• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کنزا یار خان

امی،میری سب دوستوں کےپاس ایک سےبڑھ کرایک اسمارٹ فون ہیں اور میرےپاس وہی تین سال پرانا’’قدیم فون‘‘،ساری سہیلیاں میرامذاق اڑاتی ہیں کہ تم کب سےیہ فون استعمال کررہی ہو، آپ ابوسےکہیں ناں کہ وہ مجھےبھی نیافون دلادیں،‘‘زہرا نےمنہ بسورتےہوئےاپنی امی سےکہا۔ لیکن بیٹا تمہارے پاس بھی تو اسمارٹ فون ہے ناں، پرانا ہے تو کیا ہوا،چلتا توصحیح ہے،اس کی امی نےسمجھانےکی کوشش کی۔ ’’امی آپ کونہیں پتا، آج کل سوشل اسٹیٹس ، لائف اسٹائل بہت معانی رکھتے ہیں۔ آپ کو تو پتا نہیں ہے کہ مجھےاپنی دوستوں کے سامنے کتنی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے،مجھے معلوم ہے، وہ سب جان بوجھ کر مجھے جلانے کے لیے میرے سامنےاپنےنئےبرانڈڈ کپڑوں اور نئےفون کی باتیں کرتی ہیں ، میںصرف حسرت سےان کامنہ دیکھتی رہ جاتی ہوں۔ بیٹا تم تو جانتی ہی ہوکہ تمہارےابودو، دو نوکریاں کرتے ہیں، تاکہ تم لوگوں کو معیاری تعلیم دلواسکیں، پتا ہے انہوں نے کتنے برس سے نیا جوتا نہیں خریدا صرف اس لیے کہ پیسوں کی بچت ہو، اسی پرانے جوتےپر گزارا کرر ہے ہیں۔ ڈبل نوکری کے باووجود کتنی محنت سےپیسےکماتےہیں،پھربھی مہینے کے آخر میں ہمیں کتنی مشکل سے گزارا کرنا پڑتا ہے۔ سب کچھ تمہارے سامنے ہے پھر بھی تم آئے دن ضدکرتی رہتی ہو۔امی نے بیتی کو سمجھانے کی بہت کوشش کی، لیکن وہ اپنی بات پر قائم ، ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھی کہ مجھے نیا فون چاہیے۔

مندرجہ بالا کہانی صرف ایک زہرا کی بات نہیں آج کل اکثرنوجوانوں کایہی حال ہے۔اکثریت اسمارٹ فونز،لیپ ٹاپز، ٹیب نیز، جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہر نئی چیز کےحصول کوزندگی کا واحد مقصد سمجھتی ہے۔ ان کےان کا آغاز اور چہل قدمی یاورزش سےنہیں بلکہ اسمارٹ گیجٹس سےہوتاہے،یہ تمام اشیاء جہاں زندگی میں آسانیاں او ر جدید دنیا سے جوڑنے کا سبب بنی ہوئی ہیں، وہیں، دوسری طرف اس کے نقصانات سے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں۔نوجوانوںکی اکثریت انٹرنیٹ کامطلب فیس بک ،واٹس ایپ اوردوسری سوشل میڈیاسائٹس کا استعمال کرتی ہے۔اس میں کوئی برائی نہیں لیکن وہ انٹرنیٹ سے استفادہ کرنے کے بہ جائے محض تفریح اور وقت ضائع کررہےہیں۔ اگرکسی نوجوان سےسوال کریں کہ وہ اسمارٹ فون کیوں لیناچاہتاہے،تواکثریت کاجوا ب ہوتاہے کہ میرےسب دوستوں کےپاس ہے، اس لیےمیرےپاس بھی ہوناچاہیے،بہت ہی کم ایسےہوں گے،جن کامقصدتعمیری ہوگا۔ورنہ اکثریت تولائکس اورکمنٹس کےانتظارمیں ہی شب وروزبسرکرتی ہے۔

آج ہم اتنےخودپسند ہوگئےہیں کہ ہمیں اپنے علاوہ کوئی اچھا ہی نہیں لگتا یہ بات غور طلب ہےکہ کیا یہ سب مصنوعی چکا چوند ہمیں خود غرض نہیں بنارہی؟ نسل نو کی اکثریت حسد اور احساس کمتری کا شکار ہو رہی ہے، جو اس کےمستقبل کےلیے اچھی نہیں۔حاسد کبھی دوسروں کو آگے بڑھتےہوئےنہیں دیکھ سکتا،اس لیے نوجوان دوستو! اگر دوسروں سے کسی چیز میں مقابلہ کرنا چاہتے ہو تو، تعلیم میں کرو، جس سے تمہاری اصلاح بھی ہو اور کردار کی تعمیر بھی۔

تازہ ترین