• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محرم الحرام اور ماہِ صفر میں شادی بیاہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

تفہیم المسائل

سوال: عام لوگوں میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ محرم الحرام اور ماہِ صفر میں شادی بیاہ نہیں کرنی چاہیے ،اس بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیں ۔ (ڈاکٹر چوہدری عبدالرزاق ، جہلم)

جواب: شریعت کی رُو سے نکاح کی حقیقت یہ ہے کہ دو گواہوں کی موجودگی میں بالغ لڑکا اورلڑکی براہِ راست یا وکیل کے ذریعے ایجاب وقبول کرلیں ۔ نکاح کی تقریب سادگی سے منعقد ہواور اِس کے بعد باوقار انداز میں رخصتی۔ موجودہ دور میں شادی کی تقریبات میں جو کچھ لہو ولعب اور غیر شرعی رسوم انجام دی جاتی ہیں ، شریعتِ مُطہرہ میںاُن کی ہر سطح پر مذمت کی گئی ہے ۔ رسوم کی بنا عُرف پر ہے ،جب تک کسی رسم کی ممانعت شریعت سے ثابت نہ ہو ، اُسے حرام یا ناجائز نہیں کہاجاسکتا ،لیکن یہ لازم ہے کہ ایسی رسوم کواداکرنے کے لئے کسی فعلِ حرام کا ارتکاب نہ ہو ۔ماہِ محرم الحرام کے فضائل ابتدائے آفرینش سے مُسلّم ہیں ،حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے وقت سے ہی یہ ماہ فضیلتوں والاہے ،اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :ترجمہ:’’ بے شک اللہ کے نزدیک مہینوں کی تعداد،اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہیں،جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمینوں کو پیداکیا،ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں ،یہی دین مستقیم ہے ، سوان مہینوں میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو،(سورۂ توبہ:36)‘‘۔ان کی تفصیل اس حدیث مبارک میں ہے :ترجمہ:’’ سال بارہ مہینے کاہے ،اُن میں سے چار حُرمت والے ہیں،تین متواتر ہیں:ذوالقعدہ ،ذوالحجہ اورمحرم اور (قبیلۂ) مُضر کا رجب جو جمادٰی الثانیہ اور شعبان کے درمیان ہے، (صحیح بخاری: 4662) ‘‘ ۔اِن حُرمت والے مہینوں میں ایک مہینہ مُحرم الحرام کا ہے ،جو ابتدائے آفرینش سے ہی حُرمت والاہے ،اِس ماہ کا ایک دِن جسے یومِ عاشور(دس محرم ) کہاجاتاہے،عشر سے مشتق ہے ،جس کے معنیٰ دس کے ہیں ۔عاشورہ سے مراد ماہِ مُحرم کا دسواں دن ہے ۔بعض اہلِ علم کاقول یہ ہے کہ اس دن کو عاشورہ اِس لئے کہتے ہیں کہ اِس دن اللہ تعالیٰ نے دس نبیوں پر دس کرامتوں کا انعام فرمایا: 

(۱) حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی ۔

(۲) حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر رُکی۔

(۳) حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اُن کی قوم کو فرعون سے نجات ملی ،فرعون غرق ہوا۔

(۴) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور اِسی دن انہیں آسمانوں پر اٹھایاگیا۔

(۵)حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے خلاصی ملی اور اِسی دن اُن کی اُمّت کا قصور معاف ہوا ۔

(۶) حضرت یوسف علیہ السلام کنویں سے نکالے گئے ۔

(۷) حضرت ایوب علیہ السلام کو مشہور بیماری سے شفا ملی ۔

(۸) حضرت ادریس علیہ السلام آسمان پر اٹھائے گئے ۔

(۹) حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت ہوئی اور اِسی دن اُن پر نارِ نمرود گلزار ہوئی ۔

(۱۰) حضرت سلیمان علیہ السلام کو ملک عطاہوا۔پھر 61ھ میں سانحۂ کربلا رونما ہوا ،نواسۂ رسول امام عالی مقام حضرت حسینؓ اور آپ کے اہل بیت اطہار واعوان وانصار رضی اللہ عنہم کو ظلماً شہید کیاگیا ۔ان نفوسِ قدسیہ نے راہِ حق میں عزیمت واستقامت ، تحمّلِ مصائب اور ایثار وشہادت کی لازوال مثالیں قائم کیں،جنہیں تاقیامت فراموش نہیں کیاجاسکے گا۔مسئلہ یہ نہیں کہ نکاح کی تقریب کس ماہ میں منعقد کی جائے اور کس ماہ میں نہیں ،اگر سادگی سے شرعی تقاضوں کو پوراکرتے ہوئے تقریبِ نکاح منعقد کی جائے توسال کے کسی بھی حصے میں اس کی کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے اور قرآن وسنت سے ایسی کوئی چیز ثابت نہیں ہے ۔صدرالشریعہ علامہ امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’ ماہ ِصفر کو لوگ منحوس جانتے ہیں،اس میں شادی بیاہ نہیں کرتے،لڑکیوں کو رخصت نہیں کرتے اور بھی اس قسم کے کام کرنے سے پرہیز کرتے ہیں اور سفر کرنے سے گریز کرتے ہیں ،خصوصاً ماہ صفر کی ابتدائی تیرہ تاریخیں بہت زیادہ نحس مانی جاتی ہیں اور انہیں تیرہ تیزی کہتے ہیں ، یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔(بہارِ شریعت ،جلدسوم ،حصہ ،16،ص:659)‘‘۔یعنی شریعت کی رُوسے یہ بے اصل باتیں ہیں۔

ہمارے معاشرے میں بالعموم محرم میں شادی نہیں کی جاتی ،لیکن اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ ایساکرنا حرام ہے، ہرجائز کام کوکسی خاص موقع پر کرنا ضروری نہیں ہے ۔محرم الحرام میں شادی کی شرعی ممانعت کے بارے میں اَئمۂ اہل بیت ؓسے بھی کوئی روایت نہیں ہے ۔پس اگر کوئی کسی منفی جذبے کے تحت نہیں، بلکہ اتفاقاً محرم الحرام میں شادی کرلے تواس پر ملامت نہ کی جائے اوراگر کوئی محض سانحۂ کربلا کے احترام میں شادی نہیں کرتا تو یہ شِعار بھی قابلِ ملامت نہیں ہے،ہرانسان کے اپنے اپنے جذبات ہوتے ہیں۔اسی سبب لوگ ہمارے خطے میں بالعموم محرم میں شادی نہیں کرتے،اس طرح کے سوالات اٹھانے میں کوئی دینی حکمت کارفرما نہیں ہے ،البتہ کوئی شرعی ممانعت کا قول کرے تواس کی تردید اور وضاحت لازمی ہے ۔

تازہ ترین