• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اس وقت کوئٹے سے مخاطب ہوں۔ ہلکی ہلکی خنکی گلے مل رہی ہے۔

کوئٹہ پریس کلب میں رہائش ہے۔ کارکن صحافیوں نے اس پریس کلب کو پاکستان کے تمام پریس کلبوں کے مقابلے میں بہت معیاری اور پُر آسائش بنایاہے۔پنج ستارہ ہوٹلوں سے بہتر میزبانی ہے۔ باہر مظلوم پاکستانیوں کے بھوک ہڑتالی کیمپ بھی ہیں۔ پاکستان کے ہر شہر میں اب پریس کلب محروموں۔ مظلوموں۔ نا انصافی کے شکاروں۔ لاپتہ نوجوانوں کے ورثا کے مقاماتِ آہ و فغاں بن گئے ہیں۔ میڈیا والوں کو کلب میں بیٹھے بیٹھے خبریں مل جاتی ہیں۔

گزشتہ کالم میں ہم نے عرض کیا تھا۔ را، موساد اور سی آئی اے چین سے نہیں بیٹھی ہیں۔ کرم فرمائوں اور مجھ سے زیادہ با خبر خواتین و حضرات نے نہ صرف اندرون ملک سے بلکہ سمندر پار پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے ہماری نشاندہی اور تشویش کو بروقت اور درد مندی قرار دیا ہے۔ مجھے بڑی تسکین ہوتی ہے کہ میرا درد آپ تک پہنچ رہا ہے۔ اور آپ کا درد مجھ تک۔

پاکستان اس وقت دنیا بھر کی توجہ کا مرکز ہے۔ ہم ایک بہت ہی حساس جغرافیائی حیثیت حاصل کئے ہوئے ہیں۔ اور اس میں سب سے حساس صوبہ بلوچستان ہے۔ جو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ اس خطّے کا روشن مستقبل ہے۔ دنیا کی نظریںبلوچستان پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ مستقبل کی دولت یہاں ہے۔ آنے والی صدیوں کی سیاسی طاقت یہاں ہے۔تقریباً تمام اہم عالمی یونیورسٹیوں میں بلوچستان کے معدنی وسائل پر تحقیق ہورہی ہے۔ دنیا کی اکثر قومیں بلوچستان کے مزاج کو جاننا اور سمجھنا چاہتی ہیں۔ صرف ہم پاکستانی اس کی حساسیت۔ اقتصادی اہمیت سے نا واقف بھی ہیں اور اسے سمجھنا بھی نہیں چاہتے۔

بلوچستان رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے۔ معدنی دولت کے حوالے سے بھی۔ لیکن محرومیاں اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ مگر یہ بھی ایک مسلّمہ صداقت ہے کہ یہاں کے محروم باشندے سب سے زیادہ محبت کرنے والے بھی ہیں۔ جب بھی کچھ دن کے لئے یہاں آنا ہوتا ہے۔ احبابِ ادب و ثقافت کو جیسے جیسے علم ہوتا ہے فوراً ملاقات سے نوازتے ہیں۔ بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ جو اپنے آپ کو کارکن کہلانا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ڈاکٹر عبدالمالک کو عبداللہ بلوچ نے ہماری آمد کی اطلاع دی ان کا فون آگیا کہ ان کی پارٹی کا دفتر پریس کلب کے نزدیک ہی ہے۔ وہ کارکنوں سے ملنے۔ مسائل سننے کے بعد آرہے ہیں۔ ڈیڑھ سال بلوچستان کی وزارتِ اعلیٰ سنبھالنے والے یہ سیاسی کارکن۔ جمہوری جدوجہد میں جیلیں۔ روپوشیاں اور صعوبتیں برداشت کرنے والے کسی پروٹوکول کے بغیر ہی تشریف لے آئے۔ بلوچستان کی باتیں ہوئیں ، اپنے مختصر سے دَور میں انہوں نے ادب و ثقافت کے مراکز مختلف اکیڈمیوں کی سرکاری گرانٹ میں کئی گنا اضافہ کیا۔ مرحوم اہلِ خانہ کے خاندانوں کی مالی امداد کی۔ بیمار مصنّفین کے علاج معالجے کے انتظامات کئے۔ شاعروں ادیبوں کی کتابیں چھاپنے میں بہت مدد کی۔ ایک خوش خبری انہوں نے یہ سنائی کہ وہ اپنے بلوچی افسانوں کا مجموعہ بھی بہت جلد شائع کرنے والے ہیں۔اندازہ کیجئے کہ ایک سیاسی کارکن جس نے ہر قسم کے مصائب برداشت کئے۔ گھر سے دور کئی کئی ماہ روپوشی میں گزارے۔ پھر وزارتِ اعلیٰ کے عظیم منصب پر پہنچ کر حکومتی ڈھانچے کو قریب سے دیکھا۔ اس کی کہانیوں میں کتنی سچائی اور کتنی تپش ہوگی۔

