• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر سال اکتوبر کے مہینے کو چھاتی کے سرطان سے متعلق آگاہی(Breast Cancer Awareness)کے مہینے کے طور پر منایا جاتا ہے، جس کا مقصد اس مہلک بیماری سے متعلق عوام میں آگاہی پیدا کرنا اور اس کی وجوہات، احتیاط، تشخیص اور علاج کے لیے فنڈز اکٹھے کرنا ہے۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی چھاتی کے سرطان کے بارے میں شعور بیدار کرنے کے لیے یکم اکتوبر سے پنک ربن مہم کا آغاز کیا گیا،جو7اکتوبر تک جاری رہی۔ رواں سال چھاتی کے سرطان سے بچاؤ کے لیے پنک ربن مہم کا عنوان ’نویں عورت کو بچاؤ‘‘ رکھا گیا۔

پاکستان میں چھاتی کے سرطان کے خلاف کام کرنے والی تنظیم پِنک رِبن کےمطابق، ایشیا میں پاکستان میں چھاتی کا سرطان سب سے زیادہ ہے اور ملک میں ہر9خواتین میں سے ایک کو یہ سرطان ہونے کا خطرہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملک میں تقریباً ایک کروڑ 20لاکھ خواتین اس سے متاثر یا اس میں مبتلا ہوسکتی ہیں۔ تاہم، یہ واحد سرطان ہے،، جس کی تشخیص جلد ہو سکتی ہے اور اس کی علامات بیرونی ہوتی ہیں۔

' بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں چھاتی کے سرطان کو جنسیت سے جوڑا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اگر کوئی عورت ان علامات کو جان بھی لیتی ہے تو وہ اپنے خاندان والوں کو بتانے سے ہچکچاتی ہے اور چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔ اگر خاندان والوں کو بتا بھی دیتی ہے تو خاندان والے اس کو باعث شرم سمجھتے ہیں اور علاج نہیں کراتے۔ جب یہ کینسر اگلی اسٹیج پر پہنچ جاتا ہے تو اس کا علاج بہت مہنگا اور مشکل ہو جاتا ہے۔ چھاتی کے سرطان کا خطرہ عمر کے ساتھ ساتھ زیادہ ہوتا جاتا ہے۔

10سال پہلے محض 2.3فیصد خواتین چھاتی کے سرطان کو بروقت رپورٹ کرواتی تھیں جبکہ اب یہ شرح بڑھ گئی ہی مگر ابھی بھی 10فیصد سے کم ہے۔ پاکستان میں جو پریشان کن بات دیکھی جارہی ہے، وہ یہ ہے کہ نوجوان لڑکیاں اس سرطان میں زیادہ مبتلا ہو رہی ہیں۔ نوجوان لڑکیوں سے مطلب 18سے 20سال کی لڑکیاں ہیں۔ اس عمر میں سرطان ہونے سے شرح اموات بہت زیادہ ہوتی ہے۔ تاہم، نوجوان لڑکیوں میں سرطان کی تعداد کا صحیح اندازہ نہیں ہو سکتا کیونکہ پاکستان میں کینسر رجسٹری نہیں ہے۔

'پاکستان میں 70فیصد خواتین سرطان کی تیسری یا چوتھی اسٹیج پر ڈاکٹر سے رجوع کرتی ہیں۔ اول تو چھاتی کے سرطان سے ہونے والی اموات یا اس سرطان میں مبتلا خواتین کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ پاکستان میں کم از کم 40ہزار خواتین کی ہر سال چھاتی کے کینسر سے موت ہوتی ہے۔ یہ تعداد اصل تعداد سے کہیں کم ہوسکتی ہے کیونکہ کینسر رجسٹری نہ ہونے کے باعث اصل تعداد کا علم نہیں ہوتا۔

عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ چھاتی کا سرطان (بریسٹ کینسر) ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں خواتین کا سب سے عام سرطان ہے اور بہت سے ممالک میں اس کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگوں کی اوسط عمر میں اضافہ ہو رہا ہے اور سرطان بڑی حد تک پختہ عمر کی ایک بیماری ہے۔ برطانیہ میں 30سال سے کم عمر خواتین کو چھاتی کا سرطان ہونے کا امکان2000میں سے ایک ہوتا ہے۔50سال کی خواتین میں یہ خطرہ بڑھ کر50میں ایک ہو جاتا ہے، جبکہ70برس عمر کو چھونے والی13میں سے ایک برطانوی خاتون کو چھاتی کے سرطان میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔70برس کے بعد اس خطرے میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ امریکا میں بھی یہی صورتِ حال ہے۔

تاہم صرف لمبی عمر، سرطان کی بڑھتی ہوئی شرح میں اضافے کا واحد سبب نہیں ہے۔ برطانیہ کی کینسر ریسرچ کے مطابق ،جو خواتین ماں بننے میں تاخیر کرتی ہیں، ہر سال ان میں چھاتی کے سرطان کا خطرہ لاحق ہونے میں تین فیصد اضافہ ہو جاتا ہے۔ البتہ جو مائیں بچوں کو دودھ پلاتی ہیں، ان میں یہ خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ ایک سال بچوں کو دودھ پلانے سے چھاتی کے سرطان کے خطرے میں 4فیصد کمی واقع ہو جاتی ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں ماں کا دودھ پلانے کا رجحان کم پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں چھاتی کے سرطان کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔

دوسری جانب، ترقی پذیر ممالک میں چھاتی کے سرطان سے بچنے کی شرح کم ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق شمالی امریکا، سویڈن اور جاپان میں یہ شرح 80فیصد سے زائد ہے، جبکہ درمیانی آمدن والے ملکوں میں یہ شرح 60فیصد اور کم آمدن والے ملکوں میں 40فیصد سے کم ہے۔

چھاتی کا سرطان 15سال بعد لوٹ سکتا ہے

ایک نئی سائنسی تحقیق کے مطابق، چھاتی کے سرطان کا مرض کامیاب علاج کے 15سال بعد بھی دوبارہ نمودار ہو سکتا ہے۔ اس تحقیق میں 20سال کے عرصے تک 63ہزار ایسی خواتین کی صحت اور علاج کا جائزہ لیا گیا، جن کو چھاتی کے سرطان کی سب سے عام قسم کی تشخیص ہوئی تھی۔ ایسی خواتین جن کی رسولیاں بڑی تھیں یا سرطانی خلیے ان کے لمف غدودوں تک پھیل گئے تھے، ان میں سرطان کے لوٹنے کا 40فیصد امکان تھا۔ تاہم محققین نے امریکی طبی جریدے 'نیوانگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں لکھا ہے کہ اگر ہارمون کے علاج کی مُدت بڑھا دی جائے تو اس مرض کے دوبارہ ہوجانے کے امکانات کم ہو سکتے ہیں۔

چھاتی کے سرطان کی سب سے عام قسم میں ایسٹروجن ہارمون سےسرطان کے خلیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس کے علاج میں مریضوں کو ایسی ادویات دی جاتی ہیں، جو ایسٹروجن کے اس عمل کو روکنے کی کوشش کرتی ہیں۔ عام طور پر اس علاج کے 5سال تک جاری رکھے جانے سے یہ سرطان ختم ہو جاتا ہے۔ تاہم اس تحقیق میں دیکھا گیا کہ جن خواتین میں5سال بعد یہ سرطان ختم ہو گیا تھا، ان میں سے کئی میں اگلے 15سال تک یہ واپس آ گیا۔ البتہ جن خواتین کی رسولی چھوٹی تھی یا ابھی ان کا سرطانی لمف غدودوں تک نہیں پھیلا تھا، ان میں اس مرض کے دوبارہ لوٹنے کے امکانات صرف10فیصد تھے۔

