آئی جی اسلام آباد جان محمد نے اپنے عہدے پر کام کرنے سے انکارکردیا۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد کے تبادلے پر از خود نوٹس کیس کی سماعت کی، وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی اعظم سواتی، متاثرہ خاندان، اٹارنی جنرل اور آئی جی اسلام آباد کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔
سماعت شروع ہوئی تو آئی جی اسلام آباد جان محمد نے اپنے عہدے پر کام جاری رکھنے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان حالات میں کام نہیں کرسکتے اس لیے عدالت سے استدعا ہے تبادلے کے احکامات پر عمل کرنے کی اجازت دی جائے۔
اس موقع پر متاثرہ خاندان کے سربراہ نیاز محمد نے سپریم کورٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہماری صلح ہوگئی ہے ، غریب آدمی ہوں،ملک کی عزت خراب نہیں کرسکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس میں ملک کی عزت کی خرابی کا کوئی معاملہ نہیں ،خاندان نے بے شک معاف کردیا ہو،یہ اسٹیٹ کے خلاف جرم ہے، معاملے کی انکوائری کروائیں گے، ایسا فعل ایک طاقتور وزیرنے کیا ہے، جرگے میں ہونے والی صلح صفائی کو نہیں مانتے ۔
انہوں نے پنجابی میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وڈا آدمی ہے ، غریباں نوں پکڑوا لیا، مار وی پوائی،جیل وی بھجوایا تے فیرآئی جی وی تبدیل کرا دیتا۔
اس موقع پر متاثرہ خاندان کے سربراہ نیاز محمد نے سپریم کورٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ہماری صلح ہوگئی ہے ، غریب آدمی ہوں،ملک کی عزت خراب نہیں کرسکتا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس میں ملک کی عزت کی خرابی کا کوئی معاملہ نہیں ،خاندان نے بے شک معاف کردیا ہو،یہ اسٹیٹ کے خلاف جرم ہے، معاملے کی انکوائری کروائیں گے، ایسا فعل ایک طاقتور وزیرنے کیا ہے، جرگے میں ہونے والی صلح صفائی کو نہیں مانتے ۔
انہوں نے پنجابی میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ وڈا آدمی ہے ، غریباں نوں پکڑوا لیا، مار وی پوائی،جیل وی بھجوایا تے فیرآئی جی وی تبدیل کرا دیتا۔
عظم سواتی صاحب کو اپنے کیے پر بہت افسوس ہے
اعظم سواتی کی طرف سے بیرسٹر علی ظفرعدالت میں پیش ہوئے ، چیف جسٹس نے بیرسٹر علی ظفر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ ہر بڑے بندے کے وکیل بن جاتےہیں ،میں آپ کا لائسنس کینسل کرتاہوں،بتائیں کتنے عرصے کے لیے لائسنس کینسل کروں؟
بیرسٹر علی ظفر نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ دو ماہ کے لیے کینسل کردیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہہر ناجائز کام کرنے والے کی طرف سے آپ پیش ہوجاتے ہیں۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ اعظم سواتی صاحب کو اپنے کیے پر بہت افسوس ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اعظم سواتی کو افسوس ہے تو عہدے کو چھوڑ دیں،عہدے کی طاقت سے اعظم سواتی نے یہ کام کیا، غریب خاندان پر ظلم کرنے کے بعد پیسے دےکر صلح کرلی، اب انہیں افسوس بھی ہے، ہم معاملے پر جے آئی ٹی بنارہےہیں۔ایف آئی اے ،نیب اور آئی بی کے افسران پر مشتمل جے آئی ٹی بنائیں گے، اٹارنی جنرل صاحب آج ہی نام دیے جائیں ہم خود افسران منتخب کرینگے۔
بیرسٹرعلی ظفر نے کہا کہ اعظم سواتی کی صلح ہوچکی ہے اوراسلامی قوانین کے مطابق ہے، اسلامی قوانین اللہ کا تحفہ ہیں، جہاں پر آپ پھنس جاتے ہیں وہاں آپ اسلامی قوانین کو لے آتے ہیں، اسلامی اصول یہ بھی ہے کہ اگر انہیں افسوس ہے تواپنے عہدے سے استعفیٰ دیں ،پارلیمنٹ کا بہت احترام ہے ، کسی وزیر کو اس طرح غریب خاندان کو کچلنے کی اجازت نہیں دینگے۔
چیف جسٹس نے اعظم سواتی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے ایک خاندان کی روزی بند کردی، یہ ہے آپ کی دیانت داری، کہتے ہیں تو ابھی 62 ون ایف لگا دیتے ہیں۔
آئی جی کے تبادلے کی معطلی کا حکم واپس لے لیاگیا
سپریم کورٹ نے آئی جی کے تبادلے کی معطلی کا حکم واپس لے لیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے متاثرہ بچے سے واقعے کی تفصیل سنی اور کہا کہ یہ مس کنڈکٹ کا کیس ہے، عدالتیں کمزور یا ماڑی نہیں ہیں، کیا یہ وزیر اس ملک کے مالک ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہر کیس میں آئی ایس آئی کو نہیں ڈالنا چاہتا، دیگر متعلقہ اداروں سے انکوائری کرائیں گے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئی جی اسلام آباد معطلی کیس میں اعظم سواتی کے مس کنڈکٹ کی تحقیقات کے لیے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بنا دی۔
چیف جسٹس نے حکم دیتے ہوئے کہا کہ آئی بی کے احمد رضوان اور ایف آئی اے کے میر واعظ نیاز اس تحقیقاتی کمیٹی (جے آئی ٹی) کا حصہ ہوں گے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جے آئی ٹی اعظم سواتی کے اثاثوں کی چھان بین بھی کرے گی، نیب کی طرف سے بھی ایک آفیسر کا نام دیا جائے گا، کمیٹی پتہ لگائے گی کہ کیا اعظم سواتی امریکا جاسکتے ہیں یا نہیں۔
چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد جان محمد کو حکم دیا کہ جھگڑے کے واقعے کی تحقیق کریں اور جو مقدمہ بنتا ہے درج کریں، مجھے یہ آج ہی چاہیے، وزیر کے ساتھ وہی سلوک کریں جو عام آدمی کے ساتھ ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ چند روز قبل وفاقی وزیر اعظم سواتی کے فام ہاؤس کے ملازمین اور ایک غریب خاندان کے افراد کے درمیان گائے کے فام ہاؤس میں گھسنے کے تنازع پر جھگڑا ہوا تھا۔
وفاقی وزیراعظم سواتی کا کہنا تھا کہ آئی جی اسلام آباد کے خلاف پہلے سے کافی شکایات تھیں، جمعرات کو قبائلی افراد کے جانور میرے فارم ہاؤس پر آئے تو ان لوگوں نے میرے ملازمین کو دھمکیاں دیں اور کلہاڑیوں سے ان پر حملہ بھی کیا۔
وفاقی وزیر اعظم سواتی نے اس معاملے کی شکایت وزیراعظم عمران خان سے کی اور پھر ان کی زبانی ہدایت پر آئی جی اسلام آباد جان محمد کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل اور چیف سیکرٹری کو طلب کیا اور آئی جی کی برطرفی کا فیصلہ معطل کر دیا تھا۔