آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہاُمت مسلمہ کی بیداری کے لئے مسلمان عورت کا کردار بے حد اہم ہے۔ اسلامی اور مغربی کلچر ایک دوسرے سے مختلف اور عورت کے بارے میں ان کے نظریات بالکل مختلف ہیں۔ مخلوط طرزِ معاشرت اور مخلوطِ طریقہٴ تعلیم کے بارے میں مغرب کا نظریہ یہ تھاکہ اس طرح عورتوں اور مردوں کی ایک دوسرے سے دلچسپی ختم ہوجائے گی مگر یہ فطرت سے بغاوت کی راہ تھی۔ اس طرزِ معاشرت نے تباہی کے ایسے کڑوے کسیلے پھل عطا کئے کہ انسانیت بھی سسک پڑی ہے۔ اسلام عورت کی نسوانیت کا احترام کرتا ہے، اُس کے عورت پن کی قدرکرتاہے۔ عورت کا مردانہ پن نسوانیت کی توہین ہے۔ عورتوں کی درونِ خانہ سرگرمیاں عورت کا فخر و امتیاز ہیں۔ مغرب نے اُسے طعنہ بنادیاہے۔ اسی لئے مغربی معاشرت زوال پذیر ہے۔ آپ پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اسلام کا خوبصورت روشن چہرہ زمانے کو دکھا دیں۔ اسلامی انقلاب کے اگلے مورچوں میں آپ کو ہمیشہ عورت ہی صف اول میں ملے گی۔ اب ہر جگہ پر انقلاب کے آثار ہیں کہ مسلمان عورت بیدار ہو رہی ہے مگر ہوشیار رہیں کہ لٹیرے منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی لوٹ نہ لیں۔تیونس کی ہاجرہ جو جیل میں قید کاٹ چکی ہیں، یمن سے بوہیر، عراق سے بنت اسلام نے کہا کہ میں اجتماعی قبروں اور لاپتہ نسلوں کے دیس سے آئی ہوں۔ میں ایک ایسے خطے سے بیداری کاپیغام لائی ہوں جہاں آہوں اور سسکیوں کے ساتھ ساتھ جدوجہد اور عزائم سے بھرپور نہ ختم ہونے والی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ ہم ہر چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں، ہمیں علم ہے کہ کیسے سر اٹھا کر جیا جاتا ہے۔ لیبیا سے ایک شہید علی شیخ کی ماں شریک تھیں جنہیں عید کے دن شہید کر دیا گیا تھا ۔بحرین اور آذربائیجان کی خواتین بھی اپنے خیالات کا اظہار کررہی تھیں۔ آذر بائیجان کی خاتون کہہ رہی تھیں، آذربائیجان ایسا خطہ ہے جہاں اسلام کی روشنی ختم ہو چکی تھی۔ اسلام بطور نظامِ حیات لوگوں سے بھول چکا تھا مگر نوجوان نسل نے اب بڑی تیزی سے شعائر اسلامی کو اپنانا شروع کیا ہے ۔انقلاب ایران نے اس آیت کے مصداق جس کا ترجمہ ہے کہ ”اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم جمادے گا“۔ پوری دنیا پر یہ بات واضح کردی ہے کہ اسلام بطور نظام زندگی آج بھی قابل عمل ہے اور دین آج بھی افراد اور اقوام کی زندگی میں انقلاب برپا کرسکتاہے۔ ایرانی خواتین نے اپنے حجاب کی روایت کو ازسرنو زندہ کرکے یہ ثابت کر دیا ہے کہ حجاب عورت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔ حجاب صرف ایک گز کے ٹکڑے کا نام نہیں بلکہ یہ ایک پورا اخلاقی نظام اور عفت و عصمت کی حفاظت کا طریق کار ہے۔ ترکی سے بھی50خواتین کا ایک بڑا وفد آیا تھا۔ جس میں حکمران جماعت، سعادت پارٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی کی اہم خواتین شامل تھیں۔ میری عزیز بہن ہدیٰ کایا بھی ہمارے ساتھ تھیں جو ایک زمانے میں ترکی میں حجاب پر پابندی کی وجہ سے حجاب کیلئے قید بھی کاٹ چکی تھیں اور پھر جلاوطن کردی گئیں تو انہوں نے ہمارے ساتھ بھی کچھ عرصہ گزارا تھا۔ اپنی اُن تلخ یادوں اور حجاب پر پابندی کے خلاف اپنی جدوجہد کو اُنہوں نے دوجلدوں پر مبنی ایک کتاب میں لکھا ہے جو ترکی سے شائع ہو چکی ہے۔
