5؍ جولائی 1977کی سیاہ ترین رات کا کسی نہ کسی شکل میں تسلسل جاری ہے۔ جب وقت کے غاصب ڈکٹیٹر جنرل ضیاء الحق نے عوام کے منتخب اور محبوب لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کو معزول کر کے بزور طاقت اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ جس پر ’’الزام‘‘ تھا کہ اس نے محروم اور افلاس زدہ طبقات کو ان کے بنیادی حقوق دیئے، عوامی سیاست کو فروغ دیا، نوجوانوں، دانشوروں، غریب کسانوں اور استحصال زدہ مزدوروں کو متحد کیا۔ ان جیسے ان گنت ’’عوامی جرائم‘‘ کی پاداش میں 4اپریل 1979کے روز سزائے موت دے کر عوام کی حکمرانی کے خوابوں کا قتل عام کر دیا گیا۔
جبر و تشدد کا ایسا دور شروع ہوا جس میں پیپلز پارٹی اور اس سے کسی بھی قسم کا تعلق رکھنے والے لوگوں کی زندگیاں عذاب بنا دی گئیں انہیں چن چن کر ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ کارکنوں کو نشان عبرت بنانے کے لئے انہیں سرعام کوڑے مارنے کے میدان سجائے گئے، پھانسیاں دی گئیں۔ بھٹو خاندان پر ڈھائے جانے والے یہ اقدامات ایک ڈکٹیٹر کی اس بزدلانہ ذہنیت کے عکاس تھے۔ جس کا بھٹو مخالفین ضیاء کی حمایت میں یوں اظہار کرنے سے بھی باز نہ آتے کہ ’’فوجی بغاوت کی رات میں اس خاندان کا نام و نشان مٹا دینا چاہئے تھا‘‘ جنرل ضیاء نے ہر وہ ظلم روا رکھا، جو اس کے بس میں تھا یہ سلسلہ یوں جاری رہا کہ اپنی ناپاک خواہش کو وہ 5؍ جولائی کی رات بھٹو خاندان کا نام و نشان مٹانے کی صورت میں پوری نہ کر سکا۔ اسے قسط وار پورا کیا گیا 18جولائی 1985ء کو فرانس میں شاہنواز کی پراسرار موت اور 20ستمبر 1996کو میر مرتضیٰ بھٹو کی پراسرار شہادت اسی انتقام کی سلسلہ وار کڑیاں ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمہ قتل کے بارے میں ایک بیانیہ یہ بھی رہا کہ لاہور ہائیکورٹ کی کارروائی سے برطانیہ کی اس بدنام ترین عدالت ’’اسٹار چیمبر‘‘ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے جہاں انصاف کے تقاضوں کو یکسر پسِ پشت ڈال کر بے گناہوں کو ٹاور آف لندن کے جلاد کے سپرد کر دیا جاتا۔ جناب بھٹو کے خلاف یہ قتل کا مقدمہ نہیں بلکہ مقدمے کا قتل ہے۔ ہم انصاف چاہتے ہیں، عوام انصاف چاہتے ہیں، ہم ایسے بے گناہ کی بریت چاہتے ہیں جو پاکستان کے عوام کا منتخب نمائندہ ہے۔ وفاق اپنے رہنما کے لئے انصاف کا طالب ہے۔ فیصلے کو آزاد عوام کی منتخب پارلیمنٹ میں تحقیقات کے لئے پیش کیا جائے گا۔ پارلیمنٹ اس سازش کی تحقیقات بھی کرے گی جو عوام کے منتخب نمائندے کے ساتھ عدالتی کارروائی کی آڑ میں کی گئی ہے۔‘‘
