• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’میرا دادا کہا کرتا تھا،خود پر رحم کھانے والا دوسروں کے لیے قابلِ رحم ہوجاتا ہے اور مجھے کبھی کبھی خود پر ترس آنے لگتا ہے۔ جہاں میرے مزاج کے لوگ ہجرتی پرندوں کے ہم سفر ہو گئے۔ جہاں بارود کی حکم رانی ہے، جہاں منصف شجرۂ نسب دیکھ کر فیصلہ کرے، جس دَور میں کوئی جینے کی رعایت دینے کو تیار ہی نہیں، مجھے اُسی زمانے میں جیون عطا کیا گیا ۔ ہم فطرتاً قافیہ پرست لوگ تھے۔ ہمیں آزاد نظم کے دَور میں جینا پڑ رہا ہے۔ ہم لوری سُن کر سونے والے لوگ تھے، ہمیں نیند کی گولیاں کھا کر سونا پڑ رہا ہے۔ میں برکت کی نوید لے کر آیا تھا، مگر بہتات کی دلدل میں دھنسے لوگوں تک میری آواز نہیں پہنچ پاتی۔ جہاں محبّت ایک اجنبی مسافر کی طرح تھی، مجھے پیار کی مٹّی سے گوندھ کر پیدا کیا گیا تھا۔ محبّت کا بھی عجیب معاملہ ہے، یہ ریشم سے زیادہ ملائم، حیا سے زیادہ شرمیلی، سمندر سے زیادہ گہری، آسمان سے زیادہ بُلند اور سمندر سے بڑا ظرف رکھتی ہے، مگر یہ اپنی تمام تر رحم دِلی، نرم مزاجی، اعلیٰ ظرفی اور ملن ساری کے باوجود بھی انا کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ اس جدید اور ترقّی یافتہ زمانے کی لغت میں محبّت کا لفظ متروک ہوچُکا ہے۔ نہ جانے مجھے یہ کیوں لگتا ہے کہ مجھے محبّت کا مفہوم تلاشنےکے لیے پیدا کیا گیا ہے۔‘‘ مَیں بچّوں سے بات کرتے کرتے مُسکرا دیا۔ بچّوں نے حیرانی سے میری طرف دیکھا۔’’بابا! آپ مُسکرائے کیوں؟‘‘ بڑے بیٹے نے سوال کیا۔ ’’اس لیے کہ ہونٹوں کے بازار میں صرف مُسکراہٹ ہی بکتی ہے، آہوں کا کوئی خریدار نہیں ہوتا۔‘‘ بڑے کی دیکھا دیکھی چھوٹے نے پوچھا۔ ’’بابا! آپ ہمیں یہ پُرانی کہانیاں جیسے الٰہ دین کا چراغ، غریب لکڑ ہارا، نیک دِل بادشاہ، فاختہ اور کوّا، اتفاق میں برکت اور سویا ہوا محل جیسی کہانیاں ہی کیوں سُناتے ہیں؟ نئی جدید کہانیاں کیوں نہیں؟اب تو سائنس کا دَور ہے۔ اب یہ پُرانی باتیں اور کہانیاں نئے دَور کے مزاج سے میل نہیں کھاتیں۔‘‘’’بیٹا! پُرانی کہانیوں میں وقت رُکا ہوتا تھا۔ اب وہ ہاتھ سے پھسل گیا ہے۔ ہر کوئی وقت تلاش کرتا پھر رہا ہے۔ پُرانی کہانیوں میں احساس ہوتا ہے، محبّت ہوتی ہے۔جب تک محبّت کی سمجھ نہیں آتی، زندگی کی سمجھ آ ہی نہیں سکتی۔ جہاں تک بات عقل و شعور کی ہے، تو مجھے ایسی دانش سے خوف آتا ہے، جو پتھر سے شروع ہو کر دیوانے کے سَر تک ٹکرا کر ختم اور قہقہوں میں تحلیل ہو جائے۔ مجھے ایسا شعور اور ایسی دانش نہیں چاہیے، جو اپنے لمحے سنوارنے کے لیے دوسروں کی صدیاں اُجاڑ دے، جو بوڑھے والدین کو اولڈ ہومز میں بھجوا دے۔‘‘’’بابا! آپ ہمیں کہانیاں کیوں سُناتے ہیں؟ میرے دوستوں کے ماما بابا تو انھیں کہانی نہیں سُناتے۔ سب مل کر ٹی وی پر ڈرامے دیکھتے ہیں۔