• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گُوگل کے سوا شاید ہی کوئی کمپنی ایسی ہو کہ جس نے انٹرنیٹ کی جدید دُنیا اور جدید طرزِ حیات کی صُورت گری کی ہو۔ اس کی حیرت انگیز حد تک تیز ترقّی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آج سے20برس قبل مواد کے ملغوبے پر مبنی ایک انوکھے سرچ انجن سے آغاز کرنے والی اس کمپنی کا شمار اس وقت نہ صرف دُنیا کے سب سے طاقت وَر اور با اثر اداروں میں ہوتا ہے، بلکہ یہ سِلی کون ویلی کا’’ پاور ہائوس‘‘ بھی کہلاتی ہے۔ اس وقت گُوگل کی 8مصنوعات ہیں اور ہر ایک کے ایک ارب سے زاید صارفین ہیں اور زیادہ تر انہیں علم کے خزانوں کی تلاش، گُفت و شُنید اور اپنے امور کی انجام دہی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ رواں برس 4ستمبر کودُنیا کے اس بااثر ادارے یا کارپوریشن نےاُس وقت اپنی 20ویں سال گرہ منائی کہ جب اس کی مالک کمپنی، ’’الفابیٹ‘‘، ’’ایپل‘‘ اور ’’ایمزون‘‘ کی طرح 10کھرب ڈالرزکے کلب میں شامل ہونے کے لیے بہ تدریج آگے بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں گُوگل کے ماضی کے اُن تمام لمحات پر نظر ڈالنا ضروری ہے کہ جن کے نتیجے میں یہ نقشہ کَشی، خود کار کاروں اور اسمارٹ فون آپریٹنگ سسٹمز تیار کرنے والی صنعتوں کی چوٹی پر بھی پہنچی۔ گرچہ اسے گُوگل کے 20سالہ سفر کا جامع تجزیہ تو نہیں کہا جا سکتا، لیکن اس مضمون میںاُن اہم واقعات کا جائزہ لیا گیا ہے کہ جن کے نتیجے میں یہ سِلی کون ویلی کے ایک ایسے ’’پاور ہائوس‘‘ میں تبدیل ہو گئی کہ جو تنازعات اور قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کرنے کے باوجود بھی آیندہ کئی دہائیوں تک قائم رہے گا۔

1995ء میں معروف امریکی یونی ورسٹی، اسٹینفرڈ کے کمپیوٹر سائنس کے گریجویٹ پروگرام کے طالبِ علم، لیری پَیج نے ’’بیک رب‘‘ کے نام سے ایک ریسرچ پراجیکٹ کے طور پر گُوگل کا آغاز کیا۔ اسی دوران پَیج کی ملاقات اپنے ہی ڈیپارٹمنٹ کے ایک اور طالبِ علم، سرگئی برِن سے ہوئی۔ پھر پَیج نے ورلڈ وائڈ ویب سے منسلک ہونے کے طرزِ عمل پر غورو خوض شروع کیا اور ایک ایسے نظام کا مفروضہ پیش کیا کہ جس میں انٹرنیٹ ایک دوسرے سے جُڑے پَیجز یا صفحات کا تعیّن کر سکتا تھا اور یہی خیال آگے چل کر ایک منفرد سرچ انجن کی تخلیق کا سبب بنا۔ نیز، برِن کی ریاضی میں مہارت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے دونوں نے تلاش کے نتائج کی صف بندی کے لیے ’’پَیج رینک الگورِتھم‘‘ تخلیق کیا اور یہ دونوں ٹیکنالوجیز ہی دُنیا کے سب سے مشہور سرچ انجن کی بنیاد بنیں، جسے پہلی مرتبہ اگست 1996ء میں اسٹینفرڈ کے نجی نیٹ ورک پر چلایا گیا۔ 1998ء میں سرچ انجن کی افادیت، دُرستی اور ترقّی سے متاثر ہو کر پَیج اور برِن نے اپنی کمپنی کا نام ریاضی کی اصطلاح، گُوگول (ایک کے بعد ایک سو صفر) پر رکھا اور یہ دونوں سوسان وو جسکی کے، جو بعد میں مینلو پارک، کیلی فورنیا میں یو ٹیوب کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر بنے، گودام میں منتقل ہو گئے۔ یہاں انہوں نے’’ سَن مائیکرو سسٹمز ‘‘کے شریک بانی، اینڈی بیک ٹو لشیم کی ایک لاکھ ڈالرز کی سرمایہ کاری کے ذریعے گُوگل کے نام سے ایک کمپنی تشکیل دی۔ گُوگل کی تیز رفتار ترقّی اور رہنمائی کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے 2001ء میں پَیج اور بِرن نے کمپنی چلانے کے لیے ایرِک شمیدت کو بَھرتی کیا، جو انجینئرنگ کے شعبے میں وسیع تجربہ رکھتے تھے اور گُوگل میں آنے سے قبل ’’سَن‘‘ کے سی ٹی او اور ’’نوویل‘‘ کے سی ای او کے طور پر خدمات انجام دے چُکے تھے۔ شمیدت مارچ 2001ء میں چیئرمین کی حیثیت سےگُوگل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل ہوئے اور اسی برس اگست میں کمپنی کے سی ای او بنے۔ وہ 10برس تک اس عُہدے پر فائز رہے اور 2004ءآئی پی او اور یو ٹیوب کی خریداری سمیت’’ گُوگل ڈوکس‘‘ اور’’ جی میل‘‘ جیسی مصنوعات کو انہی کے دَور میں متعارف کروایا گیا ۔2011ء میں شمیدت ایگزیکٹیو چیئرمین کے عُہدے پر فائز ہوئے اور پَیج کمپنی کے سی ای او بن گئے۔