بیگم نصرت بھٹو کا یہ خواب پاکستان کی عدالتوں اور منتخب ایوانوں میں تحقیقات کے لئے ہنوز تشنہ طلب اور شرمندہ تعبیر ہونے کا منتظر ہے۔ اس کے برعکس بھٹو خاندان کے ازلی مخالفین ایک بار پھر قبروں کے ٹرائل کی مہم جوئی میں مصروف ہیں۔ آج کل این آر او پاکستان کے سیاسی و قانونی حلقوں میں زیر بحث ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ این آر او کی سب سے زیادہ قیمت پیپلز پارٹی اور اس کی سربراہ بے نظیر بھٹو نے شہادت کی صورت میں ادا کی اور جس کی قسط وار سزا ان کے شوہر آصف علی زرداری تاحال بھگت رہے ہیں۔ آئیں ماضی کے مزار پر حاضری دیں۔ (آیئے ماضی کے آئینہ میں جھانکتے ہیں) اکتوبر 1999ء میں مشرف آمریت کی تاب نہ لا کر معزول وزیراعظم اپنے شریف خاندان سمیت جلا وطن ہو گیا۔ ایک بار پھر ایک جرنیل کے غیر آئینی اقدام کو تحفظ دیا گیا بلکہ اسے آئین میں من مانی ترامیم کا اختیار بھی دیا۔ حتیٰ کہ ایک ڈکٹیٹر وردی سمیت ملک کا صدر منتخب ہو گیا۔ 2002ء میں عام انتخابات کے بعد جنرل مشرف نے من پسند حکومت بنا لی جسے بہرحال جمہوریت کی سند حاصل نہ ہو سکی۔ نائن الیون کے بعد بدلتے عالمی منظر نے پاکستان کی بنیادیں ہی ہلا کر رکھ دیں، پھر نام نہاد افغان جہاد میں استعمال ہونے والے بارود کی بو وطن عزیز کے گلی کوچوں تک میں پھیل گئی قبائلی علاقوں کے محب وطن سرفروشوں نے سوات میں اپنے خونی پنجے گاڑ کر وہاں سے قومی پرچم تک اتار دیا۔ اس دہشت گردی اور عصبیت پسندی نے وفاق کی تمام اکائیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس وقت ملک کو ضرورت ایک بہادر لیڈر کی تھی۔ آمریت خود ایک دہشت ہوتی ہے اور کوئی دہشت، دہشت گردی کو شکست نہیں دے سکتی۔
المیہ یہ ہے کہ بیرون ملک پناہ گزین تمام سیاست دانوں کو وطن واپسی اور آزادانہ طور پر انتخابات 2007میں حصہ لینے کا مطالبہ کرنے والی بے نظیر بھٹو کو محفوظ راستہ نہ ملا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو نے کبھی اس پر اصرار نہیں کیا کہ جرائم اور کرپشن میں ملوث عناصر کے خلاف مقدمات ختم کئے جائیں کیونکہ نام نہاد سوئس اکائونٹس اور ایس جی ایس کو ٹیکنا کیس میں بے نظیر اور آصف علی زرداری کے خلاف نواز اور مشرف حکومتیں الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہیں اور آصف زرداری گیارہ سالہ طویل قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے اور میڈیا ٹرائل کے باوجود فاضل عدالتوں سے باعزت بری ہوئے۔
ستم ظریفی حالات کی کہ ایک ڈکٹیٹر کے ساتھ قومی مفاد میں کیا جانے والا معاہدہ این آر او کہلایا جس کا مقصد جمہوریت کی بحالی، پُر امن انتخابات کا انعقاد اور آزادانہ سیاسی سرگرمیوں کا آغاز تھا کو عوام کی مقبول ترین لیڈر بے نظیر کی وطن واپسی پر ریکارڈ گواہ ہے کہ ان کے خلاف ڈیل کرنے کے حوالے سے خصوصی ٹاک شوز کا اہتمام کیا گیا۔ اخبارات میں خبریں اور مضامین شائع کرائے گئے اور کوئی بھاگم بھاگ عدالت عظمیٰ پہنچ گیا۔ اسی شور میں کارساز کے مقام پر بے نظیر بھٹو کا کاروان جمہوریت پر خوفناک حملہ کیا جاتا ہے جس میں سینکڑوں بے گناہ شہید اور زخمی ہوئے۔ ایک نہتی لڑکی نے بلا خوف و خطر یہ جنگ ہر جگہ تن تنہا لڑی اور پھر 27دسمبر 2007کی شام راولپنڈی کی معروف شاہراہ پر دہشت گردوں نے سرعام اسے شہید کر دیا۔
