فاطمہ نعیم
کیا آپ سب مشہورِزمانہ ’’دی گریٹ ویو‘‘(wave) سے واقف ہیں؟ اگر نہیں تو ابھی اپنا موبائیل اُٹھائیں اور ’’واٹس ایپ‘‘پر’’ویو‘‘ لکھ کر ایموجی تلاش کریں،پانی کا ایک بڑا ریلا آگے بڑھتا ہوا نظر آئے گا۔جی ہاں! یہی وہ عظیم لہر ہے جس نے دنیا بھر میں ہمیشہ تہلکہ مچائے رکھا اور پانی کی عظیم لہر یعنی ’’دی گریٹ ویو ‘‘کے نام سے مشہور ہوئی۔
یہ 1833ء -1829ء کے دوران کا واقعۂ ہے،جب ایک جاپانی آرٹسٹ ہوکوسائی تقریباً چھتیس فن پاروں کی ایک سیریز بنانے میں مصروف تھا۔جس میں اُس کاارادہ جاپان کی مشہور پہاڑی ماؤنٹ فیوجی اور اس کے اردگرد کے مناظر کی تصویر کشی کرنے کا تھا،جب یہ شاہکار مکمل ہو کر سامنے آیا، تو اس نے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا اور ہر خاص و عام کی توجہ کا مرکز بن گیا۔اس فن پارے کی خاص بات یہ تھی کہ اصل موضوعِ بحث ماؤنٹ فیوجی کہیں پیچھے رہ گیا اور پانی کی اس عظیم لہر نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالی، کیوں کے یہ عظیم لہر نہایت پر اسرار طریقے سے دیکھنے والوں کو کچھ اور ہی کہانی سناتی نظر آتی ہے۔اس فن پارے میں کچھ ملاح پریشانی میں کشتی میں سوار عظیم لہر سے بچنے کی تگ و دو کرتے دکھائے گئے ہیں ،جب کہ لہر کسی ظالم اور خوں خوار آسیب کی طرح مچھیروں اور ملاحوں پر اس طرح جھپٹنے کے لئے تیار ہے جیسے بہت عرصے سے بھوکی ہو یا ملاحوں سے سخت انتقام لینا چاہتی ہو، جیسےانہیں مارے بغیر اس کے غصّے کی آگ ٹھنڈی نہ ہو گی۔فن پارے کا اصل پہلو ماؤنٹ فیوجی بھی اٹھتی ہوئی ظالم لہر کے پیچھے سے جھلکتا نظر آتا ہے۔اس شاہکار کا اصل نام تو کچھ اور تھا، لیکن دنیا اسے عظیم لہر کے طور پر جانتی ہے۔یہ ایک عرصے تک دنیائےفیشن کا حصہ بنی رہی،کپڑوں کی زینت بنی اور اب ایموجی کی شکل میں آپ کے ہاتھ میں بھی ہے،یہ نوجوانوںکو اتنی بھا گئی کے ایک عرصے تک وہ اس کے ٹیٹو جسم پر کندہ کرواتے رہے، بہت سے ممالک میں آج بھی جہاں سیلاب آنے کا خطرہ ہو اسے ’’انتباہ‘‘ کے طور پر ان علاقوں میں لوگوں کی سہولت کے لیے اس کی نقل کروا کر چسپاں کر دیاجاتا ہے۔یہ حقیقتاًانتباہ ہی ہے،یہ ایک ایسی تصویر ہے ،جو شاید بنی ہی اس لیے تھی کے کسی بجتے ہوئےالارم کی طرح بار بار ہماری نظروں کے سامنے آئےاور جھنجوڑ جھنجوڑ کر ہمیں خطرے سے آگاہ کرے۔دیدۂ بینا سے دیکھا جائے تو اب یہ لہر ہمیں اپنے اردگرد اُٹھتی نظر آتی ہے۔ یہ خوں خوار لہر اب بھی ہم پرحملہ کرنے کے لیے تیار ہے،لیکن شاید ہم ان کشتی میں سوار ملاحوں سے بھی گئے گزرے ہیں کہ اس خطرے سے مکمل طور پر انجان ہیںاور اپنے بچاؤ کے لیے کوئی کوشش نہیں کر رہے۔میں نے اس ظالم لہر کو اُس وقت پوری طرح محسوس کیا جب ٹرمپ کو پناہ گزینوں کے لیےبنائی گئی پالیسیوں کی آڑ میں نہتے معصوم شامی بچّوں کی کاغذ سے بنائی کشتیوں پر جھپٹتے دیکھا، دکھ کے مارے بے اختیار اپنی کشتی ڈوبنے پر ایک چھوٹی شامی بچی رو پڑی اور اس کی پکار نغمے کی صورت میں پوری دنیا نے سنی۔
اے دنیا والو! میرا وطن جلا کر راکھ کر دیا گیا ہے،ہماری آزادی سلب کر لی گئی ہے
مجھے میرا بچپن لوٹا دو! مجھے میرا بچپن لوٹا دو،
برائے مہربانی مجھے امن واپس کر دو!
