• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فہمیدہ ریاض کا انتقال ہوا، تو اکثر ذرائع ابلاغ نے اُنہیں پاکستان کی ایک بڑی شاعرہ قرار دیا، مگر عموماً اس بات کا ذکر نہیں کیا گیا کہ وہ ایک اعلیٰ پائے کی دانش وَر اور نثر نگار بھی تھیں، جنہوں نے نہ صرف افسانے، بلکہ ناول بھی لکھے۔ فہمیدہ ریاض کی نثر کا ایک بہترین شہ پارہ ہمیں ’’آج‘‘ کے 35 ویں شمارے میں ملتا ہے ،جس میں نام وَر ادیب، محمّد خالد اختر کی وفات پر فہمیدہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس نثر پارے میں فہمیدہ ریاض کے ذہنی ارتقا کا احوال ملتا ہے اور اس کردار کا بھی، جو خالد اختر نے فہمیدہ کی حوصلہ افزائی میں ادا کیا۔ اس ضمن میں خالد اختر کا کردار تقریباً وہی تھا، جو احمد ندیم قاسمی نے پروین شاکر اور صوفی غلام مصطفیٰ تبسّم نے کشور ناہید کی ادبی رہنمائی کرکے ادا کیا تھا۔ فہمیدہ بیان کرتی ہیں کہ کس طرح خالد اختر کی تدفین کے بعد آنے والی رات وہ قبرستان گئیں اور چوکیدار سے گیٹ کا تالا کھولنے کی درخواست کی تاکہ خالد اختر کی قبر پر جاکر خراجِ عقیدت پیش کرسکیں۔ فہمیدہ اور خالد اختر کی دوستی بلاشبہ اُردو ادب کی تاریخ کی ایک طویل دوستی تھی، حالاں کہ دونوں مختلف اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کرتے تھے۔ خالد اختر طنز و مزاح کے بادشاہ تھے اور فہمیدہ ریاض کا اس صنف سے دُور کا بھی واسطہ نہیں تھا۔ فہمیدہ لکھتی ہیں کہ ابھی وہ اپنے کالج کے دوسرے برس ہی میں تھیں کہ اُن کی نظمیں’’فنون‘‘ میں شایع ہونا شروع ہوئیں۔ اسی دَوران اُنھوں نے خالد اختر کے مضامین اور کتابوں پر تبصرے پڑھے اور اُن کی جادوئی نثر کے طلسم میں گرفتار ہوگئیں۔ فہمیدہ نے اختر صاحب کو خط لکھے، جن کے جواب اُنہوں نے بڑی حوصلہ افزائی کے ساتھ دئیے اور اُنہیں’’نوجوان قلم کار دوست‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔ اس طرح ان دونوں کی طویل دوستی کا آغاز ہوا، جو تین عشروں سے زیادہ چلی اور خالد اختر کی وفات پر ختم ہوئی۔ فہمیدہ ریاض بتاتی ہیں کہ ہر خط میں خالد اختر نہ صرف اُن کی حوصلہ افزائی کرتے، بلکہ دیگر لکھنے والوں کے بارے میں اپنے خیالات سے بھی نوازتے۔ مثلاً کرشن چندر اور منٹو دونوں کے پسندیدہ مصنّف تھے، اس لیے اکثر اپنے خطوں میں اُن کا ذکر کرتے۔ فہمیدہ ریاض کا یہ ایک شان دار نثر پارہ ہے، جسے ہمارے ادب کے نصاب میں ضرور شامل کیا جانا چاہیے۔ اس تحریر سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ستّر کے عشرے کے اواخر میں جب اُنہوں نے’’آواز‘‘ کا اجرا کیا، تو اُنہیں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ 1979ء میں جب ذوالفقار علی بھٹّو کو پھانسی دی گئی، تو اُنہوں نے’’آواز‘‘ میں لکھا’’ یہ بھٹّو کا نہیں، بلکہ جمہوریت کا قتل ہے۔‘‘ اس پر ضیاء حکومت ناراض ہوگئی اور فہمیدہ ریاض پر کئی مقدمات قائم کردئیے گئے۔ ایسے میں خالد اختر نے اُن کی بہت مدد کی اور اُن کی ہمّت باندھے رکھی۔ فہمیدہ ضمانت پر رہا ہوئیں، تو خالد اختر نے پاسپورٹ کے حصول میں اُن کی مدد کی تاکہ وہ مُلک سے باہر جاسکیں۔

