• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’ فوری اقدامات نہ کیے گئے تو سات سال بعد پاکستان کو خشک سالی کا سامنا کرنا ہوگا‘‘ سپریم کورٹ کے زیر اہتمام ’’پانی کی قلت اور مسائل‘‘ کے موضوع پر دوروزہ سمپوزیم میں ہفتے کے روز چیف جسٹس کا یہ انتباہ کسی اچانک رونما ہوجانے والی صورت حال کا انکشاف نہیں بلکہ ایسا معاملہ ہے جس سے پچھلے تین چار عشروں سے ماہرین خبردار کرتے چلے آرہے ہیں۔ صدر مملکت عارف علوی نے بھی سمپوزیم سے خطاب کیا اور بھاشا ڈیم سمیت ملک میں جلد از جلد پانی کے بڑے ذخائر کی تعمیر کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ آج ملکی ضروریات کے لیے ہماری پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف تیس دن تک محدود ہوچکی ہے۔ صدر علوی نے پانی کے مسئلے کے حل کے لیے قومی آبی پالیسی پر عمل درآمد ، شجر کاری کی مہم کو کامیاب بنانے اور توانائی کی ضروریات کی تکمیل کے لیے سورج اور ہوا جیسے کم خرچ ذرائع سے کام لیے جانے پر زور دیا۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے خطاب میں پانی کو بجاطور پر ہماری قومی بقا کا معاملہ قرار دیا۔ سپریم کورٹ نے پانی کے بحران کی شکل میں قوم کو درپیش چیلنج سے نمٹنے کی راہیں تلاش کرنے کے لیے سمپوزیم کا اہتمام کرکے بلاشبہ ایک مستحسن قدم اٹھایا ہے۔صدر علوی نے اپنے خطاب میں جس قومی آبی پالیسی پر عمل درآمد کی ضرورت کا اظہار کیا، وہ سابقہ وفاقی حکومت کا یقیناًایک مفید کام ہے۔گزشتہ اپریل کے اواخر میں چاروں صوبوں کے اتفاق رائے سے تشکیل پانے والی اس قومی آبی پالیسی میں پانی کے وسائل کی حفاظت و تقسیم،نئے ذخائر کی تعمیر سمیت تمام متعلقہ امور شامل ہیں۔بھاشا ڈیم کے لیے سابقہ دور میں 14 ہزار ایکڑ زمین بھی خریدی جاچکی ہے لیکن آئندہ چار پانچ سال میں بھاشا اور مہمند ڈیم مکمل کرنے کے لیے کئی سو ارب روپے کے خطیر وسائل درکار ہیں ۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ غیرمعمولی اقدامات عمل میں لائے جائیں۔ چیف جسٹس نے چند ماہ پہلے بینکوں کے قرضے واپس نہ کرنے والی222 کمپنیوں اور اشخاص کے خلاف ازخود کارروائی کے دوران اس کے نتیجے میں54 ارب روپے تک کے مالی وسائل فراہم ہونے کا امکان ظاہر کیا تھا۔ اس سمت میں کامیاب پیش رفت ڈیموں کی تعمیر کے لیے ایک معقول رقم کی فراہمی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ کرپشن کے خلاف حکومتی مہم جس کے نتیجے میں ملک کے اندر اور باہر سے لوٹی ہوئی قومی دولت کی بڑے پیمانے پر واپسی کے امکانات ہیں، ڈیموں کی تعمیر اور دیگر ملکی ضروریات کے لیے وافر وسائل کے حصول کا باعث بن سکتی ہے ۔ بیرون ملک پاکستانیوں سے وزیر اعظم نے ڈیم فنڈ میں شرکت کی جو اپیل کی تھی، اسے مزید نتیجہ خیز بنانے کے لیے بھی تمام ضروری تدابیر اختیار کی جانی چاہئیں۔ توانائی کی لامحدود فراہمی کا ایک بآسانی قابل استعمال ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اہل پاکستان کو سورج کی روشنی کی شکل میں دیا ہے۔ملک بھر میں لوگ اب اپنے طور پر عام مارکیٹ سے سولر پینل اور بیٹریاں خرید کراس نعمت سے استفادہ کررہے ہیں۔ ایک اوسط گھر انہ اس ٹیکنالوجی سے ڈیڑھ دو لاکھ کے خرچ سے روزمرہ بجلی کی ضروریات میں خود کفیل ہوجاتا ہے جبکہ اضافی بجلی نیشنل گرڈ کو فراہم کرکے اضافی آمدنی بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔ حکومت اس سلسلے میں عوامی آگہی کی مہم چلاکر ، سولر پینل اور بیٹریوں پر ٹیکس میں چھوٹ دے کر اور قومی بینک اس مقصد کے لیے آسان شرائط پر قرضے فراہم کرکے بہت کم وقت میں بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کا بوجھ ہلکا کرسکتے اور عوام کو بجلی کے بھاری بلوں کی ادائیگی سے نجات دلاسکتے ہیں۔پانی کے بحران اور دیگر سنگین قومی چیلنجوں سے کامیابی کے ساتھ نمٹنے کے لیے قومی اتحاد اور یکجہتی بھی بہرحال ایک ناگزیر ضرورت ہے لہٰذا وقتی اور سیاسی مفادات کے لیے بے ثبوت الزام تراشیوں اور پروپیگنڈے سے سب کو اجتناب کرنا چاہیے اور پارلیمنٹ کو سیاسی اکھاڑے کے بجائے مہذب جمہوری ملکوں کی طرح قومی ایشوز پر بامقصد بات چیت اور افہام و تفہیم سے مسائل کے حل کی تلاش کا ادارہ بنایا جانا چاہیے ، قومی یکجہتی کی اس ضرورت کی تکمیل کے بغیر کسی بھی قومی ہدف کی تکمیل میں کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی۔

تازہ ترین