نئے ہزاریے کا آغاز گُوگل کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ گرچہ گُوگل کے’’Verb ‘‘(فعل) بننے سے کافی عرصہ پہلے ہی ’’یاہو‘‘ ایک اعلیٰ و ارفع سرچ انجن بن چُکا تھا۔ تاہم، گُوگل کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ ہوا اور 2000ء میں یہ یاہو کا سرچ انجن پرووائیڈر بن گیا۔ 2002ء کے موسمِ گرما میں یاہو نے 3ارب ڈالرز کے عوض گُوگل کو خریدنے کی کوشش کی، لیکن مبیّنہ طور پر یہ محسوس کرتے ہوئے کہ اس کی کم از کم لاگت 5ارب ڈالرز ہے، گُوگل نے یہ پیش کش رَد کردی۔ اُسی برس گُوگل نے ’’ گُوگل نیوز‘‘ متعارف کروایا، جس نے ویب پر مواد کی اشاعت اور تقسیم کے انداز کو بدل کر رکھ دیا۔ ہر چند کہ آج، گُوگل اور اُس کی مالک کمپنی، الفابیٹ کی مجموعی مارکیٹ ویلیو 840ارب ڈالرز ہے، لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ 2017ء میں یاہو کو 5ارب ڈالرز سے بھی کم رقم میں ’’ورژن‘‘ کو فروخت کیا گیا۔ پالو ایٹلو سمیت سِلی کون ویلی کے قریب واقع دیگر مقامات پر اپنے دفاتر کی تعداد میں اضافے کے بعد گُوگل نے’’ 1600ایمپی تھیٹر پارک وے‘‘ میں کئی عمارتوں پر مشتمل ایک کمپلیکس کرائے پر حاصل کیا، جو تب’’ ایمپی تھیٹر ٹیکنالوجی سینٹر‘‘ کے نام مشہور تھا اور مائونٹین وِیو ، کیلی فورنیا میں’’ سِلی کون گرافکس‘‘ کی زیرِ ملکیت تھا۔ یہ فیصلہ اُس وقت کی گُوگل کی افرادی قوّت کو، جو ایک ہزار سے زاید افراد پر مشتمل تھی، قیام کی سہولت فراہم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ بعد ازاں، یہ کمپلیکس ’’گُوگل پلیکس‘‘کے نام سے مشہور ہوا اور مزید عمارتوں کے حصول اور وُسعت کے بعد بھی یہ کمپنی کا سب سے بڑا کیمپس ہے۔ 2001ء میں گُوگل نے کمپنی کے اندرونی ذرایع ابلاغ میں اضافے اور ذخیرے کی ضرورت کے پیشِ نظر ایک ای میل سسٹم پر کام شروع کیا اور اس مقصد کے لیے کمپیوٹر انجینئر، پال بوچیت کی خدمات حاصل کیں۔ بوچیت نے، جو 1990ء کی دہائی میں ابتدائی ویب بیسڈ ای میل پر کام کر چُکے تھے، پہلے سے زیادہ تیز اور جامع و مؤثر ’’آجیکس‘‘ (تب یہ ویب ڈیولپمنٹ تیکنیک کا ایک ایسا اُبھرتا ہوا مجموعہ تھا کہ جس کے ذریعے پورے ویب پَیج کو ری لوڈ کیے بغیر ہی سَرور سے معلومات حاصل کی جا سکتی تھیں) بنانے کا فیصلہ کیا اور یکم اپریل 2004ء کوگُوگل نے اُس وقت کی مشہور مسابقتی ای میل مصنوعات کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں کو عبور کرتے ہوئے ایک جی بی اسٹوریج اور سرچنگ کی جدید صلاحیتوں کی حامل ’’جی میل‘‘ عوام میں متعارف کروائی۔ خیال رہے کہ اُس وقت زیادہ تر کمپنیز صرف چند میگا بائٹس ذخیرے کی پیش کش کرتی تھیں۔ گُوگل کا یہ فیصلہ اس قدر تعجب انگیز تھا کہ جی میل کے اجرا کی تاریخ کے پیشِ نظر ذرایع ابلاغ کے پیش تر حصّے میں اسے ’’اپریل فول‘‘ (اپریل کا مذاق) کا قرار دیا گیا، لیکن حقیقت اس سے مختلف تھی۔