کیا یہ تھا وہ این آر او جس کا ماتم تاحال جاری ہے اور مخالفوں کے نزدیک ہمیشہ کا ظالم اور عوام کے نزدیک ہمیشہ کا مظلوم آصف زرداری آج بھی چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ وہ بے نظیر شہید کے مشن پر گامزن رہے گا۔ اگر غریبوں کو نوکریاں دینا جرم ہے تو وہ یہ جرم کرتا رہے گا خواہ اس کی پاداش میں اسے خود ہی جیل کیوں نہ جانا پڑے۔ جیل کاٹنا بھی اپنے ایمان کا کام ہوتا ہے کیونکہ جیل بھی ایمانداری سے کاٹی جاتی ہے لیکن اس طرح سیاسی بنیادوں پر کوئی جیل نہ جائے جس طرح میں خود گیا۔
یاد رکھئے! لفظوں کے امین کسی بھی معاشرے میں اپنے لفظوں سے ایک فصل تیار کر رہے ہوتے ہیں، اسے Cultivation Theoryکے لئے اخلاقیات کی کاشت یہ ثابت ہے کہ آج جو کچھ بویا جائے گا وہی کل کاٹنا پڑے گا۔ ہاتھوں سے لگائی گئی گرہیں دانتوں سے کھولنا پڑتی ہیں۔ آٹھویں ترمیم اور این آر او کا تماشا لگانے والوں کو سوچنا ہو گا کہ کون قوانین بناتے اور کون ان آئینی قوانین میں نقب لگاتے ہیں۔ کیا کوئی ریاست ایسی ہے جس نے اکہترسال میں سات مرتبہ اپنے ملکی آئین کی روح یکسر بدلی ہو اور آج وہ ترقی یافتہ کہلاتی ہو۔ کیا واقعی ہم موت کے کنوئیں میں موٹر سائیکل چلا رہے ہیں کہ مسلسل سفر کے باوجود وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ سانپ اور سیڑھی کے اس کھیل کو کیسے خیرباد کہا جائے؟
آصف علی زرداری گرفتار ہوتے ہیں یا نہیں؟ دونوں صورتوں میں ایک سچائی زمین پر موجود ہے، ہم اپنے قومی سیاسی سفر میں انصاف اور درگزر کی راہوں کو نہیں اپنا سکے، ہمارا سفر اس منزل کی طرف شاید ایک قدم بھی نہیں بڑھا کہ حزب اقتدار آرام سے ملک کی خدمت کرے اور حزب اختلاف اس پر مثبت تنقید کرتے ہوئے اسے آرام سے اپنی آئینی مدت پوری کرنے دے، ہماری یہ تلخ تاریخ قائداعظم کے آخری ایام سے ہی شروع ہو گئی تھی اور آج بھی جاری ہے، آپ آصف زرداری کو گرفتار کر کے اس میں کمی نہیں اضافہ ہی کریں گے، پاکستان میں سیاسی تاریخ کچھ ایسی ہے کہ کوئی بھی جماعت یہاں ہمیشہ برسراقتدار نہیں رہ سکتی۔ طاقت کے مراکز کی سوچ اور تقاضے بدلتے رہتے ہیں۔ ان تبدیلیوں کے باعث ہماری قومی تاریخ میں ہمیشہ زہر ہی بھرا جاتا رہا، معلوم نہیں ہم اس قومی بدقسمتی کے چکر سے نکل بھی سکیں گے یا نہیں، آصف زرداری کی گرفتاری یا عدم گرفتاری کو محض ایک جزوی ایشو ہے۔
پس نوشت۔ عطاء الحق قاسمی
پاکستان ہی نہیں بین الاقوامی سطح تک اردو ادب کے قابل فخر سرمایہ عطاء الحق قاسمی کے حوالے سے سپریم کورٹ کا فیصلہ سامنے آ گیا، عطاء الحق قاسمی نے پاکستان کے عوام کے لبوں پر اپنی تحریروں سے ہزار ہا مسکراہٹیں بکھیری ہیں، یہی خوبصورتی ان کے صاحبزادے یاسر پیرزادہ کی تحریروں میں ہے، بستر علالت پر ہونے کے باوجود کوئی لمحہ ان کے اس دور ابتلا کا بوجھ محسوس کئے بغیر نہیں گزر سکا، پاکستان کے عوام کے دونوں عوامی قلب کے صحیح ترجمان اور قلمکار ہیں، ان کے لئے میرے سمیت ہمیشہ دعا گو رہے اور دعا گو رہیں گے!