چھاتی کے کینسر کا علاج

عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ ابھی تک چھاتی کے سرطان کی وجوہات کا تعین کرنے کے لیے ٹھوس معلومات حاصل نہیں ہوسکیں، اس لیے اس بیماری پر قابو پانے کا سب سے مؤثر طریقہ ابتدائی مراحل میں اس کی تشخیص میں ہی پوشیدہ ہے۔ ادارے کا ماننا ہے کہ اگر ابتدائی مراحل میں چھاتی کے سرطان کی تشخیص کرلی جائے تو دُرست علاج کے ذریعے متاثرہ خاتون کو اس بیماری سے بچایا جاسکتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت کے مطابق، دنیا میں ہر سال چھاتی کے سرطان کے تقریباً 13لاکھ 80ہزار نئے کیسز سامنے آتے ہیں، جبکہ اس بیماری کے باعث سالانہ اموات کی تعداد 4لاکھ 58ہزار سے زیادہ ہے۔ ان میں سے زیادہ تر اموات کم اور اوسط آمدنی والی ملکوں میں ہوتی ہیں اور یہ تعداد 2لاکھ 69ہزار ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو ان ملکوں میں ابتدائی مراحل میں مرض کی تشخیص کی سہولیات دستیاب نہیں جبکہ دوسرے کئی کیسز میں خواتین کو صحت کی سہولیات تک رسائی حاصل کرنے میں رکاوٹوں کا سامنا ہوتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کا ماننا ہے کہ اس صورتحال کو سرکاری شعبے میں صحت کے پروگراموں کے ذریعے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ ادارہ زور دیتا ہے کہ صحت کے ان پروگراموں میں مرض کے جلد از جلد تعین اور تشخیص اور چھاتی کی کلینکل اسکریننگ کو بنیادی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ میموگرافی اسکریننگ بہت مہنگی ہے اور صرف صحت کا اچھا انفرااسٹرکچر رکھنے والے ہسپتالوں میں ہی اس کی مناسب سہولت دستیاب ہوتی ہے۔

سرطان سے بچاؤ کیلئے احتیاط

عالمی ادارہ صحت کا اندازہ ہے کہ سرطان کے30فیصد سے 50فیصد کیسز میں صرف احتیاطی تدابیر اختیار کرکے ہی بچاجاسکتا ہے۔ سرطان سے بچاؤ کے لیے احتیاط سب سے کم لاگت اور مؤثر ترین حکمتِ عملی ہے۔ آگہی پیدا کرنے، سرطان کے باعث بننے والے ممکنہ عناصر سے دور رہنے اورصحت مندانہ زندگی گزارنے کے لیے خواتین تک معلومات اور معاونت کی فراہمی یقینی بنائی جائے، جس کے لیے قومی پالیسیوں اور پروگرامز کی تشکیل اور ان پر عمل درآمد کرنے کی ضرور ت ہے۔

تمباکو نوشی

تمباکونوشی کی وجہ سے سرطان ہونے کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ ہر سال تمباکونوشی کے نتیجے میں پیداہونے والے سرطان اور دیگر بیماریوں کے باعث تقریباً 60لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ تمباکو کے دھویں میں 7ہزار سے زائد کیمیکلز ہوتے ہیں۔ ان میں سے کم از کم250کیمیکلز انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہیں،جبکہ 50سرطان کا باعث بنتے ہیں۔

دیگر عوامل

دیگر عوامل جو انسانوں میں سرطان کا باعث بنتے ہیں ان میں، جسمانی سرگرمی کا نہ ہونا، غذائی مسائل، بڑھا ہوا وزن، الکوحل کا استعمال، ماحولیاتی آلودگی، قدرتی اور مصنوعی شعاعوں سے میل جول شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، تقریباً 15فیصد کینسر کے کیسز انفیکشنز کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں۔ ان انفکیشنز میں helicobacter pylori، human papilloma virus (HPV)، ہپاٹائٹس Bاور Cاور Epstein-Barrوائرس نمایاں ہیں۔ 

تازہ ترین