آج بھی دنیا کے ہر مہذب اور ترقی یافتہ ملک میں حکمرانوں سے لے کر عام شہری تک قانون کی پابندی اور اس کی پاسداری کو اپنے لئے ناگزیر سمجھتا ہے اور اس تصور کی بدولت ایسے ممالک کو زندگی کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے اور ترقی کی منازل طے کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس حوالے سے اسلام کے نظام عدل ا ور قانون کی پابندی بھی ایک مثال کا درجہ رکھتی ہے جو پوری انسانیت کے لئے ایک رہنما اصول کے زمرے میں آتی ہے۔اسلام میں نہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت دی جاسکتی ہے اور نہ ہی کوئی حکمران اپنی سیاسی بالا دستی کے باعث کسی عدالت کو متاثر کرکے اپنے حق میں کوئی فیصلہ کراسکتا ہے۔
پاکستان میں موجودہ چیف جسٹس افتخاراحمد چوہدری اور عدلیہ کی بحالی کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان نے ایک نہیں ہر موقع پر دو ٹوک انداز میں یہ امر واضح کیا ہے کہ قانون کی بالا دستی کا احترام اور اس کی پیروی حکمران طبقے سمیت پاکستان کے ہر شہری پر لازم ہے۔ اس سے کسی کو بھی مستثنیٰ قرار نہیں دیا جاسکتا اس لئے کہ جب تک کوئی قوم آئین کی بالا دستی اور قانون کی حکمرانی کا عملی ثبوت پیش نہیں کرتی وہ قوم زندگی کے کسی بھی شعبے میں پیش قدمی نہیں کرسکتی چنانچہ عدالت عظمیٰ کے ایک فیصلے کی روشنی میں ہی سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو اپنے منصب سے الگ ہونا پڑا تھا جو قومی سیاست میں ایک زبردست تبدیلی کا مظہر تھا۔ عدالت عظمیٰ اور چیف جسٹس آف پاکستان نے اپنے ہر فیصلے میں نظریہ ضرورت کے تصور کی تار بود بکھیر کر رکھ دی ہے۔ انہوں نے عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے میں وکلاء کے کردار کو بھی قرار واقعی اہمیت دیتے ہوئے بار اور بنچ کے درمیان تعاون کو ناگزیر قرار دیا ہے کیونکہ اس تعاون کے بغیر انصاف کی فراہمی اور نظام عدل کو چلانا اور آگے بڑھانا ممکن نہیں ہوتا۔ سابقہ حکومتوں کے دور میں ماورائے آئین اقدامات نے ایک معمول کی شکل اختیار کرلی تھی جس نے عام آدمی کے لئے حصول انصاف کو غیر یقینی بنا کر رکھ دیا تھا جب معاشرے کے ہر فرد کو انصاف کی فراہمی ایک یقینی امر بن جائے تو ایسے معاشرے پر کوئی طاقت تسلط قائم نہیں کرسکتی۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ عدلیہ نے میڈیا اور سول سوسائٹی کے تعاون سے بلاشبہ تاریخ ساز فیصلے دئیے ہیں اور معاشرے میں ماورائے آئین اقدامات کی بھرپور حوصلہ شکنی ہوئی ہے جس سے قانون کی بالادستی کے تاثر کو بھی تقویت مل رہی ہے۔ اس وقت بھی بعض عناصر ذاتی، تسلی، لسانی اور گروہی بالا دستی کو تقویت دینے کے لئے آئین کی بالا دستی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کی جو کوششیں کررہے ہیں انہیں ناکام بنانا پوری قوم کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اس سے ماورائے عدالت فیصلوں کا دور بھی ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ہمیں وسیع تر قومی و ملکی مفادات معروضی حالات اور زمینی حقائق کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہمارے لئے آئین اور قانون پرعملدرآمد کے سوا اور کوئی راستہ نہیں اور نہ ہی اس کے بغیر ہماری فلاح و بقاء ممکن ہے۔یہ امر بھی بڑاا مید پرور اور حوصلہ افزاء ہے کہ عوامی سطح پر بھی اس تبدیلی کی اہمیت کو تسلیم کیا جارہا ہے اور عدلیہ پر عوام کے اعتماد میں بھی قابل ذکر حد تک اضافہ ہوا ہے، البتہ ماتحت عدالتوں کا معاملہ ہنوز توجہ طلب ہے۔ اسلئے ضرورت ہے کہ ان کی اصلاح کی طرف خصوصی توجہ دی جائے۔ اس حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان کے علاوہ چاروں صوبوں کے اعلیٰ عدالتیں بھی کئی اقدامات کرچکی ہیں اور بعض کرپٹ اور بدعنوان ججوں کو فارغ بھی کردیا گیا ہے۔ ان عدالتوں کے عملے کے اہلکاروں کی کارکردگی بھی اصلاح طلب ہے۔ اس حوالے سے وکلاء برادری کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ان کے موٴثر تعاون و اشتراک کے بغیر ماتحت عدالتوں کے معاملات کی اصلاح ممکن نہیں۔ ماتحت عدالتوں کی اصلاح قانون و آئین کی بالا دستی اور شہریوں کے لئے انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے بغیر ہمیں ورثے میں ملنے والے کلچر کا خاتمہ ممکن نہیں۔ عوام کی ترقی خوشحالی اور قیام پاکستان کے بنیادی مقاصد کے حصول،18کروڑ عوام کی محرومیوں اور مایوسیوں کا خاتمہ اور جان و مال کا تحفظ آئین و قانون کی بالادستی دور مکمل پیروی کے بغیر ممکن نہیں۔