2005ء میں گُوگل نے نقشوں کو مفید اور تفریح قرار دیتے ہوئے پہلی مرتبہ آن لائن نقشے متعارف کروائے۔ ویب پر دست یاب ان ابتدائی نقشوں پر مشہور و معروف ہوٹلز سمیت دیگر کاروباری مراکز کو تلاش کیا جا سکتا تھا۔ پھر 2009ء میں گُوگل نے باری باری اسمارٹ فونز میں موجود نقشوں کے لیے نیوی گیشن کی سہولت بھی فراہم کی۔ گرچہ یہ واقعتاً ایک مفید چیز تھی، لیکن ’’ٹوم ٹوم‘‘ اور ’’گارمِن‘‘ پر انحصار کرنے والے صارفین کو یہ زیادہ متاثر نہیں کر سکی۔ دوسری جانب گرچہ گُوگل نے ستمبر 2000ء میں چین میں موجود اپنے صارفین کے لیے اپنی ویب سائٹ کا چینی ورژن پیش کر دیا تھا، لیکن یہ سروس کیلی فورنیا سے فراہم کی جا رہی تھی اور اسے بندشوں اور سُست رفتاری کا سامنا تھا۔ سو، 2006ء میں گُوگل نے متبادل مقامی ویب سائٹ، ’’بیڈو‘‘ سے بھرپور انداز سے مقابلہ کرنے کے لیے چین میں اپنی ایک ذیلی شاخ قائم کی، جس کا نتیجہ ویب سائٹ کے اوپر اعلانِ لاتعلقی اور بہت زیادہ کاٹ چھانٹ کی صورت میں برآمد ہوا۔ 9اپریل 2006ء کو مائیکرو سافٹ، وایا کوم اور یاہو جیسی کمپنیز سے زیادہ بولی لگانے کے بعد گُوگل نے 1.65ارب ڈالرز کے عوض یو ٹیوب کو خرید لیا۔ یہ سودا دونوں ہی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوا۔ یعنی گُوگل نے آن لائن ویڈیو ٹریفک کی جنگ جیت لی اور یو ٹیوب نے، جو تب بہ مشکل ایک برس کا تھا، گُوگل کے زبردست وسائل تک رسائی حاصل کر لی۔ تاہم، اس ڈِیل کے بعد بھی دونوں کے دفاتر الگ الگ تھے۔ یعنی گُوگل کا ہیڈ کوارٹر مائونٹین ویو میں قائم تھا اور یو ٹیوب کا دفتر سان برونو میں ۔ یو ٹیوب کا حصول گُوگل کے لیے اس وجہ سے بہت زیادہ مفید ثابت ہوا کہ یہ لا تعداد تخلیق کاروں کے لیے کیریئر کے دروازے کھول کر جدید ثقافت اور آن لائن طرزِ زندگی کا بنیادی جزو بن گئی۔ 2007ء میں گُوگل نے ’’ڈبل کلک‘‘ اور ’’سمینٹس‘‘ کو اپنی سلطنت میں شامل کیا۔ واضح رہے کہ 2000ء میں ’’ایڈ ورڈز‘‘ کو متعارف کروا کے گُوگل نے ویب ایڈورٹائزنگ کی دُنیا میں خود کو ایک غالب طاقت کے طور پر منوالیا تھا۔ یہ اس کمپنی کا مالکانہ اور خود کار ڈیجیٹل نیلامی کا نظام تھا، جس کے ذریعے مشتہرین فوری طور پر تلاش کے نتائج پر موجود سب سے اونچے تشہیری مقام پر اپنا اشتہار لگوا سکتے تھے۔ 2007ء میں ’’ایڈ سینس‘‘ متعارف کروانے کے نتیجے میں ویب سائٹ مالکان کو مخصوص اشتہارات شایع کروانے کی اجازت دینے کے بعد گُوگل نے 3.1ارب ڈالرز کے عوض ’’ڈبل کلک‘‘ خرید کر اشتہارات کی دُنیا میں اپنا غلبہ مستحکم کر لیا۔ تب یہ گُوگل کی سب سے مہنگی خریداری تھی۔ تاہم، اس کے 4برس بعد اس نے 5.5ارب ڈالرز کے عوض ’’ موٹرولا موبیلیٹی‘‘ کو خریدا۔ ’’ڈبل کلک‘‘ کی، جو اشتہارات کا ڈسپلے اور تبادلہ کرنے میں مہارت رکھتا تھا، مدد سے گُوگل نے انٹرنیٹ کی دُنیا میں اپنی تیزی سے پھیلتی سلطنت کا مزید وُسعت دی۔

