جسے رہنمائی کیلئے مولانا فضل الرحمٰن کو اختیار کرنا پڑا، اقبالؔ کہتے ہیں۔
میں جانتا ہوں انجام اس کا
جس معرکے میں ملا ہو غازیؔ
جنگل کا مسافر اندھیری رات میں خوف کا شکار ہو جائے تو تنہائی کے ازالے کیلئے اونچی آواز میں کچھ بڑبڑانے یا گنگنانے لگتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ چوکنا ہو کر اردگرد نظر بھی کرتا جاتا ہے جوں سارے جنگل کے سانپ اور بچھو اس کے پائوں سے لپٹے جارہے ہوں۔ پاکستان میں اپوزیشن کی حالت اس ڈرے سہمے مسافر کی سی ہے۔ جو فیصلے ڈر، خوف یا لالچ میں کئے جائیں ان کا نتیجہ اور انجام جاننے کیلئے کسی ارسطو سے مشورے کی ضرورت نہیں۔
کراچی سے خاتون ڈاکٹر عمرہ کیلئے سعودی عرب پہنچیں۔ ان کے شوہر ہیلی کالج میں خالد بھائی کے ہم جماعت تھے۔ دھان پان سی ڈاکٹر نے مکہ مکرمہ پہنچتے ہی عمرہ کیا اور سیدھی غار حرا جا پہنچیں۔ واپس آئی تو تھکاوٹ سے چور تھیں۔ بھائی نے پوچھا پہاڑ کی چڑھائی زیادہ دشوار تھی یا اترائی؟ بولیں، اونٹ سے کسی نے یہی سوال پوچھا کہ چڑھائی مشکل ہے یا اترائی؟ تو اونٹ بولا ’’ہر سہ لعنت‘‘ یعنی تینوں پر لعنت۔ سوال کرنے والے نے کہا، کہ ہم نے دو کے متعلق پوچھا تھا۔ یہ تیسرا کدھر سے آگیا۔ اونٹ نے کہا ’’کیچڑ بھی‘‘۔
ہماری اپوزیشن کو بھی خوف، غصہ اور لالچ، بیک وقت تینوں کا سامنا ہے۔ اس دبائو اور بوکھلاہٹ میں کوئی ڈھنگ کا فیصلہ کر پاتے ہیں نہ کوئی معقول مطالبہ ان کی سمجھ میں آرہا ہے۔ دھاندلی کا شور مچاتے ہیں لیکن نئے انتخاب کا مطالبہ نہیں کرتے۔ اسمبلی میں قرارداد کا شوشہ چھوڑتے ہیں لیکن عدم اعتماد کی طرف نہیں آتے۔
شارجہ میں روایتی اور ازلی حریف پاکستان اور بھارت کے مابین کرکٹ میچ کھیلا جا رہا تھا۔ چوکس کھلاڑی پرجوش شائقین ایک ایک گیند ایک ایک رن جان جوکھم کا کام تھا، عاقب جاوید کی بال پر ایمپائر نے ’’سری کانت‘‘ کو آئوٹ قرار دیا تو بھارتی کھلاڑی سری کانت جزبز دکھائی دیا، اسے ریفری کے فیصلے پر اعتراض تھا۔ ناراض نظر آتے سری کانت کو کپتان عمران خان نے واپس بلایا اور دوبارہ کھیلنے کی دعوت دی۔ سری کانت کریز پر کھڑا ہوا اور بائولر نے اگلی بال پر اس کی وکٹ اڑا دی، تو سری کانت کا رنج شرمندگی میں بدل گیا۔
2013ء میں انتخاب کے بعد عمران خان نے دھاندلی کا الزام عائد کرتے ہوئے چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا اور ان چار حلقوں کی نشاندہی بھی کر دی۔ مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ کی حکومت تھی۔ پورے ملک کی انتظامیہ اور مقتدر ادارے اس کے سامنے سرنیہوڑائے ہوئے تھے۔ ہر ایوان میں واضح اکثریت تھی۔ اس کے باوجود وہ پُراعتماد نہیں تھے اس لئے انہوں نے عمران خان کے مطالبے پر کان نہیں دھرا ’’پھر جو ہوا سو ہوا‘‘۔ عمران خان نے 2018ء کا الیکشن جیتا تو جواب آں غزل کے طور پر اس پر بھی انتخاب چرانے کا الزام عائد کرنے کی کوشش ہوئی۔ تب کپتان نے واضح لفظوں میں کہا کہ حلقوں کی نشاندہی کریں، ہر حلقہ کھولنے اور چیلنج زدہ حلقے میں دوبارہ انتخاب کیلئے تیار ہوں۔ تب ’’میدان وغا‘‘ میں اترنے کے بجائے ایوان میں دھاندلی کی چھان بین کیلئے کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا گیا تو تحریک انصاف کے اسپیکر نے پارلیمانی کمیشن قائم کردیا۔