‘‘ منجھلے بیٹے نے سوال کیا۔ مَیں نے بیٹے کا ماتھا چوما، اپنی چادر بھی اُس کے لحاف پر ڈال دی۔ رات کے جگنو نے اپنا آدھے سے زیادہ سفر مکمل کر لیا تھا۔ باہر پہاڑوں پر برف باری شروع ہو چُکی تھی۔ مجھے جھرنوں کا شور اور پہاڑوں کی خاموشی بہت بھلی لگتی ہے۔’’میرے بچّو! مجھے لگتا ہے، میرے اندر کے الائو کو کسی داستان گو کی تلاش ہے، لیکن کبھی کبھی لگتا ہے، شہرِ سخن میں سوگ کا موسم ہے۔شاید زمانہ نزاع کے گرداب میں پھنس چُکا ہے۔ اس دَور کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کے پاس سُننے کا بھی ہنر نہیں رہا۔ مجھے داستانیں اچھی لگتی ہیں۔ داستان گو بھی بادشاہ ہوتا ہے، جب کہانی میں کسی کو مارنا ہو، تو طبیب کو گورکن بنا دیتا ہے۔ جب اُس نے کسی کو بچانا ہو، تو جلّاد کو بھی مسیحا بنا دیتا ہے۔ جب وہ وقت کو بوڑھا دیکھنا چاہتا ہے، تو اُسے آخری نمبر والا چشمہ لگا دیتا ہے اور وہ کھانسنے لگتا ہے۔ کہانی کہتے ہوئے، وہ پَل پَل جیتا اور مَرتا ہے۔ اُس کی سوچوں کا قلندر ہر دَم رقص میں رہتا ہے۔ وہ خوابوں کے اُڑن کھٹولے پر بیٹھا، بادلوں سے کھیلتا رہتا ہے۔ وہ دھنک سے رنگ چُرا لاتا ہے اور مفلس اور کم زور لوگوں کے خوابوں میں بَھر دیتا ہے۔‘‘ ’’بابا! میری ٹیچر کہتی ہیں، آپ کے بابا بہت اچھا لکھتے ہیں۔ ‘‘ بڑا بیٹا بولا۔ ’’ہاں بیٹا! یہ دَور بھی تو ایسا ہے۔ لگتا ہے وقت کے ٹکسال نے سب کو دُکھوں کے سکوں میں ڈھال دیا ہے۔ لوگ درد کا پہاڑ بنے اپنے اپنے جسموں کے غاروں میں سوئے ہوئے ہیں۔ کوئی کسی کے غم پر نہیں روتا، ہر آنکھ دوسروں کا نام لے کر اپنے ہی غم پہ روتی ہے۔ دوسروں کے غموں پر رونے والی آنکھیں صرف اہلِ دل اور مقرّبین ہی کو عطا ہوتی ہیں۔‘‘

باہر طوفانی بارش شروع ہوئی،تو بجلی بھی چلی گئی۔ مَیں نے اُٹھ کر دیا جلا دیا۔ دیے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ آپ بیک وقت روشنی کو بھی دیکھ سکتے ہیں اور تاریکی کو بھی۔ برقی قمقموں میں آپ رات اور اندھیرے کو دیکھ ہی نہیں پاتے۔ ’’بچّو! آپ کو یاد ہوگا، مَیں نے ایک کہانی سُنائی تھی، جس کا عنوان تھا، سویا ہوا محل۔‘‘ ’’جی بابا! مجھے یاد ہے۔ وہ کہانی تو میری پسندیدہ ہے۔‘‘ چھوٹے بیٹے نے فوراً پُرجوش انداز میں کہا اور کہانی سُنانے لگا۔ مَیں نے اُسے نہیں ٹوکا اور اُسے کہانی سُنانے دی، کیوں کہ مَیں جانتا تھا، جس کہانی کو کوئی سُننے والا نہ ملے، وہ ناسور بن جایا کرتی ہے۔یہ بات مجھے کینسر وارڈ میں داخل ایک بوڑھے نے بتائی تھی، جسے کئی ہفتوں سے کوئی ملنے نہیں آیا تھا۔’’بابا کہانی کیسے بناتے ہیں؟‘‘ چھوٹے بیٹے نے معصومانہ سوال کیا۔ مَیں مُسکرایا، ’’بیٹا! تخلیق کار بننا چکّی کے دو پاٹوں میں پِسنے جیسا مشکل کام ہے۔ تخلیق کے لیے سب سے بڑے تخلیق کار، ’’خالقِ کائنات‘‘ کی صنّاعی پر غور و فکر کرنا پڑتا ہے۔