو نظر نہیں آتیں اگر نظر آتی ہیں تو نیب نہ کرپشن ڈھونڈھ سکتا ہے نہ ہی ان کے ثبوت فراہم کرسکتا ہے، اگر عمران خان نے ایسے ہی اداروں کے ذریعے پاکستان سے لوٹ مار یا منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون وطن جمع کی گئی رقوم واپس منگوانی ہیں تو ہماری دعائیں ان کے ساتھ ہیں مگر ہماری دعائوں سے تو مچھر بھی نہیں مرتا۔ ہر سال درجنوں پاکستانی ڈینگی مچھر کے کاٹنے سے مرجاتے ہیں۔

بنتا بگڑتا سیاسی منظر نامہ ایک عجیب سی روایت کو جنم دے رہا ہے کہ جو حکمران بھی کوئی بڑا منصوبہ بنائے گا وہ اقتدار سے محرومی کے بعد اس کی گردن کا طوق بن جائے گا بشرطیکہ ’’قوتوں‘‘ نے ایسا چاہا۔ آج آشیانہ ہائوسنگ اسکیم تو کل پچاس لاکھ گھروں کا منصوبہ کردار کشی اور قید و بند کا پھندا بنے گا۔ اے کاش! کوئی صاحب وزیر اعظم عمران خان کو سمجھائیں کہ ایک یوٹرن مزید لے لیں اور .......؟؟

تازہ ترین