اس لہر کو میں نے بارہا اُٹھتے دیکھا،اس سے پہلے یہ لہر تب اُٹھی تھی ،جب پاکستانی طالبہ سبیکا شیخ کو دن دَہاڑے امریکاکے ایک اسکول میں گولیاں مارکر شہید کر دیا گیا، دو تین دن جذباتی سا شور اُٹھا اور پھر سب بھول گئے اور ہر طرف خاموشی چھا گئی۔یہ خاموشی بہت بری ہے، اکثر طوفان سے پہلے ایسی ہی خاموشی ہوتی ہے۔یہ لہر ہمارے اندر اب اکثر اُٹھنے لگی ہے، جب جب لوگوں کو سوشل میڈیا میں غرق ٹائم ضائع کرتے دیکھوں، یہ پلیٹ فارمز ہمیں بیرونی دنیا سے جوڑ رہے ہیں، ہماری بوریت کے اوقات میں ہمیں محظوظ بھی کرتے ہیںاور ہمارے علم میں بھی خوب اضافہ ہو رہا ہے، لیکن یہ علم غیر نفع بخش ہے،ہم بغیر سوچے سمجھے آنکھوں پر پٹی باندھے کسی انجانی منزل کی طرف دو ڑے جا رہے ہیں،اس ’’غیر ضروری‘‘ علم نے ہمیں اصل ’’ہدف‘‘اور ’’خطرے‘‘سے بے پروا کر کے ہماری توجہ ان عوامل اور مسائل کی طرف راغب کر دی ہے۔یہ ظالم لہر اب سوشل میڈیا کی شکل میں ہماری طرف اس تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ ہمارے پاس یہ سوچنے اور فرق کرنے کا وقت بھی نہیں بچا کہ ہمارے لیےکیا اہم ہے اور کیا غیر اہم، اس تیزی سے پھیلتے ہوئے ’’علم‘‘کے انبار کے نیچے ہم اتنی بری طرح دب گئے ہیں کہ وہ باتیں جن پہ ہم قُدرتی طور پر غم ذدہ ہونا چاہیےتھا، انہیں محسوس کرنے تک کا وقت نہیں ملتا۔ افغانستان میں معصوم حفاظ کی شہادت کا واقعہ،زینب قتل کیس، طیبہ تشدد کیس، یا کچھ اور دو دن کسی بھی واقعے پر آنسو بہاتے ہیں، پھر انہیں فراموش کرکے اپنی اپنی دنیا میں مصروف ہو جاتے ہیں،ابھی ہم اپنے غم کو غم سمجھ کر سہی سے غم زدہ بھی نہیں ہو پاتے کہ کوئی نہ کوئی واقعہ ہمیں ’’اینٹرٹین‘‘کرنے پہنچ جاتا ہے۔اگر اس تیزی سے بڑھتی ہوئی لہر میں ڈوب کے مرنے اور بے حس ہونے سے بچنا ہے م،تو ہمیں ہنگامی بنیادوں پر یہ طے کرنا ہو گا کہ ہمارے لیے ،کیا اہم ہے اور کیا غیر اہم۔ ہم بیرونی دنیا سے جڑنے میں اس قدر مصروف ہو گئے ہیں کہ اپنوں کی پکار سننے کی فرصت نہیں، گھر میں لگی آگ کا دھواں تک نظر نہیں آ رہا،جب یہ آگ دامن جلائےگی شاید تب ہوش آئے،مگر تب تک بہت دیر ہو چکی ہو گی۔ اس آگ سے بچنے کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ ہم اپنی زندگیاں قر آن و سنت کے مطابق گزاریں، ملک کا نظام چلانے سے لے کر ہر شعبے میں نظم وضبط لانا ہوگا۔یہ کام مشکل ضرور ہے، لیکن نا ممکن نہیں، نوجوان دوستو! اس ملک کا مستقبل صرف آپ ہی سے جڑا ہے، اگر آپ ہی اپنا وقت فضول سرگرمیوں میں گزاریں گے، مسائل سے آنکھیں چرائیں گے، اپنے ارد گرد کے ماحول اور لوگوں کی پریشانیوں کو نظر انداز کریں گے تو یہ ملک کبھی ترقی نہیں کر سکے گا۔ یاد رکھیے، اگر نیت ہو تو یہ کام کیا جا سکتا ہے۔آج اک نوجوان دنیا کی حقیقت سے اچھی طرح واقف ہے، زندگی کا یہ دور (جوانی )صرف سیر و تفریح ، دوستوںکے ساتھ پارٹیز کرنے یا سوشل میڈیا پر وقت گزارنے کا نہیں ہوتا،اسے مثبت سرگرمیوں میں صرف کرنا چاہیے،تاکہ آپ اس ملک و قوم کے بھی کام آسکیںاور کوئی ، کوئی طوفان اس وطن کا بال بھی بیکا نہ کر پائے۔