پاکستان کی اقتصادیات (اکانومی) کوسنجیدگی سے تباہ کیا گیا۔ ہزار کوشش اور محنت کے ساتھ، یہ تباہی ایک رخی نہیں ہمہ جہتی تھی۔ اس تباہی میں امریکہ کا ہاتھ تھا نہ اسرائیل کا، بھارت کا نہ کسی انجانے دشمن کا، یہ ہزار چائو سے لائے گئے حکمرانوں کی بری حکمرانی اورخودغرضی کے ہاتھوں تباہ ہوئی جن کو دعویٰ تھا وہ بہت تجربہ کار، قابل بھروسہ ٹیم رکھتے ہیں جو چند برس میں قوم کی تقدیر بدل دے گی۔
بہت سال ادھر کی بات ہے۔ ہماری پھوپھی زاد بہن بیمار ہو کر راولپنڈی کے اسپتال میں تھیں دیکھتے ہی دیکھتے وہ بے ہوشی (COMA)میں چلی گئیں۔ ان کی دیکھ بھال کیلئے تنہا ایک بیٹی جس کے میاں سرکاری ملازمت کے سلسلے میں شہر سے دور، چھوٹے چھوٹے تین بچے اسکول جانیوالے، بیٹی بے حد پریشان تھی۔ ایک طرف اسپتال میں بے ہوش ماں کی تیمارداری دوسری طرف بچوں کا کھانا، ناشتہ، اسکول لے جانا، اسکول سے گھر لانا، ان کا ہوم ورک، دن بھر کی بھاگ دوڑ، پریشانی اورنیند کی کمی سے وہ بے چاری پہلے زرد ہوئیں پھر بیمار پڑنے لگیں، ان دنوں راقم کا زیادہ تر قیام اسلام آبادمیںتھا۔ اکثر شام کو بہن کی تیمارداری کیلئے اسپتال جانا ہوتا ہے۔ ایک دن ان کی بیٹی کے چہرے پر کچھ رونق اور آنکھوں میں امید کی رمق تھی، پوچھا آج کچھ پرامید اور خوش نظر آتی ہو، بولیں۔ ہاں آج اماں نے پائوں کا انگوٹھا ہلایا ہے۔ شاید آنکھ بھی جھپکی تھی۔ ماں ہوش میں آئی نہ باتیں کیں، بس ایک پائوں کا انگوٹھا ہلنے کے خیال سے بیٹی کے ’’سوگھے دھانوں پانی پڑا‘‘ اور اس کی امیدیں جاگ اٹھیں۔
ایک دن اسپتال سے ہوتے ہوئے گوجر خان پروفیسر احمد رفیق اختر سے ملنے کا ارادہ تھا۔ تیمار دار سے کہا کہ ذرا گوجر خان تک جاتا ہوں۔ واپسی پر رکوں گا، بولیں‘ گوجرخان میں کیا ہے؟ کہا، پروفیسر رفیق اختر سے ملنا ہے، بولیں، وہی پروفیسر صاحب جن کے سالانہ لیکچر کی بڑی دھوم ہے؟ میں نے بھی ان کی دو ایک کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔ وہ ملنے والے ضرورتمندوں کو اللہ کے نام کی تسبیح عنایت کرتے ہیں۔ کہا ہاں، انہی کے پاس جاتا ہوں۔ بولیں، ان سے میرے لئے تسبیح کی درخواست کیجئے اور کہیے کہ وہ امی کیلئے دعا کریں کہ وہ اچھی ہو جائیں اور اللہ ان کی مشکل آسان کرے۔ گوجر خان میں پروفیسر صاحب سے صورتحال عرض کی اور تیمار دار بیٹی کا پیغام دیا۔ تو فرمایا، تسبیح دیتا ہوں، تندرستی تو نہیں، البتہ اللہ مشکل آسان کریگا۔ پہلی دفعہ یہ جانا کہ ’’مشکل آسان‘‘ کا مطلب‘‘ قید حیات سے نجات پانا ہے۔
گزشتہ دس سال سے پاکستان کی صنعت بطور خاص کپڑے کی صنعت کی حالت ہماری بہن کی سی تھی۔ بستر پرپڑے بے سدھ، بے ہوش، فرق یہ ہے کہ ہماری بہن قدرتی عارضے کے سبب اسپتال گئیں مگر پاکستان کی صنعت کو دانستہ گلا دبا کر سانسیں روک دی گئی ہیں۔ اب یہ قومہ میں پڑی تھیں۔ سانس آتی ہے نہ جان نکلتی۔ لواحقین اور تیماردار کی جان پر بنی۔ کچھ مریض کی محبت میں، کچھ پرانے تعلق سے شرم کے مارے مریض کی پٹی سے لگے ہیں یا اسپتال کے لان میں کسی خبر کے منتظر۔
خدا خدا کر کے نیم حکیم اور اتائی رخصت ہوئے۔ ’’نئے مسیحا اسد عمر‘‘ نے دوا دی، دارو کیا، مریض اگرچہ اب بھی اسپتال میں ہے مگر اس نے پائوں کا انگوٹھا ہلایا، آنکھ کی پتلی کو جھپکا، تیماردار کی آواز پر ردعمل دینا شروع کیا۔ مریض بھلے گھر نہیں آیا مگر اس کے جانبر ہونے کی امید جاگی ہے۔ اسی امید پر لواحقین کی آنکھوں میں روشنی اور چہرے پر رونق دوڑ گئی ہے۔
