• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک بھر میں جس ایک انتخابی کامیابی پر بلا تخصیص مرد وزن اظہار خوشی کررہے ہیں،وہ شہید ہارون بلور کی اہلیہ ثمر بلور کی سُرخ روئی ہے۔یہ امر اس رحجان کابھی مظہر ہے کہ عوام کس طرح شہدا کے اہل خانہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے،ان کی قربانی کا احساس رکھتے ہیں ۔ کامیابی کے بعد کیپیٹل ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئےشہید ہارون بلور کی اہلیہ نےتاہم ایک سوال اُٹھایا ہے۔اُن کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان میں جو لوگ شہید ہوجاتے ہیں،اُن کےلواحقین کو اس سوال کا جواب نہیں ملتا کہ اُن کے پیاروں کو کس جرم کی پاداش میں سب سے بڑی یعنی موت کی سزا دی گئی ہے؟یہ سوا ل قبائلی پختون بیلٹ میں 400سے زیادہ شہید ہونے والے اُن وطن دوست ملکان کےاہل خانہ بھی اُٹھارہے ہیں، جو روایتی ملک نہ تھے،اور نہ ہی ایف سی آر جیسے کالے قوانین کی حمایت میں وہ ملک بنے تھے ،بلکہ وہ عوام سے تھے اور عوام ہی نے اُنہیں اپنے مشر(بڑے) کے رتبے پر فائز کیا تھا۔یہ سوال بالخصوص اے این پی کے کارکن بھی نجی محافل میں کرتے ہیں کہ آخر دہشت گرد اے این پی کے وابستگان ہی کو کیوں ہدف بنائے ہوئے ہیں؟حالات کا جبر مگر یہ بھی ہےکہ کون کس مقصد کیلئے اے این پی کے متعلقین کو خون میں نہلا رہا ہے،اس سوال کی غائیت ،اہمیت ،افادیت اور ہمہ گیریت کا یا تو اس جماعت کے قائدین کوادراک نہیں ہے،یا پھر وہ اُس جرات رندانہ سے بے گانہ ہیں،جو باچاخان اور خان عبدالولی خان کی پہچان تھی ۔ ایسے عالم میں محترمہ ثمر بلور کیلئے بھی یہ سوال خود ایک سوال بن سکتا ہے۔ بلاشبہ ثمر بلور صاحبہ کی کامیابی پختون کنزرویٹو سوسائٹی کی خواتین کیلئے یوںایک مثال ہے کہ طویل عرصے بعد جنرل نشست کے ذریعے ایک خاتون کا انتخاب عمل میں آیا ہے ،پھراے این پی میں محترمہ بیگم نسیم ولی خان (موربی بی ) کے بعد براہ راست عوامی حمایت کا اعزاز بھی اُنہی کو حاصل ہوا۔تاریخ یہ ہے کہ بلور خاندان قول کا ہی دھنی نہیں ہے،بلکہ وہ اپنے قول پر کر گزرنے کی خو لاجواب رکھتا ہے۔ جب بھی پختون قومی تحریک پر کڑا وقت آیا حاجی بلور احمد صاحب کےخانوادے نے قربانی کے لئے خود کو سب سے پہلے پیش کیا۔ باچا خان، ان کی تحریک، نیپ، این ڈی پی اور اے این پی پر کئی نشیب و فراز آئے۔ اس دوران جب بڑے بڑے تذبذب کا شکار ہوتے، یہ بلور خاندان کے مکین ہی ہیں جو ابہام و ہیجان کے ایسے وقت میں سامنے آ کر ولی باغ سے اپنی غیرمتزلزل وفاداری کا اعلان کر لیتے ہیں۔ حضرت مجروح سلطان پوری ایسے قیس و منصور کی کیا خوب بے باکی بیان کرتے ہیں۔

ہم تو پائے جاناں پر کر بھی آئے اک سجدہ

سوچتی رہی دنیا کفر ہے کہ ایماں ہے

بلور خاندن کو 2008 کے انتخابات کے بعداُس وقت ایک آزمائش سے دوچار ہونا پڑا،جب اے این پی کو پختونخوا میں حکومت سازی کا موقع ملا۔بشیر بلور جیسے سینئر رہنما و جہان دیدہ سیاست دان کے ہوتے ہوئے ایک جونیئر امیر حیدر ہوتی کوپارٹی نے وزارت اعلیٰ کے منصب پر فائز کرنے کا فیصلہ کیا۔یہ وہ دور تھا جب اے این پی میں ایمل ولی اور امیر حیدر ہوتی فیکٹر نمایاں ہورہا تھا،پارٹی کو مور بی بی( محترمہ نسیم ولی خان) کی مخالفت کا چیلنج درپیش تھا جبکہ اسفندیارولی خان صاحب بیماری اور گومگو کیفیت کے زیر بار تھے۔بشیر بلور نے مگر پارٹی کے فیصلے کو قبول کیا۔یو ں شہید، پارٹی کارکنوں کیلئے تنظیمی نظم و ضبط کی ایک مثال بھی چھوڑ گئے۔ ضمنی انتخابات کے حوالے سے محترمہ ثمر بلور کی کامیابی کی خبر یوں دیگر 33کامیابیوں پر برتر ہے کہ نو منخب رکن پختونخوا اسمبلی دو شہدا، سسر بشیر احمد بلور شہید اور شوہر ہارون بلور شہید سمیت حاجی غلام احمد بلور کے زریں اصولوں پر استوار سیاست کی امین ہیں۔ثمر بلور صاحبہ اگرچہ عملی سیاست کا حصہ کبھی نہیں بنیں،لیکن اُن کا عزم و استقلا ل اس امر کی عکاسی کررہا ہے کہ وہ جلد سیاست میںاپنا مقام آپ پیدا کرلینگی۔اس سلسلے میں یہ ایک چھوٹا واقعہ بھی اُن کی بلند فکری پرواز کا غماز ہے ،کہ جب وہ ہارون بلور کی شہادت کے باعث دکھ و کرب سے نڈھال تھیں،نگراں حکومت5 لاکھ روپے کا چیک لے کرآئی، شہید کی اہلیہ نے یہ کہہ کرچیک واپس کردیا ، کہ ہارون بلورقوم کی خاطر جاں وار گئے ہیں، اُن کی شہادت کی قیمت کوئی ادا نہیں کرسکتا ۔حضرت اقبال ہی نے تو کہا تھا۔

مرے خاک و خوں سے تو نے یہ جہاں کیا ہے پیدا

صلہ شہید کیا ہے ،تب و تاب جاودانہ .......

تازہ ترین