2ستمبر 2008ء گُوگل کے لیے اس وجہ سے اہمیت کا حامل دن ہے کہ اس روز اس نے ’’کروم برائوزر‘‘ متعارف کروایا۔ اس مقصد کے لیے گُوگل نے کئی موزیلا فائر فوکس ڈیولپرز کی خدمات حاصل کیں اور انہوں نے مل کر معروف آپریٹنگ سسٹم، وِنڈوز کے لیے کروم بنایا، جو بعد ازاں دوسرے آپریٹنگ سِسٹمز میں بھی استعمال ہونے لگا۔ گرچہ یہ ’’بِیٹا ورژن‘‘ (ایسا سافٹ ویئر، جو صرف جانچ پڑتال کے لیے محدود پیمانے پر دست یاب ہو) تھا، لیکن اس میں تیز تر اور زیادہ مستحکم برائوزنگ کے لیے سینڈ باکسڈ ٹیبز کی سہولت موجود تھی۔ کروم کی منادی کے موقعے پر گُوگل نے 40صفحات پر مشتمل ایک تصویری کہانی بھی شایع کی، جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ یہ برائوزر کس طرح کام کرتا ہے۔ کچھ ہی عرصے میں گُوگل کا یہ برائوزر، فائر فاکس اور انٹرنیٹ ایکسپلورر سے بھی زیادہ مقبول ہو گیا، جب کہ آج 10برس بعد کروم دُنیا کا سب سے نمایاں و مستحکم ویب برائوزر ہے، جسے دُنیا بَھر میں 60فی صد صارفین استعمال کرتے ہیں۔ نیز، اس کی وجہ سے آج گُوگل سرچ ماضی کے مقابلے میں زیادہ مفید ہے۔ 2005ء میں 5کروڑ ڈالرز کے عوض’’ اینڈرائیڈ‘‘ کی خریداری کے بعد، جو بعد ازاں دُنیا کا سب سے مقبول موبائل فون آپریٹنگ سسٹم بنا، 23مارچ 2008ء کو اسے ٹی۔ موبائل جی وَن/ایچ ٹی سی ڈریم کے لیے متعارف کروایا گیا، جو پہلا اینڈرائیڈ فون تھا۔ گرچہ اینڈرائیڈ کے ابتدائی دنوں میں موٹرولا کے ڈروئیڈ لائن، سام سنگ کے ابتدائی گلیکسی فونز اور ایچ ٹی سی کی ایوو ڈیوائسز میں یہی اینڈرائیڈ سافٹ ویئر ہی استعمال کیا جا رہا تھا، لیکن گُوگل کا ڈیزائن بعض تیکنیکی وجوہ کی بنا پر دَب کر رہ گیا۔ اس موقعے پر گُوگل نے ایچ ٹی سی کی مدد سے اینڈرائیڈ اسمارٹ فون،’’نیکسز وَن‘‘ بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ اسمارٹ فون ایچ ٹی سی نے تیار کیا، لیکن گُوگل نے اسے حتمی اینڈرائیڈ ڈیوائس کی طرز پر ڈیزائن کیاتھا۔ گرچہ نیکسز وَن کا ڈیزائن اب اختتام کو پہنچ چُکا ہے، لیکن اس کی رُوح موجودہ پکسل فونز میں دکھائی دیتی ہے، جو موبائل ہارڈ ویئر کی دُنیا میں گُوگل کی مؤثر نمایندگی کی ایک بڑی مثال ہے۔

2010ء کے آغاز میں گُوگل پر یہ آشکار ہوا کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے چینی کارکنوں کے ای میل ایڈریسز اور نجی معلومات حاصل کرنے کے لیے اس کے چین میں قائم انفرااسٹرکچر پر حملہ ہوا ہے۔ اس واقعے کے بعد Google.cnکو Google.com.hkمیں تبدیل کر دیا گیا اور یہ غیر حذف شُدہ سرچ انجن ہانگ کانگ سے چلایا جاتا تھا۔ تاہم، اس کے فوراً بعد ہی چینی حکومت نے چین میں گُوگل پر پابندی عاید کر دی۔ 13اگست 2010ء کو’’ اوریکل‘‘ اور گُوگل کے درمیان مقدّمے بازی کا آغاز ہوا۔ اوریکل کی جانب سے اینڈرائیڈ کے حوالے سے کیا جانے والا یہ مقدّمہ 8برس سے زاید عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی انجام کو نہیں پہنچ سکا اور اگر گُوگل یہ مقدّمہ ہار جاتا ہے، تو اس شکست کے تمام سافٹ ویئر ڈیولپرز پر تباہ کُن اثرات مرتّب ہوں گے۔ یہ کیس جاوا اے پی آئیز اور اس معاملے کے گرد گھومتا ہے کہ گُوگل نے انہیں اینڈرائیڈ کے لیے دوبارہ تیار کر کے اوریکل کی آئی پی کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس مقدّمے کو 8برس سے زاید عرصہ گزر جانے کے بعد اوریکل فاتح کے طور پرسامنے آیا ہے، جب کہ گُوگل سپریم کورٹ میں اپیل کی کوشش کر رہا ہے۔2010ء میں گُوگل نے 7عدد خودکار کاروں پر مشتمل ایک بیڑے پر کام شروع کیا۔ یہ ہائبرڈ کاریں سینسرز اور مصنوعی ذہانت پر مشتمل تھیں۔ گُوگل کی اس کاوش نے آیندہ برسوں میں کئی مراحل طے کیے،جو بالآخر ’’ویمو‘‘ کی شکل میں سامنے آئے۔ دوسری جانب برائوزر متعارف کروانے کے بعد گُوگل نے اپنی توجّہ’’ کروم آپریٹنگ سسٹم‘‘ تیار کرنے پر مرکوز کر دی۔ واضح رہے کہ ابتدا میں گُوگل کروم کو خاص طور پر ویب ایپس کی میزبانی اور نیٹ بُکس کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا، جو اس وقت ’’کروم بُکس‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔کروم بُکس تعلیم کے میدان میں بہت زیادہ اہمیت اختیار کر چُکی ہیں۔ نیز، مائیکرو سافٹ نے بھی گُوگل کی تقلید کرتے ہوئے ’’ونڈوز ایس موڈ لیپ ٹاپس‘‘ متعارف کروائے۔ فیس بُک کے عُروج کے دَور میں گُوگل ’’گُوگل پلس‘‘ متعارف کرواتے ہوئے سوشل نیٹ ورک کی دُنیا میں داخل ہوا۔ اس مقصد کے لیے مائیکرو بلاگنگ ٹول، ’’گُوگل بَز‘‘ کو ’’گُوگل پلس‘‘ میں تبدیل کیا گیا۔ تاہم، فیس بُک کے آغاز کے برعکس گُوگل پلس میںصارفین صرف اپنے ’’حلقۂ احباب‘‘ ہی سے تصویریں اور لنکس شیئر اور ہینگ آئوٹ چَیٹ کر سکتے ہیں۔ گُوگل پلس کے ڈیزائن اور لے آئوٹ میں متواتر تبدیلیوں کے باوجود بھی اسے انٹرنیٹ کی دُنیا میں خاطر خواہ پزیرائی نہ مل سکی۔ 2011ء میں 12.5ارب ڈالرز کے عوض ’’موٹرولا موبیلیٹی‘‘ کی خریداری کی صُورت گُوگل نے ایک جوا کھیلا۔ اس موقعے پر کمپنی نے دعویٰ کیا کہ اس ڈِیل سے نہ صرف اینڈرائیڈ کو توانائی ملے گی، بلکہ موبائل کمپیوٹیشن کے میدان میں جاری مسابقت میں بھی اضافہ ہو گا، لیکن ان دونوں میں سے کوئی ایک کام بھی نہ ہوا۔ گُوگل کے زیرِ اہتمام 2013ء میں موٹرولا نے ’’موٹو ایکس‘‘ متعارف کروایا، لیکن امریکا میں اسمبل کیا گیا یہ غیر معمولی فیچرز کا حامل موبائل فون دُنیا کی توجّہ حاصل نہ کر سکا اور جب 2014ء میں موٹو ایکس کی دوسری جنریشن کا اعلان کیا گیا، تو اس سے قبل ہی گُوگل ادا کی گئی رقم سے سے کئی ارب کم قیمت پرموٹرولا کو ’’لینووو‘‘کے حوالے کرنے کا اعلان کر چُکا تھا۔