فیصل آباد میں تو گویا جشن کا سماں ہے کہ اس شہر کے ہر گھر میں دو ایک مریض بے ہوشی (COMA)میں پڑے تھے، ہر خاندان اور پیاروں کے جان پر بن آئی تھی۔ اسد عمر کے ایک انجکشن نے امید دلائی ہے کہ مریض ہوش کی طرف رواں ہے تو ایک دن صحت مند ہو کر گھر بھی پہنچے گا اورناامید خاندانوںکی پھر سے چارہ جوئی کرسکے گا۔
ہفتے کے دو ایک دن سمندری روڈ پر حاجی اسلم کے دفتر آنا ہوتا ہے، اخبار کیلئے کالم لکھنے، کمپوز کروانے اور گپ شپ کرنے کیلئے۔ حاجی اسلم کی دو اسپننگ ملز (SPINNING MILLS) ہیں۔ یعنی دھاگہ بنانے کے کارخانے، دفتر میں خوب رونق ہوتی، چہل پہل، چائے کھانا، ہنسی ٹھٹھا، 2013ء کے تجربہ کاروں کے سبز قدم پڑتے ہی
ہوش و ہواس و تاب و تواں داغ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا
والی حالت تھی۔ کپاس بیچنے، دھاگہ خریدنےوالے ٹوٹ پھوٹ کے سوداگر، سپیئر پارٹس سپلائی کرنے والے محکموں کے اہلکار، بینکوں کے افسران، نوکری کی تلاش میں سفارشی رقعہ تھامے نوجوان، جنرل منیجر طاہر کا کمرہ بھرا ہے، حاجی صاحب کے ملنے والوں کی قطار، پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو آمدن کم ہوگئی، کام چلتا رہا، قرض بڑھتا گیا، 2013ء کا انتخاب آیا، تجربہ کار سیاستدانوں کا پلّو پکڑا، پنجاب بھر میں جو ہوا سو ہوا مگر فیصل آباد، قومی اور صوبائی اسمبلی کی تینتیس ( 33) نشستیں نون لیگ کی نذر کیں اور امید لگائی کہ اب گیس سستی ہوگی، بجلی ملے گی، ٹیکس میں چھوٹ، بدعنوان افسروں سے نجات مگر
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ
رونقیں، چہل پہل رخصت ہوئی اور صرف قرض خواہ رہ گئے اور ان کے تقاضے، پہلے لندن بھائیوں سے قرض لیا، پھر خواتین کے زیور بکے، پیپلز کالونی کی کوٹھی بھینٹ چڑھی، قرض خواہوں سے نجات نہ کارخانوں میں جان، آخری پونجی اچھے دنوں میں شہر کے مضافات میں خریدی ستر ایکڑ زرعی اراضی تھی وہ مسلم لیگ کے ایم پی اے کے ہاتھ فروخت کر کے کچھ قرض چکائے۔ سمندری روڈ کے دفتر کو اسکول یا کسی کام میں بدلنے کا ارادہ تھا کہ بیچ میں اسد عمر کی دلائی امیدیں اور دلاسے کچھ راہ دینے لگے۔
حاجی صاحب سے پوچھا کہ جب نقصان ہی نقصان ہے تو کاروبار بند کیوں نہیں کر دیتے۔ بولے کارخانہ بند کرنے میں بھی بیس لاکھ مہینے کا نقصان ہے اور چلانے میں پچاس لاکھ کا، بچت تو دونوں صورت میں نہیں، بند کرنے سے مشینری چوری ہوگی یا پڑے پڑے اتنی خراب کہ چلائیں تو اس پر اٹھنے والا خرچ کہیں بڑھ جائیگا۔ چار سو مزدور فارغ کئے، بیسیوں کاریگر، دفتر کے اہلکار، حتیٰ کہ جنرل منیجر تک چلے گئے، ان کے چولہے بند ہونے کا بوجھ، دل اور ضمیر پر الگ ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے گیس کی قیمت دو روپے یونٹ کم کی ہے۔ جاں بلب کو گویا آکسیجن لگا دی گئی اس ایک انجکشن سے مریض مرتے مرتے ہوش میں آیا تو چنگا بھلا بھی ہو جائے گا۔
ملک بھر میں ٹیکسٹائل کی ایک سو پچاس ملیں بند ہو چکیں، تین لاکھ 75 ہزار پاور لومز میں سے75 فیصد نہ صرف بند ہوئیں بلکہ اسکریپ میں بک گئیں۔ گیس کی قیمت کم ہونے سے اب کارخانہ چلانے کی صورت میں پچاس لاکھ کا نقصان کم ہو کر سولہ لاکھ رہ گیا ہے۔ وعدے کے مطابق بجلی کی قیمت کم ہونے، ایکسپورٹ کیلئے منگوائے جانیوالے خام مال پر ڈیوٹی ختم کرنے، انڈیا کی کاٹن ممبئی کی بجائے واہگہ بارڈر سے درآمد کرنے کی اجازت اور ریبیٹ کی 200ارب واجب الادا رقم صنعتکاروں کو واپس ملنے کی صورت میں نوے فیصد کارخانے چند دنوں میں پھر سے پیداوار دینے لگیں گے۔ جس سے تقریباً دو لاکھ روزگار فوری طور پر دستیاب ہوں گے اور برآمدات جو بیس ارب ڈالر کم ہو چکی ہیں ان کا فوری ازالہ ممکن ہو جائیگا۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)