پہلے ذکر ایک فلسفی کا پھر ایک سائنس دان کا۔
یہ سن 1794ء کی بات ہے، ایک فرانسیسی فلسفی اپنی جان بچانے کی غرض سے بھاگتا پھر رہا تھا، فرانسیسی حکومت نے اسے موت کی سزا سنائی تھی، اسے اچھی طرح علم تھا کہ گرفتار ہونے کی صورت میں اُس سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی کیونکہ اُس کا جرم بہت سنگین تھا.... غداری.... گردن زنی مشین (گلوٹین) اُس کا مقدر تھی۔ بڑی دقّت سے پیرس کے نواح میں اسے پناہ ملی جہاں چھپ کر اُس نے ایک کتاب لکھی جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کسی انسان کی لکھی ہوئی سب سے ’’پُر امید‘‘ کتاب تھی، کتاب کا نام تھا A Sketch of a Tableau of the Progress of the Human Spirit فلسفی نے کتاب میں بتایا کہ سائنس توہمات کے چنگل سے آزاد ہو چکی ہے اور اگر آئندہ سو برس تک ہمارے علم و دانش پر کوئی پابندی نہ ہو اور پوری دنیا میں ہر شخص کو مفت تعلیم دی جائے تو ہمارے تمام سماجی مسائل اس صدی کے آخر تک حل ہو جائیں گے، فلسفی کے الفاظ میں ’’ہماری ترقی کی کوئی حد نہیں ماسوائے اس کرہ ارض کی مدت کے جہاں ہم رہتے ہیں‘‘۔ اپنا یہ کتابچہ مکمل کرنے کے بعد فلسفی نے اس کا مسودہ اپنی میزبان کے حوالے کیا اور راتوں رات وہاں سے نکل کر ایک دور دراز قصبے میں چلا گیا، وہاں ایک جگہ اُس نے شب بسری کا انتظام کیا اور پھریوں اطمینان سے نیند پوری کی جیسے اُس کی زندگی میں اب کوئی غم نہ ہو۔ صبح آنکھ کھلی تو اُس نے دیکھا کہ فرانسیسی پولیس نے اسے گھیر رکھا ہے، اُس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی، نہایت اطمینان سے اُس نے جیب میں ہاتھ ڈالا، زہر سے بھری شیشی نکالی اور منہ میں انڈیل لی، جو لوگ اسے گرفتار کرنے آئے تھے فلسفی نے اُن کے بازوؤں میں جھول کر جان دے دی۔ اِس عظیم فلسفی کا نام مارکیس دی کاندورسے تھا۔ موت کے وقت اُس کی عمر پچاس برس تھی۔ کاندورسے انقلاب فرانس میں بہت فعال تھا، اس کا خیال تھا کہ انقلاب کے نتیجے میں معاشرے میں تبدیلی آ جائے گی اور عقل و دانش کی بنیاد پر سماج کی تشکیل نو ہو گی، وہ ایک روشن خیال دانشور تھا، موت کی سزا کا مخالف تھا، عورتوں کے حق رائے دہی کا حامی تھا، اِس مقصد کیلئے اُس نے ایک مضمون بھی تحریر کیا جو فرانس کے ایک سنجیدہ مجلے میں شائع ہوا، اپنے انہی انقلابی خیالات اور تحریروں کی بدولت اسے پیرس کی طرف سے قانون ساز اسمبلی کا رُکن منتخب کیا گیا، بعد میں وہ اِس اسمبلی کا سیکریٹری بن گیا۔ کاندورسے نے فرانس کے تعلیمی نظام کی اصلاحات کے حوالے سے بھی تجاویز دیں مگر یہ منصوبہ آگے نہ بڑھ سکا۔ 1793ء میں کاندورسے نے نئے فرانسیسی آئین کی مخالفت کی جس کی پاداش میں اس پر بغاوت کا مقدمہ قائم کرکے اسے غدار قرار دے دیا گیا اور اس کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے۔ وہی کاندورسے جو انقلاب فرانس کا زبردست حامی تھا، ایک روز اسی انقلابی حکومت کے ہرکاروں کے ہاتھوں موت کی نیند سو گیا۔ ایسی موت سے پہلے لوگ عموماً اپنا مرثیہ لکھتے ہیں یا پھر ناامیدی اور یاس سے بھرپور ادب تخلیق کرتے ہیں، قریباً نصف عالمی لٹریچر موت کا نوحہ ہی تو ہے، مگر کاندورسے نے یہ کام نہیں کیا، اُس نے اپنی یقینی موت سے ذرا پہلے پوری کتاب لکھ ماری جو امید اور آرزوؤں سے بھرپور تھی، اس نے ہمیں بتایا کہ کیسے تمام تر ناامیدی کے باوجود انسانی ترقی کا راستہ نہیں روکا جا سکتا، اس کا کہنا تھا کہ بدی دراصل جہالت اور غلط فہمی کے نتیجے میں جنم لیتی ہے نہ کہ یہ انسانی جبلت کا شاخسانہ ہے۔ مارکیس دی کاندورسے جیسا رجائیت پسند فلسفی شاید ہی تاریخ میں کوئی دوسرا گزرا ہو۔
