توصیف احمد، ملتان
ریاست بہاول پور کی بنیاد 1727ء میں نواب صادق محمد خان عباسی اوّل نے رکھی اور تحصیل لیاقت پور کا قصبہ، اللہ آباد اس کا پہلا دارالحکومت قرار پایا۔ قبلِ ازیں1258ء میں مشہور تاتاری فاتح، چنگیز خان کے بیٹے ہلاکو خان کے ہاتھوں بغداد کی تباہی کے بعد عباسی شہزادوں نے سندھ کا رُخ کیاتھا۔ امیر چنی خان عباسی کو اکبراعظم کے بیٹے سے پنج ہزاری کا منصب ملا تو اُسے اوباڑو سے لاہوری بندر تک کا خطّہ اجارے پر دے دیا گیا۔ بعدازاں، امیرچنی خان کی اولاد میں مہدی خان اور دائود خان کے خاندانوں میں جھگڑا اُٹھ کھڑا ہوا، تومقامی قبائل نے مہدی خان کی نسل کا، جو کلہوڑے کہلاتے تھے اور صدیوں سندھ پر حکمرانی کی، بھرپور ساتھ دیا، جب کہ عرب قبائل نے دائود خان کا ساتھ دیا، جو ’’دائود پوتا عباسی‘‘ کہلاتے تھے۔ واضح رہے کہ ریاست بہاول پور کے بانی، نواب صادق محمد خان عباسی اوّل، امیر دائود خان کی تیرہویں پشت سے تھے۔ عباسی دائود پوتوں نے صادق آباد، خان پور، منچن آباد، شہر فرید، اوچ سمیت ریاست جیسلمیر اور بیکانیر، کلہوڑوں سے چھین کر فتح حاصل کی اور موجودہ ریاست بہاول پور کی بنیاد رکھی۔ نواب صادق محمد خان عباسی اوّل نے 1739ء میں نادر شاہ درّانی سے نواب کا خطاب حاصل کیا۔ اس طرح اس کی حکمرانی موجودہ ریاست بہاول پور کے علاوہ شکارپور، لاڑکانہ، سیوستان، چھتار وغیرہ کے علاقوں تک قائم ہوگئی۔ نواب صادق محمدخان عباسی کے صاحب زادے، نواب بہاول خان عباسی اوّل نے 1774ء میں دریائے ستلج کے جنوب میں ایک نئے شہر ،بہاول پور کی بنیاد رکھی۔
نواب سر صادق محمد خان خامس عباسی30 ستمبر 1904ء کو پیدا ہوئے، وہ نواب حاجی محمد بہاول خان خامس عباسی کے اکلوتے فرزند تھے۔ جب وہ دو برس کے تھے، تو والد کے ساتھ سفرِ حج پر گئے، لیکن واپسی پر دورانِ سفر ان کے والد نواب بہاول خان کا انتقال ہوگیا، جس کے بعد 15مئی1907ء کو سر صادق کو ریاست کا حکمران مقرر کرنے کا اعلان کردیا گیا، مگر چوں کہ نواب صادق محمد خان بہت کم سِن تھے، لہٰذا ان کی تعلیم و تربیت اور ریاست کے انتظام و انصرام کے لیے حکومتِ برطانیہ نے آئی سی ایس آفیسر، سر رحیم بخش کی سربراہی میں کائونسل آف ریجینسی قائم کردی۔ نواب صاحب نے ابتدائی تعلیم اُس وقت کی نام وَر علمی شخصیت، علاّمہ مولوی غلام حسین قریشی سے حاصل کی۔ 3 برس کی عمر میں تخت نشین ہونے والے شہزادے کی شخصیت کے نکھار کے لیے، انہیں دنیاوی تعلیم کے ساتھ مذہبی اور اعلیٰ انتظامی و عسکری تربیت بھی دی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ 1911ء میں وہ صرف سات برس کی عمر میں فوج کی کمان کرتے ہوئے شہنشاہِ برطانیہ، جارج پنجم کے سامنے پیش ہوئے۔