اسمارٹ فونز اور ویب سروسز کے ساتھ ہی گُوگل نے تجرباتی طور پر ہارڈ ویئر پر بھی کام شروع کیا اور اس ضمن میں اس کی سب سے مشہور پراڈکٹ، ’’گُوگل گلاس‘‘ ہے۔ گُوگل گلاس پہن کر استعمال کیا جانے والا ایک ایسا کمپیوٹر ہے کہ جو تصویریں اور ویڈیو ز ریکارڈ کر کے آپ کی معلومات میں اضافہ کرتا ہے۔ گُوگل گلاس کی طاقت کا مظاہرہ کرنے کے لیے 2012ء میں بِرن نے آئی او ڈیولپر کانفرنس میں اپنے فضائی کرتب کی براہِ راست ریکارڈنگ دکھائی۔ گُوگل گلاس ابھی محدود پیمانے ہی پر دست یاب تھا کہ کئی کاروباری شخصیات نے اسے اپنی خلوت کے لیے ممکنہ خطرہ قرار دیتے ہوئے اسے پہننے والے افراد کا داخلہ اپنی حدود میں ممنوع قرار دے دیا، جب کہ 2017ء میں گُوگل گلاس کا نقطۂ ارتکاز کم کرتے ہوئے اسے ’’اسنیپس اسپیکٹیٹلز‘‘ سمیت پہننے والے کمپیوٹر تیار کرنے والی دیگر کمپنیز کے سُپرد کر دیا گیا۔ یکم جُون 2013ء کو ’’گُوگل ریڈر‘‘ بند کر دیا گیا، جب کہ 24جولائی 2013ء کو ’’ گُوگل کوم کاسٹ‘‘ کا آغاز کیا گیا، جس میں فون یا کمپیوٹر سے ٹی وی پر ویڈیو چلائی جا سکتی تھی۔ تاہم، 5برس گزرنے کے باوجود بھی اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی اور گُوگل نے اسے بہ مشکل ہی اَپ ڈیٹ کیا ہے، مگر یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ یہ اب تک ویڈیو اسٹریمنگ کا سب سے سَستا اور سادہ ذریعہ ہے۔24جنوری 2014ء کو گُوگل نے لندن میں واقع مصنوعی ذہانت کی کمپنی، ’’ڈِیپ مائنڈ ‘‘کو خرید لیا۔ اس مقصد کے لیے گُوگل کو سخت لڑائی لڑنا پڑی اور مبیّنہ طور پر اس نے کمپنی کی ٹیکنالوجی کی نگرانی کے لیے ایک آزاد اخلاقیاتی بورڈ تخلیق کرنے کے وعدے کی بنا پرفیس بُک کو شکست دی۔ ڈِیپ ماینڈ کی قیمت سے قطع نظر، یہ کمپنی گُوگل کے لیے بیش قیمت ثابت ہوئی۔ مثال کے طور پر ڈِیپ مائنڈ کی جانب سے تیار کردہ’’ گو کون کوئرنگ الفا گو سسٹم‘‘ سائنس کے میدان میں ایک بڑی کام یابی قرار دیا گیا۔ پھر آج دُنیا بَھر میں گُوگل کو مصنوعی ذہانت کا قائد سمجھا جاتا ہے اور یہ سب ڈِیپ مائنڈ کی وجہ ہی سے ممکن ہوا۔

