• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قصور کے بعد بچے سے بدفعلی کا ایک اور اسکینڈل

اسلام آباد(عمرچیمہ) مبارک علی اپنی ہفتہ وار تعطیل گھر والوں کے ساتھ گزارنے یکم ستمبر کو گائوں واپس آیا۔ نویں جماعت کا طالب علم اس کا بیٹا کونے میں افسردہ چہرے کے ساتھ چپ بیٹھا تھا۔ والد کو دیکھ کر وہ پھٹ پڑا اور بلک بلک کر رونے لگا اور بتایا کہ مجھے اپنی زندگی کے بدترین تجربے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ کہہ کر وہ دوبارہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ ایک مقامی بااثر شخص نے اس کا جنسی استحصال کیا اور انسانیت سوز عمل کی عکس بندی بھی کی۔ تین دنوں میں اسے دوسری بار ہولناک اور اذیت ناک تجربے سے گزرنا پڑا۔ اس کے اظہار کی قیمت خطرات سے بھری پڑی تھی۔ ملزم مقامی بااثر شخص کا بیٹا اور ایک عادی ابلیس صفت ہے۔ جس نے ضلع اوکاڑہ کے تحصیل ہیڈ کوارٹر رینالہ خورد کے قریب دو دیہات میں درجن بھر بچوں کو بدفعلی کا نشانہ بنایا۔ اس طرح قصور کے بعد بچے سے بدفعلی کا ایک اور اسکینڈل سامنے آیا ہے۔ مبارک علی جو لاہور کے قریب منگا منڈی میں فیکٹری کا ڈرائیور ہے۔ اس کی زندگی کا واحد خواب اپنے بچوں کو تعلیم یافتہ اور بہتر انسان بنانا ہے۔ جب اس نے اپنے بیٹے کی بپتا سنی تو اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی اور وہ غصے سے پھٹ پڑا۔ یہ طرز واردات قصور میں بچے سے بدسلوکی کے واقعہ مماثلت رکھتا ہے۔ اکثر متاثرہ بچوں کے والدین نے ان واقعات پر خاموشی اختیار کر لی دیگر جنہوں نے ملزمان کے خلاف رجوع کرنے کی جرأت کی۔ وہ حالا ت یا نظام کی ستم ظریفی کا شکار ہو گئے۔ اسی ملزم نے ایک اور بچے کے ساتھ وحشیانہ عمل کیا اور اس کی ویڈیو بنا کر پھیلا دی۔ تب ہی اس بچے کے والدین کو قبیح فعل کا علم ہوا۔ ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو شکایت درج کرائی گئی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بچے کو اسکول چھوڑ دینا پڑا۔ وہ جس اسکول میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا، وہاں اس کے والد خود اُستاد تھے۔ وہ مہینوں اپنے گھر تک محدود رہا ،وہ لوگوں کا سامنا نہیں کر سکتا تھا، اس کے اندر کا ایک کھلاڑی مر گیا۔ اس کے والدین نے اسے حوصلہ دینے کی ناکام کوششیں کیں اسے سنبھلنے میں سال بھر کا عرصہ لگا۔ وہ اپنی تعلیم اور کھیلوں کی سرگرمیاں چھوڑ کر بڑے بھائی کی دکان چلا رہا ہے۔ اس کے والد کا کہنا ہے کہ اپنے بیٹے کو صدمے سے نکالنے کے لئے وہ کسی قریبی شہر میں منتقل ہو جانا چاہتے ہیں۔ اس وقت وہ اپنا مکان فروخت کرنے کی تگ و دو میں ہیں۔ ملزم اسد اللہ جو واپڈا کا ملازم ہے اسکول کی کینٹین اور پلے گرائونڈ اس کی بہترین ’’شکار گاہیں‘‘ہیں۔ وہ اسکول کا میٹر ریڈر ہے۔ اس کا باپ یونین کونسل کا چیئرمین ہونے کے ناطے علاقے کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی سے قریبی تعلق رکھتا ہے۔ اس کا بڑا بھائی جو پولیس اہلکار ہے۔ اس پر بھی اغلام بازی میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ چند سال قبل ایک طالب علم کو بدفعلی کا نشانہ بنایا۔ والدین نے ملزم کے خلاف پولیس کی مدد چاہی لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا بچے کا باپ ایک مستری ہے۔ بچے کو تعلیم چھوڑ کر رشتہ داروں کے پاس منتقل کرنا پڑا اور بعدازاں مزدوری کے لئے متحدہ عرب امارات بھیج دیا گیا۔ اکثر واقعات میں متاثرہ خاندانوں کو دبائو ڈال کر چپ کرا دیا جاتا ہے۔ جو قانون کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ انہیں طبی معائنوں میں ہیر پھیر کے ذریعہ پریشان کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ بچے اپنے سے زیادتی کے بارے میں والدین کو دنوں بعد آگاہ کرتے ہیں۔ جب طبی معائنے کی افادیت باقی نہیں رہتی۔ مبارک علی کے بیٹے سے زیادتی کا باپ کو اسی روز علم ہوا۔ اس نے ایف ا ٓئی آر درج کرانے کیلئے رینالہ خورد پولیس سے اسی روز رجوع کیا۔ شروع میں پولیس نے ٹال مٹول سے کام لیا لیکن جب مبارک علی نے تھانے کے سامنے خود سوزی کی دھمکی دی اور ایک وکیل کے دبائو ڈالنے پر مقدمہ درج اور ملزم کو گرفتار کر لیا گیا۔ میڈیکل رپورٹ میں بدفعلی کی تصدیق ہو گئی۔ مبارک علی نے تمام تر دبائو اور لالچ کے حربوں کو مسترد کردیا۔ اس کا مؤقف ہے اپنے بچوں کو بچانے کے لئے کسی کو تو اُٹھ کھڑا ہونا پڑے گا۔

تازہ ترین