ریاست بہاول پور میں صادق گڑھ پیلس اور صادق ایجرٹن کالج (ایس ای کالج) کی لائبریریز نادر و نایاب کتب کے حوالے سے مشہور ہیں۔ سرصادق دنیا بھر سے اہم کتاب کے تین نسخے منگواتے، اور ایک نسخہ صادق ریڈنگ لائبریری (سینٹرل لائبریری)، دوسرا صادق گڑھ پیلس اور تیسرا صادق ایجرٹن کالج کی لائبریری میں رکھاجاتا۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریاست بہاول پور میں علم وادب کی کس قدر سرپرستی کی جاتی تھی۔ نواب صاحب مرحوم اور ان کے پیش روئوں نے ہمیشہ تعلیم کی ترویج کے لیے اقدامات کیے۔نواب سر صادق نے1925ء میں جدید تقاضوں سے ہم آہنگ دینی مدرسے، صدر دینیات کو ترقی دے کر جامعۃ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ قائم کیا۔ یہ پورے برصغیر میں اپنی نوعیت کا واحد ادارہ تھا، جہاں طلبہ، مختلف مکاتبِ فکر کے علماء و اساتذہ سے اکتسابِ فیض کرتے۔ جامعہ عباسیہ میں دینی و مشرقی علوم کے ساتھ ساتھ ریاضی، انگریزی اور سائنس کی بھی تعلیم دی جاتی۔ اس کے علاوہ طبِ یونانی کی تعلیم کے لیے 1926ء میں جامعہ عباسیہ کا ذیلی ادارہ، ’’طبیّہ کالج‘‘ قائم کیا گیا، جو آج بھی پنجاب کا واحد سرکاری طبیّہ کالج ہے۔
نواب سر صادق مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ، ایچی سن کالج کی طرز پر1954ء میں صادق پبلک اسکول جیسے اعلیٰ معیاری ادارے کا قیام ہے۔ مذکورہ ادارے کے لیے نواب صاحب نے اپنی 450ایکڑ ذاتی زمین دینے کے علاوہ، تعمیرکی مَد میں مطلوبہ فنڈزبھی فراہم کیے۔ قبلِ ازیں، قیام پاکستان سے پہلے 1928ء میں ستلج ویلی پراجیکٹ کا بھی افتتاح کیا، جس کے تحت دریائے ستلج پر تین ہیڈ ورکس سلیمان کی، ہیڈاسلام اور ہیڈپنجند تعمیر کرکے پوری ریاست میں نہروں کا جال بچھاکر غیر آباد زمینوں کی آبادکاری کے لیے مختلف علاقوں سے آبادکاروں کو ریاست میں آباد ہونے کی ترغیب دی گئی۔ نئی منڈیاں قائم کرکے ہارون آباد، فورٹ عباس، حاصل پور، چشتیاں، یزمان، لیاقت پور اور صادق آباد جیسے شہر بسائے گئے۔ یہیں سے نواب سر صادق اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے درمیان لازوال دوستی کا رشتہ بھی قائم ہوا۔ ریاست کے اس وقت کے وزیراعظم سر سکندر حیات نے (یونینسٹ رہنما) جب ریاست کے خلاف درپردہ سازش کا آغاز کیا، تو ریاست کے اُس وقت کے وزیر داخلہ اور نواب مرحوم کے اتالیق، مولوی غلام حسین قریشی مرحوم نے اس سازش کو بے نقاب کیا اور نواب مرحوم کو اپنے قانونی مشیر سے مشورہ لینے کو کہا۔اس مقدمے کی پیروی اُس وقت کے ریاست کے قانونی مشیر، قائدِ اعظم محمد علی جناح نے کی اور مقدمے کا فیصلہ بہاول پور کے حق میں ہوا۔ 1930ء میں سر صادق نے ریاست کپور تھلہ میں جامع مسجد تعمیر کروائی اور مہاراجہ کپور تھلہ کی فرمایش پر خود اس کا افتتاح کیا۔ 3 دسمبر 1930ء کو سر راس مسعود (وائس چانسلر) کی دعوت پر مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے سالانہ کانووکیشن کی صدارت کی اور ایک لاکھ روپے کی خطیر رقم بہ طور عطیہ دی۔1908ء میں ندوۃالعلماء، لکھنو ٔکے لیے نواب صاحب کی والدہ محترمہ کی طرف سے دی جانے والی پچاس ہزار روپے کی مالی امداد کے جواب میں علامہ شبلی نعمانی نے شکریے کا خط تحریر کیا، جو محافظ خانہ (محکمہ دستاویزات) بہاو ل پور میں محفوظ ہے۔ پنجاب یونی ورسٹی اولڈ کیمپس کا سینیٹ ہال (جہاں اِس وقت یونی ورسٹی کالج آف انفارمیشن ٹیکنالوجی قائم ہے) سرصادق ہی نے تعمیر کروایا۔ عمارت کی پیشانی پر نواب صاحب کے نام کی تختی آج بھی موجود ہے۔ اسی طرح کنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج کابہاول پور بلاک اور ایچی سن کالج کا بورڈنگ ہائوس نواب سر صادق ہی کی یادگاریں ہیں۔