اگست 2015ء میں ’’الفابیٹ اِن کارپوریٹڈ‘‘ کے نام سے گُوگل کی تشکیلِ نو کی گئی اور سُندر پِچائی کی سربراہی میں گُوگل نے اپنی مالک کمپنی کے لیے بہترین خدمات انجام دیں۔ اس تبدیلی کے بعد یکم ستمبر 2015ء کو گُوگل نے اپنے نئے لوگو کی نقاب کُشائی کی۔ 18مئی 2016ء کو ’’گُوگل اسسٹنٹ‘‘ متعارف کروایا گیا اور 2سال کے مختصر عرصے میں یہ متعدد اسپیکرز، ٹیلی ویژنز اور اسمارٹ ڈسپلے ڈیوائسز کے لیے دست یاب ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ اگر مستقبل مصنوعی ذہانت کا ہے، تو ’’الیگزا‘‘ جیسی کمپنیز کو اس سے سخت مسابقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اکتوبر 2016ء میں گُوگل نے ایک لمبی جست لگاتے ہوئے’’پِکسل‘‘ اور ’’پِکسل ایکس ایل اسمارٹ فونز‘‘ اور ’’گُوگل ہوم اسمارٹ اسپیکر‘‘ متعارف کروایا۔ پکسل پہلا باقاعدہ اینڈرائیڈ اسمارٹ فون تھا کہ جسے مکمل طور پر گُوگل نے ایپل کے طرز پر ڈیزائن کیا تھا۔ خود کار کاروں کی 6برس تک آزمایش کے بعد 13دسمبر 2016ء کو گُوگل نے اس منصوبے کو ایک الگ کاروبار کی شکل دینے کا فیصلہ کیا۔ ’’ویمو‘‘ کے نام سے قائم ہونے والی یہ کمپنی رواں برس تجارتی پیمانے پر اپنی خدمات فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

