• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تفہیم المسائل

ٹوکن والے مال کی خریدوفروخت

سوال:۔ میری پینٹ (کلر) کی دکان ہے اور میں حلال روزی کمانا چاہتا ہوں،لیکن مجھے اس میں شبہ ہے۔کلر یا پینٹ بنانے والی اکثر کمپنیاں پینٹ کے ڈبوں میں مختلف مالیت کے ٹوکن ڈال دیتی ہیں اور ڈبوں پر ٹوکن کی کم مالیت لکھ دیتی ہیں اور اصل قیمت چھپا دیتی ہیں ۔ یہ اس لیے کرتی ہیں کہ گاہک ؍خریدار کو پتا نہ چلے اور پیسے کاریگر کو مل جائیں، دکان والے اکثرایسا ہی کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اگر کاریگرخوش ہوگا تو مزید بزنس یا گا ہک لے آئےگا اور کاریگر بھی صاف دکان والے کو کہتا ہے کہ اگرآپ نے ٹوکن کی صحیح قیمت گاہک کو بتائی تو ہم آپ کا کلر؍پینٹ نہیں اٹھائیں گے اور پھر ایسا ہی ہوتا ہے کہ وہ گاہک بھی اس کاریگر کی بات مانتا ہے اور دکان والے کو نقصان ہی ہوتا ہے۔ پھر اکثر کاریگر ٹوکن مالک کو بغیر بتائے دکان والے کو دے کر اس کے پیسے لے لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے ہیں اور یہی مارکیٹ میں اکثر ہو رہا ہے،اس ضمن میں سوال یہ ہے کہ۔1۔کیا ٹوکن کے پیسے پینٹر؍کاریگر کو لیناجائز ہے ؟2۔کیا دکان والا ہر گاہک کو ٹوکن کی اصل مالیت بتانے کا پابند ہے یا نہیں، کیونکہ ایک تو ڈبوں پر مالیت لکھی ہوتی ہے، دوسرا یہ کہ کمپنی جان بوجھ کر اصل قیمت چھپاتی ہے۔3۔کچھ کمپنیاں ایسی ہیں جو ٹوکن تو نہیں ڈالتیں اور گاہک اس لیے لیتے ہیں کہ چیز اچھی ہوگی، لیکن پھر وہی کاریگر کا مسئلہ بیچ آ جاتا ہے، اس لیے دکان دار اس ڈبے کو گاہک کو مہنگا بیچ کر وہی ٹوکن کی قیمت کاریگر کو دے دیتا ہے،اب ان حالات میں کیا کیا جائے؟رہنمائی فرمائیں۔ (شمس عمرانی،کراچی)

جواب:۔ آپ نے سوال میں جو تفصیل بیان کی ہے ، اس سے معلوم ہوتاہے کہ بعض سیل پیک مصنوعات کے ڈبوں میں ٹوکن رکھے جاتے ہیں،یہ لوگوں کی بشری کمزوریوں سے فائدہ اٹھا نے کا حربہ ہے۔ تاہم اگر مال کی مقدار اورمعیار درست ہے ،اسے پیکٹ یا ڈبے پر بیان کیے گئے فارمولے کے مطابق بنایا گیا ہے اور کوئی خیانت نہیں کی گئی تو ڈبے یا پیکٹ کے اندر انعامی ٹوکن رکھنے سے کوئی شرعی خرابی لازم نہیں آتی ،بشرطیکہ جس کے نام نکلے ،اسے انعام دے دیا جائے اور ظاہر ہے یہ انعام اس کا حق ہے ،جس کے پیسے سے یہ مال خریدا گیا ہے، ہاں !اگر وہ خود کاریگر سے کہے : تم رکھ لو توٹھیک ہے۔ بائع اور مشتری کے درمیان جس قیمت پر اتفاق ہوجائے ،اس پرشرعاً بیع جائز ہوتی ہے ، لیکن آپ کی بیان کردہ مثالوں میں’’ کاریگر یا پینٹر ‘‘ایک تیسرا فریق ہے اور اصل خریدار سے بالابالا دکان دار اورکاریگر میں کمیشن کا ایک غیر عَلانیہ معاہدہ ہوتاہے ،جس سے اصل خریدار کو بے خبر رکھاجاتاہے ،یہ غَررہے،اسے ہم انگریزی میں Deceptionاور Betrayسے تعبیر کرسکتے ہیں ۔ مغربی ممالک میں مصنوعات پر قیمتیں درج ہوتی ہیں اور اگر کسی پروڈکٹ پر کمیشن یا ڈسکاؤنٹ دینا ہو تو وہ بھی Cash Memoپر درج ہوتا ہے، یہاں بھی بعض بڑے ڈیپارٹمنٹل یا سپراسٹورشاید ایسا ہی کرتے ہیں،لیکن چونکہ ہماری مارکیٹ کی معیشت بحیثیت مجموعی دستاویزی (Documented)نہیں ہوتی ، مصنوعات پر قیمتیں درج نہیں ہوتیں ،اس لیے اس طرح کے چور دروازے کھلے رہتے ہیں۔ مصنوعات پر قیمتیں درج نہ ہونے کے سبب بارگیننگ (یعنی بھاؤ تاؤ) کی گنجائش رہتی ہے ،جو گاہک جس طرح پھنس جائے۔ اس طرح کے ضابطے حکومت ہی بناسکتی ہے کہ ہر قابل ذکر پروڈکٹ پر اس کی قیمت درج ہو اورکمیشن یا ڈسکاؤنٹ کا فارمولا بھی واضح ہو ۔

ہم نے دکان پر اپنے عالم کو بھیج کر معلومات حاصل کیں ، انہیں دکان دار نے جومعلومات فراہم کیں ،وہ یہ ہیں: پہلے صرف دیسی کمپنیاں ڈبوں میں ٹوکن رکھتی تھیں ،پھر ملٹی نیشنل کمپنیوں نے عدالت سے رجوع کیا تو عدالت نے تمام کمپنیوں کو ٹوکن کی مالیت ڈبوں پر لکھنے کا پابندکیا ، اس کے بعد ایک آدھ کمپنی کے سوا ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بھی ٹوکن رکھنا شروع کردیے،لیکن اب ہوتا یہ ہے کہ: مثلاً ڈبے پر سو روپے لکھاہے ،تو اندر سو سوروپے کے دو ٹوکن نکلیں ۔دکان دار کا اس میں کردار یہ ہے کہ جو شخص ٹوکن لے کر آئے،خواہ کاریگر ہو یا مالک یعنی اصل خریدار،دکان دار اسے ٹوکن پر درج رقم ادا کر دیتا ہے اور دکان دار اس ادائیگی پر کمپنی سے سروس چارجز لیتا ہے ،جس طرح بجلی ،گیس اور ٹیلیفون کے یوٹیلٹی بل بینک وصول کرتے ہیں اور اُن اداروں سے طے شدہ سروس چارجز لے لیتے ہیں، اس صورت میں دکان دار کا کاروبار شرعاً حلال ہے ۔ (…جاری ہے…)

تازہ ترین