مامتا کی آگ میں صدیوں جلنا پڑتا ہے، تب کہیں جا کر خود پر کہانی اُترتی ہے۔ تخلیق کار بڑا دُکھی شخص ہوتا ہے۔ وہ وقت کے کوفے میں وفا تلاش کرتا رہتا ہے۔ اُس کا دِل ہر لمحہ رزم گاہ بنا رہتا ہے۔ جب اس پر تخلیق اُترتی ہے، تو وہ زمان و مکاں سے ماورا ہو جاتا ہے۔ وہ خود خانہ بدوش ہوتا ہے، مگر ہر شخص کے لیے آشیانہ اُٹھائے پھرتا ہے۔ عُمر بَھر اُن کے لیے روتا رہتا ہے، جو اپنے کاغذی گھروں میں چراغاں کر بیٹھے تھے۔وہ اُس پُر شکوہ تاریخی عمارت کے کھنڈر کی طرح ہوتا ہے، جس کی تعمیرِ نو نہیں ہو سکتی، کیوں کہ اس کا نقشہ حوادثِ زمانہ کی نذر ہو چُکا ہوتا ہے۔ اُس کے لفظ دھڑکن کی طرح دھڑکتے رہتے ہیں۔ تخلیق کار وقت کے صحرا میں خانہ بدوش ٹیلے کی طرح ہوتے ہیں، جو احساس اور حساسیّت کی تیز ہوا کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔‘‘ ’’بابا! محبّت کیا ہوتی ہے؟‘‘مَیں نے چونک کر بڑے بیٹے کی طرف دیکھا، جس نے زندگی کے کیلنڈر میں ابھی صرف گیارہ دفعہ ہی موسموں کو بدلتے دیکھا تھا۔’’بیٹا! محبّت کی وضاحت نہیں کی جاسکتی۔ اگرچہ محبّت خود ہر شے کی وضاحت کرتی ہے،حتیٰ کہ زندگی کی بھی ۔کیسی عجیب بات ہے کہ محبّت سفر بھی ہے،منزل بھی اور محبّت کا سبب بھی خود محبّت ہی ہوتی ہے۔ جب اس پر بہار آتی ہے، تو یہ عشق کا روپ دھار لیتی ہے، اس نگر میں پہنچ کر الفاظ کی ضروت نہیں رہتی۔ اس کو اگر جنون کی ہوا لگ جائے، تو اسے فنا کا منصب دے دیا جاتا ہے۔ محبّت پہچان بھی لے، تو اظہار نہیں کرتی۔ البتہ کبھی کبھی آنسو اس کا اظہار کر دیا کرتے ہیں۔‘‘’’بابا! آپ کو یاد ہوگا، آپ نے ایک بار کہا تھا،محبّت کرنا کوئی درختوں سے سیکھے کہ جب پگڈنڈیوں ،راستوں اور سڑکوں کے کناروں پر درخت لگائے جاتے ہیں،تو ان کی شاخیں خود بخودنیچے کی طرف جُھک جاتی ہیں، تاکہ وہ مسافروں کو سایا دے سکیں۔‘‘’’ہاں، اچھی طرح یاد ہے۔بچّو! کبھی کبھی مجھے لگتا ہے، مَیں رات سے بچھڑا اِک جگنو ہوں۔ مَیں سارا دِن ،رات تلاش کرتا رہتا ہوں۔ مَیں گنبد میں رہ کر بھی دَر ڈھونڈتا رہتا ہوں۔ میری زندگی میں کبھی ٹھہرائو نہیں آیا۔ پُرانے لوگوں میں بڑی طاقت ہوا کرتی تھی، وہ وقت کو آہستہ چلنے پر مجبور کر دیتے تھے۔ محبّت وہ زنجیر ہے، جو وقت کو تیز چلنے نہیں دیتی۔ مجھے تمھاری دادی یاد آ گئی۔ مجھے اب بھی یاد ہے، ہم گرمیوں کی چُھٹیوں میں اپنے نانا ابّو کے گھر جایا کرتے تھے۔ اُس گائوں میں ایک چھپّر بھی تھا۔‘‘ ’’بابا! چھپّر کیا ہوتا ہے؟‘‘ منجھلے بیٹے نے پوچھا۔ ’’بیٹا! ہر گائوں کے ساتھ ایک جوہڑ ہوتا ہے، جس میں بارشوں کا پانی جمع ہوجاتا ہے اور اس میں گائوں والے اپنے مویشی نہلاتے ہیں۔ایک مرتبہ جب مَیں پانچویں کلاس میں تھا، تو ماں سے چُھپ کر چھپّر میں نہانے چلا گیا۔