گرچہ گُوگل کو اپنے اثر و رسوخ اور دسترس کی وجہ سے اس20سال کے پورے عرصے میں کئی مرتبہ قانونی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، لیکن ان میں سے کوئی بھی مقدّمہ رواں برس 18جولائی کو یورپی یونین کی جانب سے عاید کیے گئے 5ارب ڈالرز کے جُرمانے سے زیادہ طاقت وَر نہیں تھا۔ تفصیل اس اجمال کی کچھ یوں ہے کہ یورپی یونین کی ریگولیٹری باڈی، دی یورپین کمیشن نے پتا لگایا کہ کروم برائوزر پر دِکھائے جانے والے اشتہارات میں گُوگل اپنی شاپنگ سروسز کو ترجیح دے رہا ہے، جنہیں زیادہ تر اسمارٹ فونز پر معمول کے طور پر پہلے ہی لوڈ کر دیا جاتا ہے۔ گرچہ اس جُرمانے کو چھوٹی سی سزا قرار دیا جا رہا ہے، لیکن یہ سزا پالیسی میکرز اور عوام کو ہونے والے اس احساس کی علامت ہے کہ گُوگل سمیت سِلی کون ویلی کے دوسرے دیو، فیس بُک اور ایمزون وغیرہ اپنی اجارہ داری قائم کر چُکے ہیں۔ یورپی یونین کی جانب سے جُرمانہ عاید کیے جانے کے صرف ایک ماہ بعد ہی امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ نے گُوگل پر تلاش کے نتائج میں ساز باز کا الزام عاید کر دیا۔ پھر ان دنوں دُنیا کی سب سے بڑے ڈیجیٹل ایڈورٹائزر، گُوگل کو اشہارات کے حصول کی خاطر وسیع پیمانے پر مواد اکٹھا کرنے کی وجہ سے بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نیز، یو ٹیوب پر جھوٹی خبروں اور اطلاعات کا سلسلہ بھی قابو سے باہر ہے۔ علاوہ ازیں، اس کے اپنے ملازمین امریکی فوج کے لیے مصنوعی ذہانت پر مبنی آلات تیار کرنے اور مبیّنہ طور پر چین میں اپنا حذف شُدہ سرچ انجن تخلیق کرنے کی کوششوں پر تحفّظات کا اظہار کر رہے ہیں، جب کہ جولائی کے آخر میں یہ کمپنی امریکی صدر، ڈونلڈ ٹرمپ کا پسندیدہ ہدف بن گئی۔ با ایں ہمہ یہ اپنے مشہور مقولے، ’’Don't be Evil‘‘(شیطان مت بنو) کی وجہ سے بھی پہلی مرتبہ کڑی جانچ پڑتال کی زد میں ہے۔ اس بارے میں ’’ٹیکنالائسز ریسرچ‘‘ کے تجزیہ کار، بوب او ڈونیل کا ماننا ہے کہ ’’ جیسے جیسے یہ کمپنی پُختہ اور بالغ ہوتی جا رہی ہے، ویسے ویسے مسائل سامنے آ رہے ہیں۔ اب لوگوں نے اُن کے اثر و رسوخ کا اندازہ لگا لیا ہے اور وہ اس بارے میں سوچ بچار کر رہے ہیں کہ کیا ایک کمپنی کو اس قدر طاقت وَر ہونا چاہیے؟ ‘‘ ماہرین کا کہنا ہے کہ مشکلات و مصائب کا یہ سلسلہ جلد تھمنے والا نہیں اور جیسے جیسے گُوگل مزید ترقّی کرے گا، اسے مزید بُحرانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ واضح رہے کہ گُوگل، فیس بُک اور ٹویٹر 2016ء کے صدارتی انتخابات کے دوران امریکی عوام میں جُھوٹی خبریں پھیلانے کے لیے رُوس کی جانب سے استعمال کے بعد کافی مشکل میں ہیں، لیکن اس کے باوجود بے وقوفانہ اقدامات کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ مثلاً، ماہِ ستمبر کے آغاز میں گُوگل نے اعلان کیا کہ وہ رائے عامہ میں مداخلت کی کوششوں کے خاطر یو ٹیوب سمیت دیگر سروسز کے ذریعے ایران سے وابستہ 58اکائونٹس ختم کر رہا ہے۔ دوسری جانب خلوت میں مداخلت یا پرائیویسی اسکینڈلز کا بھی انبار لگتا جا رہا ہے اور جب صارفین کو یہ پتا چلا کہ اگر وہ اپنے ای میل اکائونٹ کے ذریعے ’’تھرڈ پارٹی ای میل ایپس‘‘ سے مربوط ہوں، تو اُن کے ملازمین ان کی ای میلز پڑھ سکتے ہیں، تو دیوہیکل سرچ انجن کو صارفین کے غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑا۔ ستمبر ہی میں گُوگل پر اُس وقت دوبارہ ہتھوڑے برسائے گئے کہ جب معروف خبر رساں ایجینسی، ایسوسی ایٹڈ پریس نے صارفین کے مقامات کی کھوج لگانے کا انکشاف کیا اور بعد ازاں انہوں نے اپنے فونز پر لوکیشن کی ہسٹری بند کر دی ۔ اس حوالے سے پَیج، برِن اور سُندر پِچائی نے کسی قسم کا تبصرہ کرنے یا انٹرویو دینے سے انکار کر دیا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، موجودہ امریکی حکومت کے لہجے میں رونما ہونے والی تبدیلی شاید گُوگل کے لیے سب سے بڑی مشکل ہے، کیوں کہ کئی برس تک سِلی کون ویلی اور واشنگٹن کے مابین بہت اچّھے مراسم تھے ۔ نیز، گُوگل کے سابق ایگزیکٹیو چیئرمین، ایرِک شمیدت کے اوباما انتظامیہ سے نہایت خوش گوار تعلقات تھے اور حتیٰ کہ گُوگل کی سابق نائب صدر، میگن اسمتھ اوباما کے دَور میں مُلک کی چیف ٹیکنالوجسٹ بھی رہیں۔ تاہم، ٹرمپ انتظامیہ میں کہانی نیا رُخ اختیار کر چُکی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جولائی کے آخر میں امریکی صدر نے اپنے ایک ٹویٹ میں گُوگل کے تلاش کے نتائج کو ’’دھاندلی زدہ‘‘ قرار دیتے ہوئے اس پر ’’قدامت پسندوں کی آوازوں کو دبانے‘‘ کا الزام عاید کیا۔ بعد ازاں، رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ’’ مَیں سمجھتا ہوں کہ گُوگل نے بہت سے لوگوں سے فائدہ اُٹھایا۔ گُوگل، ٹویٹر اور فیس بُک تینوں ہی ایک انتہائی مشکل گزرگاہ میں قدم رکھ رہے ہیں اور انہیں محتاط ہونا پڑے گا۔‘‘ اس کے اگلے روزانہوں نے اپنی ایک اور ٹویٹ میں دعویٰ کیا کہ گُوگل نے سابق صدر، اوباما کی تمام اسٹیٹ آف دی یونین تقاریر کو نمایاں طور پر پیش کیا، جب کہ اُن کی دفعہ ایسا نہیں ہوا اور پھر ٹرمپ نے اس میں ہیش ٹیگ #StopTheNBias (تعصّب بند کرو)کا بھی اضافہ کر دیا۔ دوسری جانب گُوگل نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سرچ انجن کے ہوم پَیج نے جنوری میں ٹرمپ کے خطاب کو مناسب انداز میں پیش کیا اور ساتھ ہی آرکائیوز میں سے اُس خطاب کا اسکرین شاٹ بھی سامنے لایاگیا۔ گُوگل کا مزید کہنا تھا کہ چاہے اوباما کا خطاب ہو یا ٹرمپ کا، عُہدۂ صدارت کے پہلے سال میں کی جانے والی تقاریر کو نمایاں طور پر شایع نہیں کیا جاتا، کیوں کہ تیکنیکی طور پر انہیں اسٹیٹ آف دی یونین ایڈریس نہیں سمجھا جاتا۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ مستقبل میں گُوگل، فیس بُک اور ٹویٹر کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔  

15 دِل چسپ حقائق…

-1-لفظ، ’’گُوگل‘‘ ریاضی کی اصطلاح، ’’گُوگول‘‘ سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے، ایک کے بعد ایک سو صفر۔

-2-گُوگل کے شریک بانیوں، لیری پَیج اور سرگئی بِرن نے اس کا اصل نام، ’’بیک رب‘‘ رکھا تھا۔

-3-چُوں کہ گُوگل ماحولیاتی تحفّظ کے حق میں ہے، لہٰذا اس نے اپنے سبزہ زاروں کی گھاس مشین سے کاٹنے کی بہ جائے بکریاں پال رکھی ہیں۔