سائنس دان کا نام نکولس کوپر نیکس ہے، یہ پہلے ایک راہب تھا، یہ پولینڈ میں پیدا ہوا اُس زمانے میں جب یورپ تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس کی شہرہ آفاق کتاب کا نام ہےOn the Revolutions of the Celestial Orbs۔ اس کتاب کی اشاعت کی کہانی خاصی دلچسپ ہے۔ کوپر نیکس نے جب یہ کتاب مکمل کی تو اس کا مسودہ اپنے ایک دوست کے حوالے کیا جس نے اسے جرمنی کے شہر نیورمبرگ سے چھپوانے کا انتظام کیا جو اس زمانے میں ایسی کتابوں کی طباعت کا مرکز تھا، اُس دوست نے یہ مسودہ آگے ایک اور شخص کے حوالے کر دیا، اُس شخص نے جب یہ مسودہ دیکھا تو کوپر نیکس کی اجازت کے بغیر اپنی طرف سے ایک نوٹ کتاب کے شروع میں شامل کر دیا جس میں لکھا کہ یہ کتاب مفروضوں پر مبنی ہے اور سچائی کا مظہر نہیں، کسی بھی صورت میں علم فلکیات ان عوامل کا پتا نہیں چلا سکتا جس کی بدولت زمین اور سورج کی گردش جنم لیتی ہے۔ کوپر نیکس کے دوست کے پاس جب یہ کتاب اس نوٹ کے ساتھ شائع ہو کر پہنچی تو وہ بہت سیخ پا ہوا اور اُس نے نوٹ پر سرخ کراس لگا دیا، کوپر نیکس کی دوستی ایک رومن کیتھولک بشپ سے بھی تھی جس نے کوپر نیکس کی شکایت پر نیورمبرگ کی شہری انتظامیہ کو لکھا کہ پبلشر کو پابند کیا جائے کہ وہ نئی کاپیاں چھپوائے اور نوٹ شامل کرنے والے کا نام ظاہر کیا جائے مگر اس کی بات نہیں مانی گئی اور نہ ہی اس شخص کا نام ظاہر کیا گیا جس نے کتاب میں وہ نوٹ شامل کیا تھا، بعد میں یہ تمام کہانی کیپلر نے اپنی کتاب میں لکھی جو 1609ء میں شائع ہوئی۔ کوپر نیکس ایک زبردست ریاضی دان تھا، اُس نے اپنے حساب کی بدولت یہ ثابت کیا کہ زمین نظام شمسی کا مرکز و محور نہیں ہے، سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں اور زمین بھی چونکہ ایک سیارہ ہے اس لیے وہ بھی سورج کے گرد گھوم کر سال میں ایک چکر پورا کرتی ہے اور ساتھ ہی روازنہ اپنے محور پر بھی گھومتی ہے۔ بظاہر یہ ایک معمولی بات تھی مگر اس دریافت نے تاریخ کا دھارا بدل دیا، اس سے پہلے انسان زمین کو کائنات کا مرکز سمجھتا تھا، کوپر نیکس نے یہ بات غلط ثابت کر دی اور آنے والے وقت کے تمام سائنس دانوں اور فلسفیوں کیلئے سوچ کے نئے دریچے وا کر دیئے، گلیلیو، کیپلر، ڈی کارٹ نیوٹن، سب نے کوپر نیکس ماڈل سے ہی استفادہ کیا۔ اُس زمانے کے انسان کیلئے یہ بات ہی دل دہلا دینے والی تھی کہ ہماری زمین اس نظام شمسی میں فقط ایک چھوٹا سا سیارہ ہے جس کی کوئی اوقات نہیں، انسان کو اپنی کم اہمیتی کا پہلی مرتبہ ادراک ہوا، اسے لگا جیسے کسی نے بیچ بازار اس کے کپڑے اتار دیے ہوں، وقت اور فاصلے کے تصورات یکسر بدل گئے، کوپر نیکس کی دریافت نے انسان کو سوچنے پر مجبور کر دیا کہ اس کائنات میں اس کی حیثیت کیا ہے۔ سائنس اور فلسفے کی ترقی کا ایک نیا دور کوپر نیکس کے بعد شروع ہوا جس کا شاید خود کوپر نیکس کو بھی اپنی زندگی میں اندازہ نہیں ہوا ہو گا۔
ایسا نہیں ہے کہ مارکیس دی کاندورسے سے بڑا فلسفی کوئی نہیں یا نکولس کوپر نیکس سے بڑا ماہر فلکیات تاریخ میں پیدا نہیں ہوا۔ انسانی تاریخ ایسے کئی بڑے ناموں سے بھری پڑی ہے، مگر ان دونوں اصحاب کا کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے انسان کو یہ احساس دلایا کہ اُس کی ترقی کے لامحدود امکانات اس پراسرار کائنات میں موجود ہیں، ضرورت فقط اِس بات کی ہے کہ انسان اپنی سوچ کو ہر قسم کی بندشوں سے آزاد کرے۔ ایک فلسفی نے موت کو گلے لگاتے ہوئے یہ راز پایا اور ایک ماہر فلکیات نے صدیوں سے ذہنوں میں راسخ خیالات کی پابندیاں توڑ کر ایک ایسی دریافت کی جس نے ایک ہی جست میں کئی صدیوں کا سفر طے کر لیا۔ ایک ہم ہیں جو آج بھی سوچ پر محض اس لئے پہرے بٹھانا چاہتے ہیں کہ بعض انسانوں کے خیالات ہمیں پسند نہیں۔ ان حالات سے نکلنے کیلئے ہمیں بھی کاندورسے جیسا کوئی رجائیت پسند فلسفی چاہئے۔ تو کوئی ہے؟
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)