کوسوو کی فاطمہ کے جذباتی خطاب نے سب کو رُلا دیا۔ اُس نے کہاکہ ہم یورپ کے قلب میں واقع مسلمانوں کی مملکت ہیں مگر ہمیں 5چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں بانٹ کر ہماری قوت کو تقسیم کر دیا گیا ہے۔ ہمیں انشاء اللہ ایک ہونا ہے۔ ہمارے پاس مادی دولت کی کمی نہیں مگر ہمیں آپ سے اخلاقی مدد کی ضرورت ہے۔ دوران سیشن بیداریٴ اسلام کے شعبے کے نگران ڈاکٹر علی اکبر ولایتی کے ساتھ ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ انہوں نے انتہائی مصروفیت کے باوجود ہمیں وقت دیا ۔ میں نے اپنے آغاجان کا خط اُنہیں پہنچایا جو اپنی مصروفیت کی وجہ سے اس کانفرنس میں نہیں پہنچ پائے تھے۔ میرے ساتھ اس ملاقات میں جماعت اسلامی کی نگران اُمور خارجہ سینیٹر ریٹائرڈ کیپٹن ڈاکٹر کوثر فردوس اور اسلامی نظریاتی کونسل کے علامہ نقوی کی صاحبزادی وجیہہ زارا نقوی بھی شامل تھیں۔ ڈاکٹر ولایتی نے آغا جان کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا اور ہمیں کہا کہ وہ ہمارے لئے راہبر کی حیثیت رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ تادیر انہیں سلامت رکھے اور صحت اور عافیت دیئے رکھے۔ ہم نے انہیں اتنی عظیم الشان کانفرنس منعقد کرنے پر مبارکباد دی اور اس کے اثرات کو سمیٹنے اور قائم رکھنے کے لئے اس کے مختلف کمیشنز کو مستقل طور پر کام کرنے کا مشورہ دیا تاکہ اتحاد بین المسلمین کی اس فضا کو مزید سازگار بنایاجاسکے۔ہال میں سیشن کے دوران جسٹس ناصرہ جاوید اقبال، انڈیا سے آئی جماعت اسلامی کی ناظمہ امة الرزاق اور حماس فلسطین کی انچارج رجاء عمر سے تفصیلی ملاقاتیں کیں اور اُن سے تبادلہٴ خیال کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی پاکستان کے بارے میں بھی بتایا۔ اُن کے ساتھ دکتور محمودالزہار کی اہلیہ سمیحہ الزہار بھی موجود تھیں جو 2جوان شہداء بیٹوں کی ماں ہونے کی وجہ سے پوری کانفرنس کی آنکھوں کا تارا بنی ہوئی تھیں۔ فلسطین سے حماس کا ایک نمائندہ وفد موجود تھا جو سب شہداء کی وارث بھی تھیں اُن میں انتصار العلول جو ایک شہید کی بیوہ اور 2شہداء کی ماں ہونے کا اعزاز رکھتی تھیں، شہید اسماعیل ابو شنب کی بیوہ عائشہ ابو شنب جو ایک شہید کی ماں بھی تھیں۔ 44دنوں کی بھوک ہڑتال کے بعد اسرائیلی جیل سے رہا ہونے والی آہنی اعصاب کی مالکہ جواں سال فلسطینی لڑکی حناء الشبلی بھی ہم سب کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی تھیں۔
آخری سیشن میں کانفرنس کے دوران بنائے گئے خواتین کے لئے چھ کمیشنز کی سفارشات اور اعلامیہ پڑھ کر سنایا گیا۔جس میں بیداریٴ اسلام اور اسلامی نشاة ثانیہ میں عورت کے اہم کردار کو زیر بحث لایا گیا۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ عورت جو کہ مستقبل کی صورت گر اور نقشہ گر ہے۔ اُس کی صلاحیتوں اور قوتوں کو مثبت نتائج حاصل کرنے کے لئے متحد ہو کر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ وہ مضبوط خاندان بنا کر مستحکم معاشرے بنائے اور اُن سے ترقی یافتہ قوموں کی تعمیر ممکن بنائی جاسکے۔ڈاکٹر علی اکبر ولایتی نے اپنے آخری خطاب میں کہاکہ اس کانفرنس نے ہمیں تبادلہٴ خیال اور اپنے تجربات کو بیان کرنے کا بہترین موقع عطا کیا۔ مسلمان عورت کی بیداری اُمت مسلمہ کی بیداری پر دیرپا اثرات چھوڑے گی۔ کانفرنس کی اختتامی تقریر میں عراق کے سابق وزیراعظم دکتور ابراہیم الجعفری اصلاحی نے قرآن کریم میں عورت کے مختلف کرداروں کو اپنے فصیح و بلیغ عربی خطبے میں بہت خوبصورتی سے بیان کیا۔
میں نے احمدی نژاد اور ڈاکٹر علی اکبر ولایتی کی سربراہی میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں پاکستانی وفد کی نمائندگی کی اور پاکستان سے یہ پیغام پہنچایا کہ قرآن کریم نے ہمیں خیر اُمت کا لقب عطا کرکے لوگوں کو امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے کی ادائیگی کی ذمہ داری سونپی ہے اور ہمیں اخوت و محبت کے رشتوں میں باندھا ہے۔ ہمارے اقبال لاہوری فرماتے ہیں کہ
تہران ہو اگر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہٴ ارض کی تقدیر بدل جائے
آج اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کی نمائندہ خواتین کو تہران میں جمع ہونے کا موقع دیا ہے تو اللہ تعالیٰ ہمیں پہاڑی کے چراغ بنا دے جس کی روشنی سے سارا عالم منور ہوجائے۔