27 فروری 1934ء کو نواب صاحب کی تعلیمی خدمات کے اعتراف میں رجسٹرار، پنجاب یونی ورسٹی، ڈاکٹر وُلز نے بہ طورِ خاص بہاول پور آکر صادق گڑھ پیلس میں منعقدہ تقریب میں انہیں ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری تفویض کی۔ 1935ء میں زلزلہ زدگان کے لیے ایک امدادی ٹرین کوئٹہ روانہ کی اور اسی سال فریضہ ٔ حج کی ادائیگی کے لیے تقریباً ایک سو افراد کو اپنے ساتھ لے کرگئے۔ سامان کے لیے جو فوجی گاڑیاں اور موٹرکاریں بحری جہاز پر ساتھ لے گئے، سب سعودی حکومت کو بہ طور تحفہ دے دیں۔ مسجدِ نبویؐ میں قیمتی فانوس لگوائے اور اسی سال جولائی میں جامع مسجد دہلی کی طرز پر ’’جامع مسجد الصادق‘‘ کی ازسرِ نو تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھا، جس کا شمار اس وقت پاکستان کی چوتھی بڑی مسجد میں ہوتا ہے۔
ریاست میں ماہرینِ علم وفن، ادبا، شعراء اور علماء کی قدردانی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ سرشیخ عبدالقادر (مدیرِ مخزن) 1942ء سے 1946ء تک بغداد، الجدید ہائی کورٹ، بہاول پورکے چیف جسٹس رہے۔ ابوالاثر حفیظؔ جالندھری بہ طور درباری شاعر، بہاول پور میں طویل عرصے ملازم رہے۔1943ء میں نواب سر صادق کی سرپرستی اور سر عبدالقادر کی صدارت میں صادق ایجرٹن کالج (ایس ای کالج) میں آل انڈیا مشاعرے کا اہتمام کیا گیا، جس کی تین نشستیں منعقد ہوئیں، جن میں برصغیر کے طول و عرض سے نام وَر شعرائے کرام نے شرکت کی۔ نواب سر صادق کے مطابق، دبیر الملک الحاج عزیز الرحمٰن عزیزؔ نے پہلی بار سرائیکی کے قادر الکلام صوفی شاعر، حضرت خواجہ غلام فریدؒ کا کلام ’’دیوانِ فرید‘‘ ترجمے اور تشریح کے ساتھ 1942ء میں شایع کیا۔ ریاست کے طول و عرض میں موجود بزرگانِ دین اور اولیائے کرام کے مزارات کی تعمیر اور مرمّت کی گئی۔ 1950ء میں صادق ایجرٹن کالج میں عالمی سائنس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں دنیا بھر سے سائنس دانوں نے شرکت کی۔ اس موقعے پر ایک سائنسی نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا۔1952ء میں پیرا میڈیکل اسکول، نرسنگ اسکول اور ایل ایس ایم ایف کلاسز کا اجراء کیا گیا۔ اسی سال علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ کی سربراہی میں ریاست میں تعلیمی اصلاحات اور نصاب کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کمیشن قائم کیا گیا۔ بہاول پورمیں ترویجِ اسلام کا خصوصی خیال رکھا جاتا تھا، اس حوالے سے اُس وقت کے حکمراں، اسلامی اصول و ضوابط پر سختی سے کاربند تھے،بلکہ شہریوں کو بھی خصوصی مراعات دیتے تھے۔ حج کے موقعے پر حاجیوں کوتین ماہ کی چھٹی مع ایڈوانس تن خواہ دی جاتی۔ بہاول پور حکومت کی طرف سے مکّے اور مدینے میں سرائے موجود تھیں، جہاں بہاول پور کے حجاج کے لیے مفت رہائش اور خوراک کا انتظام ہوتا۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تمام مساجد میں حکومت کی طرف سے مرمّت اور سفیدی کروائی جاتی۔ اسی طرح ہندوئوں اور سکھوں کو بھی اپنے مذہبی تہواروں پر مسلمانوں کی طرح مساوی حقوق حاصل تھے۔ دورانِ تعلیم وفات پاجانے والے ملازمین کی بیواؤں اورنابالغ بچّوں کی کفالت کے لیے پینشن مقرر کی جاتی ۔ بہاول پور اور ڈیرہ نواب صاحب میں قائم یتیم خانے میں مفت رہائش اور خوراک کے علاوہ ذہین طلبہ کو وظائف بھی دیئے جاتے۔ واضح رہے کہ اردو اور سرائیکی کے معروف شاعر اور ادیب، پروفیسر عطا محمد دلشاد کلانچوی، ٹیکنیکل ہائی اسکول کے سابق پرنسپل، عبدالقادر جوہرؔ اور متعدد مشاہیر نے اسی یتیم خانے میں پرورش پائی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہندوستان سے پاکستان ہجرت کرنے والے مہاجرین کی آبادکاری کے لیے خصوصی وزارت قائم کرکے مہاجرین کو ریاست بہاول پور میں باعزت طریقے سے آباد کیا گیا۔الغرض، ریاست بہاول پور صحیح معنوں میں ’’دارالسرور‘‘ تھی۔1867ء میں محکمۂ صحت کی بنیاد رکھی گئی اوربرطانوی ڈاکٹر Mr.Deane کو انچارج مقرر کیا گیا۔ جس کی نگرانی میں پوری ریاست میں ڈیسپنسریز قائم کی گئیں۔ نواب صادق محمد خان چہارم کے عہد تک چوک بازار میں ایک مرکزی اقامتی اسپتال کے علاوہ 1906ء میں بہاول وکٹوریہ اسپتال قائم کیا گیا، جس کے لیے برطانوی حکومت نے خصوصی مالی امداد فراہم کی۔ ملکہ وکٹوریہ کے دورِ اقتدار کی گولڈن جوبلی کی یادگار کے طور پر 1892ء میں اندرونِ شہر مفت ’’جوبلی زنانہ اسپتال‘‘ قائم کیا گیا، جو آج بھی موجود ہے۔ علاوہ ازیں، بہاول نگر اور احمدپور شرقیہ میں بھی خواتین کے علاج معالجے کے لیے اسپتال قائم کیے گئے۔ یعنی پوری ریاست میں اسپتالوں اور ڈیسپنسریز کا ایسا جال بچھا دیا گیا،جہاں نہ صرف مفت علاج کی سہولتیں فراہم کی جاتیں بلکہ مریضوں کو خوراک بھی مہیا کی جاتی تھی۔ پھر یہاں تعینات ڈاکٹرز، نرسز، ڈیسپنسرز اور حکماء کو ملک کے دوسرے علاقوں کی نسبت بہتر معاوضہ اور مراعات دی جاتیں۔ طبِ یونانی کی ترویج کے لیے ریاست کے شہروں میں متعدد شفاخانے بھی قائم کیے گئے۔ مشہور ناول نگار، بشریٰ رحمٰن کے والد، حکیم عبدالرشید کو اس منصوبے کا پرنسپل مقرر کیا گیا۔ سر صادق کے دور میں شہر کے تمام تعلیمی اداروں میں طلبہ کا مفت معائنہ کیا جاتا۔ اسلامی روایات کی علَم بردار، ریاست بہاول پور میں ننگے سر پھرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ ترکی ٹوپی درباری لباس (یونی فارم) کا اہم حصّہ تھی اور سرخ یا کلیجی رنگ کی ترکی ٹوپی پہننے کا رواج عام تھا۔ فوجی وردی کے ساتھ خاکی رنگ کی ترکی ٹوپی استعمال کی جاتی، جس پر ریاست کا پیلیکن والا سرکاری مونو گرام ہوتا تھا۔ روایات کی پابندی کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ وزیراعظم، کرافٹن اور کرنل ڈرنگ بھی جب نواب صاحب کے سامنے پیش ہوتے، تو ترکی ٹوپی ضرور پہنتے تھے۔ کرافٹن کی کار میں ترکی ٹوپی کا ڈبّا ہر وقت موجود رہتا، وہ جیسے ہی صادق گڑھ پیلس میں داخل ہوتے، فلیٹ ہیٹ اتار کر ترکی ٹوپی پہن لیتے۔