-4-چُوں کہ گُوگل انسٹینٹ‘‘ الفاظ ٹائپ ہوتے ہی تلاش شروع کر دیتا ہے، جس کی وجہ سے صارفین کو’’ I'm Feeling Lucky‘‘کا بٹن دبانے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ یہ بٹن کمپنی کو سالانہ 11کروڑ ڈالرز کا پڑتا ہے، کیوں کہ یہ سب سے اوپر کے نتائج پر فوری طور پر پہنچنے کے لیے تمام اشتہارات کو بائی پاس کر دیتا ہے۔

-5- 2000ء سے، گُوگل اوسطاً ہر ہفتے ایک نئی کمپنی خرید رہا ہے۔ خیال رہے کہ اینڈرائیڈ، یو ٹیوب اور ویز سمیت دیگر کئی کمپنیاں اسی کے زیرِ ملکیت ہیں۔

-6-گُوگل آن لائن تلاش کی بنیاد پر foo.barاستعمال کرتے ہوئے اپنے نئے ملازمین بَھرتی کرتا ہے۔

-7-پہلا گُوگل ڈوڈل ’’برننگ مین اسٹک فیگر‘‘ تھا، جو 30اگست 1998ء کو محض یہ پیغام دینے کے لیے بنایا گیا کہ اس روز پَیج اور بِرن دفتر کی بہ جائے نیواڈا میںمنعقدہ برننگ مین فیسٹیول میں موجود ہوں گے۔

-8-گُوگل کے شریک بانیوں، پَیج اور بِرن کے ذاتی طیّاروں کے لیے ’’ناسا‘‘ میں رن ویز موجود ہیں، جہاں کسی اور جہاز کو اُترنے کی اجازت نہیں۔

-9-گُوگل عموما ًاپنے لوگو کے غلط ہجّے بھی اپناتا ہے، جیسا کہ www.gooogle.com, www.gogle.com, www.googlr.com

-10-گُوگل کا پہلا کمپیوٹر اسٹوریج ’’لیگوز‘‘ کی مدد سے بنایا گیا تھا۔

-11-امریکا میں موجود گُوگل کے ملازمین کو مَرنے کے فواید بھی ملتے ہیں، جو اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ اُن کا رفیقِ زندگی اگلے 10برس تک ہر سال اُن کی نصف تن خواہ وصول کرے گا۔

-12-گُوگل کے دفتر کا کوئی بھی حصّہ کسی بھی قسم کی خوراک سے 150سے زاید قدم کے فاصلے پر نہیں ہے۔

-13-اگر آپ بہت سے ہندسوں پر مشتمل کوئی نمبر ٹائپ کرنے کے بعد ’’=english‘‘ ٹائپ کرتے ہیں، تو گُوگل اس نمبر کو الفاظ کی صورت میں اداکرنے میں آپ کی مدد کرے گا۔

-14-گُوگل کا گھوما ہوا ورژن بھی موجود ہے، جسے ’’گُوگل مِرر‘‘ کہا جاتا ہے اور اس میں ہر شے اُلٹی دکھائی دیتی ہے۔ گرچہ یہ ورژن بہ ظاہر تفریح کا ذریعہ دکھائی دیتا ہے، لیکن یہ چین میں گریٹ فائر وال کو پُر فریب بنانے کے لیے بہت مفید تھا، جہاں اب گُوگل پر پابندی عاید کر دی گئی ہے۔

-15- 1999ء میں گُوگل خود کو صرف 10لاکھ ڈالرز کے عوض ایک آن لائن کمپنی، ’’ایکسائٹ‘‘ کو فروخت کرنا چاہتا تھا، لیکن اس کمپنی کے سی ای او نے یہ پیش کش رد کر دی ، جب کہ آج گُوگل کی قیمت سیکڑوں ارب ڈالرز ہے۔

گُوگل ڈُوڈل اور پاکستان

معلومات کے ملغوبے سے دیوہیکل سرچ انجن تک
پاکستان کے 71ویں یومِ آزادی پر بنایا گیا ڈُوڈل

گُوگل کے ہوم پَیج پر وقتاً فوقتاً پاکستان سے متعلق ڈُوڈلز بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ اپنی ماضی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے رواں برس 14اگست کو مُلک کے  71 ویں یومِ آزادی کے موقعے پر گُوگل نے سبز ہلالی پرچم پر مشتمل ایک نمونہ پاکستان سے منسوب کیا، جب کہ اس کے علاوہ دُنیا کا یہ مقبول ترین سرچ انجن وقتاً فوقتاً عالمی شُہرت یافتہ پاکستانی شخصیات کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے اُن کے جنم دِن کے مواقع پر اپنے ہوم پَیج پر اُن کے ڈُوڈلز پیش کرتا رہتا ہے اور اب تک لیجنڈری موسیقار، نصرت فتح علی خان، معروف سماجی کارکُن، عبدالستّار ایدھی، شہنشاہِ غزل، مہدی حَسن، ملکۂ ترنّم، نور جہاں، مُلک کے نمایاں ترین مصّور، سیّد صادقین احمد نقوی اور معروف پاپ سنگر، نازیہ حَسن سمیت اپنے شعبوں میں اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی دیگر شخصیات کے ڈُوڈلز پیش کیے جا چُکے ہیں۔ 

تازہ ترین