(گزشتہ سے پیوستہ )
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ نجی اسپتال لوگوں کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔اگر نجی یہ نہ ہوں تو سارا لوڈ سرکاری اسپتالوں پر پڑے گاجبکہ سرکاری اسپتالوں کی حالت یہ ہے کہ وہ اس وقت بھی مریضوں کا لوڈ نہیں اٹھاپا رہے۔ایک ایک بستر پر تین سے چار مریض پڑے ہوئے ہیں خصوصاً شعبہ گائنی کے حالات تو بہت ہی قابل رحم ہیں اس وقت پاکستان کے تمام سرکاری اسپتالوں کے شعبہ گائنی میں بچوں کی پیدائش ہر ایک منٹ کے بعد ہو رہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ایک ایک بیڈ پر تین سے چار خواتین پڑی ہوئی ہیں جس کا ذکر چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار بارہا کر چکے ہیں۔ اگر ماضی کی حکومتوں نے سرکاری اسپتالوں کی طرف توجہ دی ہوتی، ان کی بروقت اپ گریڈیشن کی ہوتی ان میں آبادی کے تناسب کے مطابق تعداد میں اضافہ کیا ہوتا تو یقین کریں آج جس طرح پرائیویٹ اسپتال انتہائی منافع بخش کاروبار بن چکے ہیں کبھی ایسا نہ ہوتا ۔حکومت کو چاہئے تھا کہ ہر سرکاری اسپتال میں پرائیویٹ وارڈ اور فیملی وارڈ بنا دیتی۔ اس طرح ایک تو افورڈ کرنے والے مریضوں کو پرائیویٹ طور پر علاج کی سہولت مل جاتی۔ دوسرے سرکاری ڈاکٹرز بھی چار پیسے کما لیتے اور آج جس طرح لوگوں کو پرائیویٹ اسپتالوں سے شکایات پیدا ہورہی ہیں وہ کبھی نہ ہوتیں۔
حکومت میں آنے والے اکثرسیاست دانوں نے صرف اور صرف اپنی جیب بھری ہے۔ لیکن اس ملک کی جس قدر بربادی (ن) لیگ کی حکومت نے کی ہے آج تک کسی حکومت نے نہیں کی ہیلتھ سیکٹر کا تو بیڑہ غرق ہی ن لیگ حکومت نے کیا ہے ڈی ایچ اے یعنی ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی لاہور کا بڑا کامیاب رہائشی منصوبہ ہے۔ آج ہر پاکستانی یہاں گھر بنا کر رہنا چاہتا ہے کوئی فراڈ نہیں ، کوئی کرپشن نہیں، البتہ پلاٹ کی ٹرانسفر فیس بہت زیادہ ہے ۔ دوسری طرف سویلین چاہے یہاں پر سو پلاٹ خریدے وہ کبھی بھی ڈی ایچ اے کا ریگولر ممبر نہیں بن سکتا چاہے وہ پچاس سال تک یہاں رہے ۔
حالانکہ ڈی ایچ اے کو چاہئے اگر ایک شخص دس سال تک باقاعدگی کے ساتھ رہائش رکھے یا پلاٹوں کی خریدوفروخت کا کاروبار کرے اس کو ریگولر ممبر بنالینا چاہئے۔مانا کہ پورے ملک میں اس جیسی رہائشی اسکیم نہیں مگر یہاں پر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پورے ڈیفنس میں کوئی جدید اسپتال نہیں صرف ایک میڈیکل سینٹر ہے وہ بھی ڈبلیو بلاک فیز تھری میں پانی کی ٹینکی کے نیچے بنایا ہوا ہے حتیٰ کہ ڈیفنس کے مکینوں کو بھی اس چھوٹے سے میڈیکل سینٹر کی کوئی خبر نہیں ۔ حالانکہ جس وقت ایل سی سی ایچ ایس (ڈی ایچ اے کا پرانا نام ) کو فیز ون، ٹو اور تھری میں کامیابی ہوئی تھی اس وقت یہاں پر جدید اسپتال بنا دینا چاہئےتھا اس زمانے میں یہاں پر تین نجی اسپتال قائم ہوئے جو آج تک ہیں اور ان نجی اسپتالوں نے جو پیسہ کمایا وہ سب کے سامنے ہے ۔اگر ڈی ایچ اے یہاں پر کم از کم تین چار بڑے اسپتال بنا دیتی تو ایک تو یہاں کے لوگوں کو علاج کی بہترین سہولتیں حاصل ہو جاتیں تو دوسری طرف آرمی کے اپنے ریٹائرڈ ڈاکٹروں کی کھپت بھی ہو جاتی اور عوام کو بھی تجربہ کار ڈاکٹروں کی سہولت حاصل ہو جاتی اب سنا ہے کہ ڈی ایچ اے چار سو کنال پر ایک بہت بڑا اسپتال بنانے کا ارادہ رکھتی ہے ۔اس کے علاوہ بھی کچھ میڈیکل سینٹر بنانا چاہتی ہے مگر یہ سارے منصوبے ڈی ایچ اے نے بہت دیر سے شروع کئے حالانکہ جس طرح کسی بھی نئی ہائوسنگ ا سکیم میں جس قدر مسجد ضروری ہے اس قدر اسپتال بھی ضروری ہے۔ دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ آج پورے ملک میں ہزاروں ہائوسنگ اسکیمیں ایسی ہیں جہاں پر اسپتال ہی نہیں ۔