تقسیمِ برصغیر کے وقت انڈین نیشنل کانگریس اور جواہر لعل نہرو کی طرف سے نواب سرصادق کو خصوصی آفر کی گئی کہ وہ اپنی ریاست کا الحاق ہندوستان سے کردیں، تو نواب صاحب نے اس موقعے پر یہ تاریخی جملہ کہا کہ’’میرا سامنے کا دروازہ پاکستان اور پچھلا ہندوستان میں کھلتا ہے اور ہر شریف آدمی اپنے سامنے کے دروازے سے آمدروفت پسند کرتا ہے۔‘‘جب کہ اگست 1947ء میں (قیامِ پاکستان کے وقت) نواب سر صادق نے سب سے پہلے ریاست بہاول پور کے پاکستان سے الحاق کا اعلان کیا۔ ریاست کے وزیر اعظم، نواب مشتاق احمد گورمانی نے پاکستان کے قیام کے صرف تین روز بعد عیدالفطر کے موقعے پر عیدگاہ میدان میں اس الحاق کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔ اس موقعے پر سر صادق نے اپنی فوج پاکستان آرمی میں ضم کردی۔ قائداعظم محمد علی جناح بہ طور گورنرجنرل حلف اٹھانے کے لیے نواب صاحب کی ذاتی رولز رائس کار میں تقریب میں پہنچے۔ قیامِ پاکستان کے وقت ملک کا خزانہ خالی تھا، تو اس مشکل گھڑی میں نواب سر صادق محمد خان عباسی نے ابتدائی طور پر سرکاری ملازمین کی تن خواہوں کے لیے7 کروڑ اور دیگر اخراجات کے لیے 2 کروڑ روپے کے ساتھ22 ہزار ٹن گندم اور مہاجرین کے لیےخصوصی طور پر 5 لاکھ کی خطیر رقم فراہم کی۔5 اکتوبر 1947ء کو قائد اعظم نے ریاست بہاول پور کےپاکستان سے الحاق کے معاہدے کے دستاویز پر 5 اکتوبر 1947ء کو دستخط ثبت کیے۔ اس طرح بہاول پور کو پاکستان میں شامل ہونے والی سب سے پہلی ریاست کا اعزاز حاصل ہوا۔
1727ء میں قائم ہونے والی ریاست بہاول پور، ہر دَور اور ہر اعتبار سے اسلامی تہذیب وتمدّن کا نمونہ تھی۔ ریاست کے باشندوں کے درمیان بِلا تخصیصِ رنگ ونسل اور مذہب، رواداری کا رشتہ قائم تھا۔ نیز، دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی اسلام کے اصولوں کے عین مطابق پوری مذہبی آزادی حاصل تھی۔ گویا بھائی چارہ، مذہبی رواداری اور امن وامان اس اسلامی ریاست کا خاصّہ تھے۔اسی مذہبی رواداری کے پیشِ نظر مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم خاندان بھی ریاست میں آکر نہ صرف آباد ہوئے بلکہ آسودہ حال زندگیاں گزارتے رہے۔ مذہبی تقریبات اور تہواروں میں ایک دوسرے کے احترام کوملحوظِ خاطر رکھا جاتا۔ جس طرح مسلمان ملازمین کو حج کے موقعے پر چھٹی اور پیشگی تن خواہ دی جاتی، اسی طرح ہندوئوں اور سکھوں کو بھی ان کے تہواروں کے موقعے پرباقاعدہ چھٹی اور پیشگی تن خواہ دی جاتی تھی۔ نواب سر صادق کے عہد میں مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے درمیان کبھی کوئی تنازع دیکھنے میں نہیں آیا۔ الغرض، نواب سر صادق کا بہاول پور ایک ایسا خطہ ٔ اُلفت تھا، جہاں ہرسُو امن کا دَور دورہ تھا، باشندگانِ ریاست ایک دوسرے کا احترام کرتے۔ اس خطّے میں ایک ایسی مکمل اسلامی ریاست موجود تھی، جو دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی اسلام کے اصولوں کے عین مطابق پوری مذہبی آزادی عطا کرتی تھی۔ نواب سر صادق کا انتقال 24 مئی 1966ء کو لندن، سِرے کاونٹی میں ہوا، جب ان کا جسدِ خاکی پاکستان لایا گیا،تو ہر آنکھ اشک بار تھی۔ ڈیرہ نواب صاحب کی عیدگاہ میں خطیبِ ریاست، حضرت قاضی عظیم الدین علویؒ نے نماز جنازہ پڑھائی اور میّت کو21 توپوں کی سلامی کے بعد پورے فوجی اور سرکاری اعزاز کے ساتھ قلعہ ڈیراورمیں شاہی قبرستان کے اندر مقبرہ نوابین میں سپردِ خاک کیا گیا۔