انتخابات میں شکست کے صدمے کے ساتھ مستقبل میں اقتدار سے مستقل محرومی کا خوف اندر ہی اندر ان کی جان کو کھائے جا رہا ہے۔ خیبر پختونخوا میں معمولی اکثریت سے ملنے والی نیم خودمختار حکومت نے تحریک انصاف کی کارکردگی وہاں دوتہائی اکثریت دلا سکتی ہے تو سارے ملک اور اکثر صوبوں میں اس کی کارگزاری جس کی اٹھان ابتدائی دنوں میں صاف نظر آتی ہے، ماضی کے حکمرانوں کو اقتدار اور اس سے حاصل ہونے والی مراعات سے ہمیشہ کیلئے محروم کرسکتی ہے۔ یہ لوگ نئے انتخابات کے مطالبے کا جوا کھیلنے کو بھی تیار نہیں، اس لئے کہ جیت کر آنیوالے اپوزیشن کے ممبران اسمبلی بشمول مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت کے، جانتے ہیں کہ وہ کس مشکل سے یہ انتخاب جیت پائے ہیں۔ دوبارہ شاید قسمت یاوری نہ کرے۔ چنانچہ ایسا مطالبہ کرنے کی صورت میں ان کے ممبران اسمبلی کی اکثریت بغاوت پر اتر سکتی ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ ایک بڑا پارلیمانی گروپ اپوزیشن کی اپوزیشن میں وجود پا جائے۔
سکرین دانشور، حکومت کو اپوزیشن کے ممکنہ اتحاد سے خوفزدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف کے خلاف اپوزیشن کا مجوزہ اتحاد کوئی نئی بات نہیں۔ مرکز اور صوبوں کی ساری حکومتیں بشمول اپوزیشن عمران خان کے خلاف تب بھی اکٹھی تھیں جب وہ چھوٹی سی پارلیمانی پارٹی کے ساتھ ایوان میں تھا۔ ان کا اکٹھ تب کچھ نہ بگاڑ سکا تو اب بھی نہیں بگاڑے گا۔ سارا اقتدار کے وسائل، مقتدر ادارے، سرکاری خزانہ، پولیس، انتظامیہ، پراپیگنڈہ مشینری، لفافوں کی سہولت، مال روڈ کے کھمبے، اخبارات میں صفحہ اول کے اشتہارات، ٹی وی کا پرائم ٹائم، پراپرٹی مافیا کی دولت، کمپنیوں کے کمیشن، مصنوعی جلسوں میں مدرسوں کے طالب علم ڈھونے کیلئے ’’چوروں کے کپڑے اور لاٹھیوں کے گز‘‘
موجودہ حالات میں اپوزیشن کے پاس کون سے رستے (OPTION) ہیں جنہیں وہ اختیار کرسکتی ہے؟ سیاست اور اس کی حقیقت کو پسندیدہ نگاہ سے دیکھا جائے تو فی الوقت سارے پتے اور ساری ترجیحیں عمران خان کے پاس ہیں۔ اپوزیشن کی کھسیانی بلی نے کھمبا نوچنے کیلئے مولانا کو رکھ چھوڑا ہے۔
اقتدار سے محروم دونوں بڑی پارٹیاں مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی اگرچہ اب بھی ایوان میں قابل ذکر موجودگی رکھتی ہیں۔ ثانیٔ الذکر تو ایک صوبے میں حکمران بھی ہے لیکن دونوں فی الحال مرکز میں حکومت سازی کی دوڑ سے باہر ہیں۔ دونوں کی قیادت عشروں پر محیط اقتدار سے ملنے والے فوائد کا زیادہ حصہ ریاست کو واپس لوٹا کر ’’جان کی امان‘‘ کے عوض ’’بن باس‘‘ لینے یا دیس نکالا جھیلنے کو تیار ہیں مگر عدالت عدل پر مصر، نیب چابکدست، فوج خاموش، حکومت اٹل کہ وہ اپنے وعدوں کو قوم سے کئے گئے عہد سے ہٹنے کو تیار نہیں کہ قوم کے مجرموں کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا اور لوٹی دولت ضرور واپس لائی جائے گی۔ قارئین جانتے ہیں کہ مسلم لیگ نواز نے شیر کو اپنا نشان بنایا ہے تو آصف علی زرداری اگست میں پیدا ہونے کی وجہ سے ’’ستارہ اسد‘‘ کے حامل ہیں۔ وہ حقیقتاً ایک شیر کی روح کے ساتھ پیدا ہوئے مگر
وہ فریب خورد شاہیں جو پلا ہو گرگسوں میں
اسے کیا خبر کہ کیا ہے، رہ و رسمِ شاہ بازی
شیروں کے بچے چڑیا گھر میں پیدا ہوکر نہ صرف شکار کی رسم سے ناآشنا ہوتے بلکہ رکھوالے کی طرف سے دیا گیا راتب کھانے پر مجبور بھی ہیں۔
رہ گئے مولانا فضل الرحمٰن، وہ بے چارے غالب کی طرح حسن طلب نہیں رکھتے۔ غالب آم کے باغ میں آئے تو ایک ایک آم کو پکڑ کر دیکھ رہے تھے، دوست جو باغ کے مالک بھی تھے انہوں نے پوچھا، آپ غور سے کیا دیکھتے ہیں۔ غالب بولے، سنا ہے ہر دانے پر کھانے والے کا نام لکھا ہوتا ہے۔ دیکھتا ہوں کہیں میرا نام بھی ہے۔ اسی رات نوشہ میاں کے گھر میں آموں کی ٹوکریاں پہنچ گئیں۔
بچے غالب کا حسن طلب کہاں سے لائیں۔ بھوک اور نئے کھلونے کی طلب میں چیخ کر چلاتے اور ایڑھیاں رگڑتے ہیں۔ تو اہل خانہ قلم میں حسن نہ ہونے کے باوصف ان کے مطالبات پورا کیا کرتے ہیں۔ ہمارے معصوم مولانا کو بھی حسن طلب کا سلیقہ نہ سہی مگر طلب تو ہے اور کچھ زیادہ بھی نہیں۔ وہ حکومت کی بس اک نظر کرم کے تمنائی ہیں۔