حکومت کو چاہئے کہ وہ کسی بھی ہائوسنگ اسکیم کو منظور کرنے سے قبل اس کے لئے یہ قانون بنائے کہ پہلے وہاں پر کم از کم پچاس بستروں کا اسپتال بنایا جائے گا پھر اس اسکیم کا نقشہ اور دیگر قانونی پہلوئوں پر غور کیا جائیگا۔ حیرت اس بات پر کہ لاہور ڈی ایچ اے نے یہ خوبصورت اسکیم بناتے وقت اسپتالوں کوکیوں نظرانداز کردیا حالانکہ اسپتال بھی آج کمائی کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکے ہیں لیکن ہمیں توقع ہے کہ لاہور ڈی ایچ اے مستقبل میں جو بڑے بڑے اسپتال بنا رہی ہے اس میں ڈیفنس کے نجی اسپتالوں کی طرح کمرشل پہلو نہیں ہو گا اور ڈی ایچ اے یہاں کے مکینوں کو یہ سہولت سرکاری نرخوں پر مہیا کرے گی۔
پچھلے ہفتے سرگودھا یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلروں اور سابق رجسٹراروںکو گرفتار کر لیا گیا دونوں وائس چانسلرز پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے کچھ ایسے کام کئے جو قانونی طور پر درست نہیں ہے تعلیمی حلقوں خصوصاً سرکاری یونیورسٹیوں کے حلقوں میں حکومت کے اس اقدام کو کچھ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا گیا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی وائس چانسلر نے اپنے دور اقتدار میں کوئی غیر قانونی کام کیا تھا تو اس وقت یونیورسٹی کے اندر قائم بے شمار باڈیز مثلاً سنڈیکیٹ اساتذہ کی تنظیم اور دیگر اساتذہ نے کیوں نہیں اس وقت شور مچایا تھا یہ بات بڑی عجیب لگتی ہے کہ پنجاب یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران نے پانچ سو تقرریاں غیر قانونی کر دیں حالانکہ پنجاب یونیورسٹی نے ان کے دور میں بہت ترقی کی اور اگر وہ اس قسم کی غیر قانونی تقرریاں کر رہے تھے تو اس وقت یونیورسٹی کی باقی باڈیز کیا کر رہی تھیں؟ یہ بات ہماری سمجھ سے باہر ہے پنجاب یونیورسٹی اور سرگودھا یونیورسٹی دونوں کےسابق وائس چانسلرز اعلیٰ تعلیم یافتہ اور غیر ممالک سے تعلیم وتربیت اور ڈگریوں کے حامل افراد ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے نجی یونیورسٹیوں میں سہولتوں سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران یونیورسٹیوں میں فراہم کی گئی سہولتوں کی انکوائری کے لئے خصوصی ٹیم تشکیل دے دی ہے جبکہ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو یونیورسٹیز کے چارٹرزکرنے سے متعلق تحقیقاتی کمیٹی قائم کرنے کا حکم دے دیا ہے جو چارٹر کا دوبارہ جائزہ لے گی چیف جسٹس نے کہا کہ ہر تعلیمی ادارے کاسربراہ کہتا ہے کہ ان کا ادارہ بہترین ہے لیکن جب جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔اب تک کئی سرکاری یونیورسٹیوں کے دوسرے شہروں میں قائم غیر معیاری کیمپس بند کئے جا چکے ہیں۔ بات پھر وہی ہے کہ آخر کس اتھارٹی/ باڈی نے دوسرے شہروں میں یہ کیمپس قائم کرنے کی اجازت دی؟ اور کس طرح ان کے معیار کو پرکھا گیا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)