فہمیدہ ریاض کی جدوجہد کے بارے میں مزید تفصیل اُن کے ایک اور افسانے میں بھی ملتی ہے، جس کا عنوان ’’کیا گلابی کبوتر جیت گئے؟‘‘ ہے۔ آپ بیتی طرز کا یہ افسانہ، 1995ء میں’’آج‘‘ کے انیسویں شمارے میں شایع ہوا تھا۔ وہ کہانی کا آغاز اُس وقت کی نو آزاد شدہ مملکت، قزاخستان کے دَورے سے کرتی ہیں، جہاں اُن کی ملاقات ایک نوجوان مترجّم، گل ناز سے ہوتی ہے۔ اس لڑکی سے مل کر فہمیدہ کو اپنے ایک پرانے پڑوسی یاد آتے ہیں، جن کا نام ملّا یوسف ضیائی تھا اور جو وسط ایشیا سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ دِل چسپ افسانہ، سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد کے وسط ایشیا کے احوال سے آگاہ کرتا ہے اور جنرل ضیا الحق کے دَور کے کراچی سے بھی۔ فہمیدہ بتاتی ہیں کہ ملّا یوسف کے والدین 1917ء میں سوویت انقلاب کے بعد وسط ایشیا سے ہجرت کرکے چین کے علاقے، سنگ کیانگ گئے، مگر تیس سال بعد چین میں کمیونسٹ انقلاب آیا، تو وہ وہاں سے افغانستان منتقل ہو گئے۔ پھر 1978ء میں اُنہیں افغان مہاجرین کے ساتھ پاکستان آنا پڑا اور بالآخر کراچی میں فہمیدہ ریاض کے ہم سائے بن گئے۔ اس افسانے سے پتا چلتا ہے کہ ملّا یوسف کو کس طرح خفیہ ہاتھ پہلے امامِ مسجد اور پھر زکوٰۃ، صلوٰۃ کمیٹی کا سربراہ بناتے ہیں۔

راقم کی فہمیدہ ریاض سے پہلی ملاقات، 1980ء کے عشرے کے وسط میں دہلی میں ہوئی تھی۔ اُس وقت وہ ایک اُردو اور ایک انگریزی کتاب پر کام کررہی تھیں۔ اُن کی انگریزی کتاب’’پاکستانی لٹریچر اور سوسائٹی‘‘ بھارتی قارئین کے لیے لکھی گئی تھی، مگر وہ ایک اوسط درجے کی تخلیق ثابت ہوئی، جس میں پاکستانی ادب اور سماج کا بڑا سطحی سا تجزیہ کیا گیا تھا۔اُن کے اُردو ناولٹ کا نام’’گوداوری‘‘ تھا۔ تقریباً ایک سو صفحات پر مشتمل یہ ناولٹ 1992ء میں’’آج‘‘ کے موسمِ بہار کے شمارے میں شایع ہوا تھا۔ بعدازاں عقیلہ اسماعیل نے اس کا انگریزی میں ترجمہ کیا، جسے آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس نے 2008ء میں آصف فرّخی کے تعارف کے ساتھ شایع کیا۔ یہ ایک مسلم پاکستانی خاندان کی کہانی ہے، جو بھارت میں سیاسی پناہ لے لیتا ہے۔ اس کی مرکزی کردار ایک عورت ہے، جسے ’’ما‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ خاندان بھارت میں آدی واسیوں، بوہری مسلم، کمیونسٹوں، ہندوئوں اور پارسیوں کے مختلف طبقات سے ملتا ہے اور دہلی، ممبئی کے علاوہ مہاراشٹر کے ایک پہاڑی مقام پر بھی جاتا ہے۔ اس کہانی کے مرکزی کردار میاں، بیوی دونوں بائیں بازو کے خیالات رکھتے ہیں، مگر جلد ہی بھارتی معاشرے کے اندرونی تضادات سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ شوہر نام دار، مسلسل اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کس طرح مقامی عورتوں سے تعلقات استوار کیے جائیں، جب کہ ’’ما‘‘ کو نہ صرف بچّوں، بلکہ شوہر پر بھی نظر رکھنی ہوتی ہے۔ یہ ناولٹ بھیمڑی کے ہندو مسلم فسادات کے پس منظر میں لکھا گیا ، جہاں مسلمان جولاہوں کو ہندو شیو سینا کے غنڈوں نے گھیر کر نشانہ بنایا اور قتلِ عام کیا تھا۔ اس طرح ’’گوداوری‘‘ سے 1980ء کے عشرے کے بھارت کا ایک پاکستانی عورت کی نگاہوں سے نظارہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس سیاسی ادب کے علاوہ، فہمیدہ ریاض نے نسائی تناظر میں بھی افسانے لکھے ۔ مثلاً اُن کا ایک افسانہ’’وہ چلی گئی‘‘ ہے، جو ’’آج‘‘ کے پچیس ویں شمارےمیں شایع ہوا تھا۔ اس افسانے میں ایک گھر کی زندگی میں اُس وقت عجیب موڑ آتا ہے، جب بڑی لڑکی گھر چھوڑ جاتی ہے۔ خاندان افسوس کرتا ہے اور قاری کو والدین سے ہم دردی ہوجاتی ہے، مگر افسانے کے آخر میں وہ لڑکی اچانک واپس آجاتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی عشقیہ چکر میں فرار نہیں ہوئی تھی، بلکہ کوہ پیمائوں کے ایک گروہ کے ساتھ شمالی علاقوں میں چلی گئی تھی، جہاں اُس نے خوب تفریح کی اور پھر واپس آگئی۔ اسی طرح کا ایک اور افسانہ’’تکون کے دائرے‘‘ ہے، جو 2004ء میں’’دنیا زاد‘‘ کے گیارہویں شمارے میں شایع ہوا۔ فہمیدہ ریاض اس افسانے میں امریکا میں رہنے والے پاکستانیوں کی کہانی بیان کرتی ہیں، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور دولت مند ہونے کے باوجود آپس کے چھوٹے چھوٹے جھگڑوں سے باہر نہیں نکل پاتے۔ معمولی باتوں پر بہن، بھائی ایک دوسرے سے بات چیت بند کردیتے ہیں اور ایک دوسرے کی برائیاں کرتے رہتے ہیں۔

اور اب کچھ بات کرتے ہیں، فہمیدہ ریاض کے نثری تراجم کی۔ 2005ء میں ’’دنیا زاد‘‘ کے 14 ویں شمارے میں فہمیدہ نے تُرک مصنّف، اورحان پامُک کے ناول’’برف‘‘ کا ترجمہ پیش کیا ، مگر اس سے پہلے ایک تعارف بھی تحریر کیا، جس میں پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک کا موازنہ، تُرکی کی تحریک سے کیا گیا ۔ اس تعارف میں فہمیدہ ریاض نے جگہ جگہ روسی مصنّفوں، جیسے دوستو یفسکی وغیرہ کے حوالے دئیے ہیں، جن سے اُن کی عالمی ادب پر گرفت اور گہرے مطالعے کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی طرح ’’دنیا زاد‘‘ کے 18 ویں شمارے میں وہ مِصر کے نوبیل انعام یافتہ ادیب، نجیب محفوظ کو متعارف کرواتی ہیں۔ اور پھر’’آج‘‘ کے شمارہ نمبر اٹھاسی میں بھارتی مصنّف، وبھوتی نرائن رائے کے ناول ’’گھر‘‘ کا تعارف پیش کرتی ہیں۔ آخر میں فہمیدہ ریاض کی ایک اور تحریر کا حوالہ دینا چاہیں گے، جو ’’فعل متعدی‘‘ کے عنوان سے ’’دنیا زاد‘‘ کے چھبیس ویں شمارے میں شائع ہوئی۔ اس میں اُنہوں نے اپنے اُن تجربات کا ذکر کیا، جو اُنہیں’’اُردو ڈکشنری بورڈ‘‘ کی مدیرِ اعلیٰ بننے کے بعد پیش آئے۔ یہ تحریر پاکستانی افسر شاہی اور اس کے سُرخ فیتوں کی ایک دل گیر تصویر پیش کرتی ہے۔گو کہ فہمیدہ ریاض نے خود کو ایک بڑی شاعرہ کے طور پر منوایا، مگر اُن کا نثری تخلیقات اور تراجم کا دائرہ وسیع ہے۔ اُن کی شاعری پر تو خاصی توجّہ دی جاتی رہی ہے ،لیکن اُن کی نثر نسبتاً وہ شہرت حاصل نہ کرسکی، جو اس کا حق تھا۔

تازہ ترین