ماں کو پتا چلا، تو اُس نے مجھے سمجھانے اور گھر واپس بلانے کے لیے باری باری دس لوگوں کو بھیجا۔دسویں شخص کے سمجھانے پر جب مَیں گھر واپس پہنچا، تو ماں نےمجھے انھی گندے کپڑوں کے ساتھ اپنی بانہوں میں لے لیا، خُوب پیار کیا اور سمجھایا، ’’بیٹا! چھپّر کا پانی گندا ہوتا ہے۔ اس سے جسم میں خارش شروع ہو جاتی ہے، پھوڑے پھنسیاں بھی نکل سکتے ہیں اور سانپ اور بچّھو بھی کاٹ سکتے ہیں۔ دیکھو، تمھارے جسم سے کتنی گندی بُو آ رہی ہے۔‘‘ پھر مجھے صاف پانی سے نہلا دُھلا کر نیا سوٹ پہنایا، پائوڈر، خوشبو بھی لگائی اورسُلا دیا۔ جب میں سو کر اُٹھا، تو مجھے گندے چھپّر میں نہانے کا سوچ کر بڑی شرم آئی۔ مَیں نے سوچا، ’’ماں کتنی اچھی ہے، کتنے ظرف، صبر والی ہے۔ مجھے بیمار ہونے اور گندگی سے بچانے کے لیے دس لوگوں کو بھیجا، مَیں پھر بھی نہاتا رہا اور جب مَیں گندگی سے لتھڑا، گھر لوٹا تو سزا دینے کی بجائے پیار کیا اور پیار ہی سے سمجھایا۔‘‘مَیں ماں کے پاس چلا گیا۔ اُس کے گلے میں اپنے بازو ڈال کے جو سوچا تھا، سب بول دیا۔میری بات سُن کرماں رونے لگی اور بولی، ’’بیٹا! تُو تو بہت اچھا ہے۔لوگوں کو بھیجنے پر پلٹ آیا اور اپنی غلطی بھی مان رہا ہے۔ہم جیسے خطا کاروں کے لیے میرے رب نے ایک لاکھ چوبیس ہزار نُور سے دُھلے، سچّے، پاک باز پیغمبر بھیجے، مگر ہم ہیں کہ گناہوں اور نافرمانیوں کے چھپّر میں نہانے سے باز نہیں آتے۔ ہم قبروں میں پلنے والے سانپوں، بچّھوئوں سے نہیں ڈرتے۔ ہمارے مَن کے اندر غلاظت ہے اور روح بھی بدبودار ہو چُکی ہے۔‘‘ اور پھر وہ اتنا روئی کہ اُس کا سارا آنچل آنسوئوں سے بھیگ گیا۔‘‘

مَیں نے دیکھا، میرے چھوٹے بیٹے کے چہرے پر ایک شوخ سی مُسکراہٹ تھی۔ اُس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی کہانی تھی۔ اُس نے شرماتے ہوئے کہا، ’’بابا! مَیں آپ کو ایک عجیب بات بتائوں۔ مجھے آپ کی باتوں کی کچھ سمجھ نہیں آئی، مگر مجھے یہ بھی لگتا ہے، جیسے مجھے سب کچھ سمجھ آگیا ہے۔‘‘مَیں نے اُسے اپنے ساتھ لپٹا کر خُوب پیار کیا اور کہا،’’بیٹا! آج تجھے محبّت کا مفہوم سمجھ آ گیا۔بس یہی محبّت ہے۔ عشق کی نگری میں پہنچ کر الفاظ کی ضرورت نہیں رہتی۔ جب کچھ سمجھ نہ آنے کے باوجود، سب سمجھ آجائے، تو اسے ہی’’محبّت‘‘کہتے ہیں۔ اور ایسی ہی محبّت ہم’’وحدہ لاشریک‘‘سے کرتے ہیں۔مجھے چھوٹے بیٹے کو پیار کرتے دیکھ کر دونوں بڑوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے،تو مَیں نے اُن دونوں کو بھی اپنے ساتھ لپٹا کر خُوب پیار کیا۔ وہ خوشی سے کھل اُٹھے۔ مَیں آنسوئوں اور محبّت کا فلسفہ جانتا تھا، جو شکوہ الفاظ کا روپ نہ دھار سکے، آنکھوں سے بہنے لگے، اُسے آنسوکہتے ہیں۔ اور محبّت کی کوئی بھی داستان آنسوئوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔

تازہ ترین