• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے والد گرامی، زبدتہ الحکماء، حکیم نوراحمد کاانتقال ایک سو سال کی عمر میں 16ستمبر 1998ء کو ہوا۔ وہ صرف میرے والد ہی نہیں، بلکہ بہترین دوست اوراستاد بھی تھے۔تب ہی گرچہ انہیں بچھڑے ایک طویل عرصہ گزر گیا، مگر اس کے باوجود مَیںانہیں ذہن کے نہاں خانوں سے نکال نہیں پایا۔آج بھی ان کی شخصیت کے بعض پہلوذہن پر اچھی طرح نقش ہیں۔ ان کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ دوسرے بہت سےطبیبوں کی طرح نسخے دینے میں بخیلی سے کام نہیں لیتے تھے، نہ ہی ایسے طبیبوں میں شمار ہونا چاہتے تھے، جو بزرگوں کے نسخے سینے میں لے کردنیا سے چلےجاتے ہیں۔ مَیں نے ایک بارخاندانی نسخوں کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے کہا کہ ’’میں اپنا تمام علم اور تجربہ کالموں اور کتابوں کی شکل میں چھوڑےجا رہا ہوں۔‘‘ واضح رہے کہ وہ اپنے دور کے بڑے اخبار ’’مشرق‘‘ میں چالیس سال تک طبّی کالم لکھتے رہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے، تو غلط نہ ہوگا کہ ان کا شمار اخبارات میں اوّلین طبّی کالم لکھنے والوں میں ہوتا تھا۔ انہوں نے بے شمار امراض پر سائنسی اور طبّی اعتبار سے اپنے تجربات کی روشنی میں بہت کچھ لکھا۔ اس طرح انہوں نے نہ صرف پھلوں اور سبزیوں کی افادیت کو اجاگر کیا بلکہ عام لوگوں میں خوراک کے ذریعے علاج معالجے کا شعور بھی پیدا کیا۔ ان کے کالم اتنے ذوق و شوق سے پڑھے جاتے تھے کہ انہیں قارئین کی طرف سے بوریوں میں بھر کر ڈاک وصول ہوتی تھی اور وہ وقت نکال کر اِک اِک خط کا جواب دیتے تھے۔ وہ ایک سو سال کی عمر میں بھی چاق چوبند، سرخ و سپید رنگت اور قابلِ رشک صحت کے مالک تھے۔ ایک بار میں نے ان سے صحت اور طویل العمری کا راز پوچھا، تو کہنے لگے کہ ’’روزانہ 5کلو میٹر کی سیر، ناشتے میں دہی اور موسمی پھلوں کا استعمال، میری صحت اور لمبی عمر کا راز ہے۔‘‘ وہ ہمیشہ سادہ غذا کھاتے تھے۔

میرے والدِ محترم، حکیم نور احمد ’’بابائے طب‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ انہوں نے تحریکِ پاکستان میں بھی نمایاں طور پرحصّہ لیا۔ فنِ حکمت انہیں بزرگوں سے وَرثے میں ملا تھا، جسے انہوں نے مزید آگے بڑھایا۔ وہ برسوں پنجاب طبّی کانفرنس کے صدر رہے۔ تقسیم سے پہلے ان کے والد حکیم حافظ اللہ بخش جالندھری کو مہاراجہ کپور تھلہ نے اپنا شاہی معالج مقرر کیا تھا۔ حکیم نور احمد نے بھی اپنے والد گرامی ہی سے فیض حاصل کیا۔پھر 1923ء میں حکیم فاروق اور زبدۃ الحکماء کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کرکے گولڈ میڈل حاصل کیا۔ طبّی تعلیم مکمل کرنے کے بعد والد گرامی کے ساتھ علمی اور طبّی تجربات میں کمال حاصل کیا۔ ہندوستان کی تقسیم کے بعد ہجرت کرکے والد کے ساتھ پاکستان آگئے اور پہلے فیصل آباد، بعدازاں سکھر اور پھر 1954ءمیں لاہور منتقل ہونے کے بعد، لاہور میونسپل کارپوریشن کی یونانی طبّی ڈسپینسری میں سینئر طبیب کی اسامی پر تعینات ہوئے، جہاں 17سال خدمت کی اور نایاب جڑی بوٹیوں کے ذریعے بہت سستا علاج متعارف کروایا۔ ان کی زیرِ سرپرستی چلنے والی ڈسپینسری میں ہمہ وقت رَش ہوتا، ان ہی کی بے لوث خدمت اور طبّی علاج کی افادیت کے پیشِ نظر، لاہور میں مزید چار یونانی ڈسپینسریز کا قیام عمل میں آیا۔ حکیم نور احمد کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے یونانی ڈسپینسریز کا طبّی فارما کوپیا مرتّب کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ذاتی مطب شروع کیا اور زندگی کی آخری سانس تک عوام کی خدمت کرتے رہے۔ ان کے کم خرچ طبّی دیسی نسخے آج بھی مقبولِ عام ہیں۔ اپنی زندگی ہی میں اپنے طبّی کالموں پر مبنی چار کتب مرتب کیں۔ ان کا بیٹا اور شاگرد ہونے کے ناتے میں یہ فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ انہوں نے پاکستان میں یونانی طب کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں جڑی بوٹیوں کا ماہر سمجھا جاتا تھا۔ تاہم، مجھے فخر ہے کہ انہوں نے اپنا علم اور تجربہ کسی سے چھپایا نہیں، بلکہ مخلوقِ خدا کے مفاد میں اسے عام کیا، جسے آج ان کے شاگرد مزید آگے بڑھارہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’مریض کا پہلے غذا سے علاج کرو۔ اگر غذا سے فائدہ نہ ہو، تو پھر دوا استعمال کرو۔‘‘ ان کا مقصد اور مطمح نظر یہ تھا کہ لوگ بغیر کسی معالج کے امراض کا علاج خود بھی کرسکیں۔

آج مجھے اپنے شفیق والد اور استاد سے بچھڑے 20برس بِیت چکے،لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان سے وابستہ ایک نہیں، کئی رشتوں کی یہ کہانی، ان کے جانے کے باوجود ختم نہیں ہوئی، بلکہ ہرگزرنے والا دن اسے مزید مستحکم ہی کررہا ہے۔ خاص طور پر جب میں ان کے تجربات اور نسخوں سے استفادہ کرتا ہوں، تو یوں لگتا ہے کہ وہ میرے آس پاس ہی کہیں موجود ہیں اور مجھے روحانی تقویت فراہم کررہے ہیں۔ بلاشبہ، بعض رشتے اَن مٹ ہوتے ہیں اور باپ اور بیٹے کا رشتہ بھی اِک ایسا ہی رشتہ ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ کم زور ہونے کی بجائے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت میرے والد محترم، حکیم نور احمد کو غریقِ رحمت کرے۔

حکیم سرفراز احمد، لاہور

تازہ ترین
تازہ ترین