کراچی(ٹی وی رپورٹ)مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے خواتین سے متعلق بل سنجیدگی سے نہیں لیا جو افسوسناک ہے، بل میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ مرد کو ہر صورت میں گھر سے جانا ہوگا، اعتراض کرنے والے بتائیں اس بل کی کون سی شق اسلام کے خلاف ہے۔وہ جیو نیوز کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہی تھیں۔ پروگرام میں جمعیت علمائے اسلام کے رہنما سینیٹر حافظ حمد اللہ،معروف مصنفہ عائشہ صدیقہ اور ایڈیٹر انویسٹی گیشن دی نیوز انصار عباسی بھی شریک تھے۔حافظ حمد اللہ نے کہا کہ حکومت کو خواتین کے تحفظ کا قانون بنانے کیلئے اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کرنا چاہئے تھا، تحفظ خواتین بل کے بعد ہمیں حکومت کے ساتھ نہیں رہنا چاہئے،ممتاز قادری کو پھانسی دیدی گئی لیکن ریمنڈ ڈیوس کو سزا کیوں نہیں ملی۔ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے کہا کہ عورتوں پر تشدد کیخلاف مذہبی قیادت کو حکومت کا ساتھ دینا چاہئے،قانون کے تحت عورتوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔انصار عباسی نے کہا کہ پنجاب اسمبلی کا تحفظ خواتین بل پوری فیملی کو نشانہ بنارہا ہے، یہ قانون مغرب سے متاثر ہو کر بنایا گیا ہے ، اس بل کو اسلامی ماڈل میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔عظمیٰ بخاری نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کو تحفظ خواتین بل پر اپنی رائے دینے کا حق حاصل ہے، خواتین پر تشدد کوئی عام معاملہ نہیں ہے، مولانا فضل الرحمن نے خواتین سے متعلق بل سنجیدگی سے نہیں لیا جو افسوسناک ہے، لگتا ہے مولانا فضل الرحمن نے تحفظ خواتین بل پڑھا ہی نہیں ہے، یہ قانون صرف گھریلو تشدد کیخلاف نہیں ،عورتوں پر ہر قسم کے تشدد کیخلاف ہے، اس قانون کو میاں بیوی کی جنگ نہ بنایا جائے، مولانا فضل الرحمن کو تحفظ خواتین بل پر اعتراض ہے تو قابل عمل تجاویز دیتے۔انہوں نے کہا کہ ملک میں جنگل کا قانون نہیں ہے کہ عورت مرتی جائے مگر اُف بھی نہ کرے ،پہلے عورت کو مار بھی پڑتی تھی اور اسے گھر سے بھی نکال دیا جاتا تھا، اب عورت گھر سے باہر نہیں جائے گی، بل میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ مرد کو ہر صورت میں گھر سے جانا ہوگا، پروٹیکشن کمیٹی پہلے مصالحت کروائے گی، اعتراض کرنے والے یہ بتادیں کہ اس بل کی کون سی شق اسلام کے خلاف ہے۔