ان کے دَور میں ناراض بلوچ رہنمائوں سے بھی رابطے ہوئے تھے۔بات آگے چل نکلی تھی۔ میں نے دریافت کیا کہ اب کیا اس میں کچھ پیش رفت ہورہی ہے۔ انہوں نے دل گرفتگی کا اظہار کیا۔ اب وہ اپنی پارٹی کو از سر نو متحرک اور منظّم کررہے ہیں۔

کوئٹہ اس وقت بہت ہی با رونق شہر لگ رہا ہے۔ بازاروں اور سڑکوں پر ٹریفک بہت زیادہ ہے ۔ بظاہر لگتا ہے کہ گلشن کا کاروبار بہت اچھی طرح چل رہا ہے۔ سارے فیشن برانڈز موجود ہیں ۔چہروں پر بھی بشاشت ہے۔سردار بہادر خان ویمنز یونیورسٹی میں کچھ دن پہلے خواتین کی سالانہ کانفرنس ہوئی ہے۔ بلوچستان میں ایک جامعہ میں دس ہزار طالبات کی حصولِ علم میں مصروفیت میرے لئے تو ایک بہتر مستقبل کی نوید ہے۔ جہاں سوشل سائنسز۔ بزنس ایجوکیشن۔ سب کچھ پڑھایا جارہا ہے۔ ہر طرف یونیفارم میں اپنے مستقبل کو دیکھ کر مصرع لبوں پر آرہا ہے۔

یہ وقت ہے شگفتن گل ہائے ناز کا

یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر رخسانہ جبیں اس درسگاہ کو بین الاقوامی یونیورسٹیوں کا معیار دینے کا عزم رکھتی ہیں۔ بہت ہی فخریہ ذکر کررہی ہیں کہ اس یونیورسٹی کی طالبات پاکستان میں تعمیر قوم کے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دے رہی ہیں۔

کوئٹہ آنا ہو اور بلوچی اکادمی میں حاضری نہ دیں۔ بلوچی ادب و ثقافت پر کتابوں کی اشاعت میں اکادمی نے بہت تسلسل سے کام کیا ہے۔ پرانی کلاسیکی کتابوں کی دوبارہ اشاعت اور نئے ادیبوں شاعروں کی کتابیں بھی باقاعدگی سے شائع ہورہی ہیں۔ اکادمی کی لائبریری کو اب تحقیق میں مصروف طلبہ و طالبات کے لئے ریفرنس لائبریری کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ ہر روز علم کے متلاشی یہاں ریسرچ کے لئے آتے ہیں۔ ممتاز یوسف صاحب نے کچھ اہلِ قلم کو جمع کرلیا تھا۔ جن کی گفتگو سے میرے علم میں بہت اضافہ ہوا۔ اپنے اپنے طور پر یہ خواتین و حضرات نہ صرف خود تخلیقی امور اور تحقیقی کاموں میں مصروف ہیں، کئی نسلوں کی رہنمائی بھی کررہے ہیں۔ ورکشاپوں۔ سیمیناروں میں نئی اور پرانی نسل کے آپس میں رابطے ہی ہوتے ہیں۔ نثر۔ شاعری اور تنقید پر تبادلۂ خیال ہوتا ہے۔ سیاسی محرومیاں۔ اقتصادی نا انصافیاں اور لاپتہ ہونے والے نوجوانوں کا غم اپنی جگہ اسی طرح ہے۔لیکن یہ احساس غالب آتا ہے کہ بلوچستان میں سوچ منجمد نہیں ہوئی ہے۔ تعلیم کے شعبے میں بھی پیش رفت ہے ادب میں بھی۔ گفتگو میں پروفیسر ڈاکٹر زینت ثنا بلوچ۔ صبیحہ بلوچ۔ سلیم شاہد۔ شہزادہ ذوالفقار۔ ظاہر جمالدینی۔ رزاق نادر۔ عبدالستاربلوچ۔ محمد آصف بلوچ۔سگت رفیق۔شبیر رخشانی شریک تھے۔ ہر ایک کے اظہارئیے میں میرے لئے بہت کچھ نیاتھا۔ ایک قانون داں محمد اکبر آزاد۔ اسلام آباد سے بہت شاکی تھے۔ لیکن بلوچستان کے ماضی اور مختلف ادوار پر ان کا مشاہدہ اور تبصرہ قابل قدر تھا۔ اس تبادلۂ خیال میں امیر جماعت اسلامی مولانا عبدالحق ہاشمی بھی عبدالقیوم کاکڑ کے ساتھ شریک ہوگئے۔ اس سے اس نشست کو اور وسعت مل گئی۔

لیکن میں نے اپنا گِلہ ان کے حضور پیش کیا کہ بلوچی افسانے اور نظمیں اُردو میں منتقل کرکے پاکستانیوں کی بڑی تعداد تک پہنچائے نہیں جاتے۔ اب اکیسویں صدی ٹیکنالوجی کے دَور میں ہمیں اپنی شکایتوں۔ رویّوں اور محرومیوں کا تجزیہ نئے انداز میں کرکے یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہئے کہ 71سال میں ہم مختلف علاقوں کے درمیان دوریاں کیوں ختم نہیں کرسکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین