• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر انوار احمد زئی

 2018ء کے تناظر میں جب تعلیم کا جائزہ لیتے ہوئے نوجوانوں کی صورت حال کا تجزیہ کرتے ہیں، تو ہمیں یہ ماحول قابل رشک نظر نہیں آتا بلکہ توقع سے بہت کم نظر آتا ہے، اس کے بنیادی اسباب چار ہیں۔

پہلا یہ کہ جولائی میں ہونے والے انتخابات نئے نعروں اور تبدیلی کے دعوئوں کی روشنی میں منعقد ہوئے۔ دوسرے یہ کہ ان انتخابات کے نتائج میں ،جو نئی حکومت سامنے آئی ہے اسے کام یاب کرانے میں نوجوانوں کا کردار زیادہ بااثر اور ممتاز رہا ۔ تیسرے یہ کہ موجودہ حکومت ہر شعبے میں تبدیلی کے اعلانات کے ساتھ اپنے دعوئوں اور وعدوں کو سامنے لارہی ہے اور چوتھی اور آخری بات یہ کہ مرکز میں، جو حکومت ہے اس کا عملی اثر سندھ اور بلوچستان میں براہ راست نہیں ہے، اس لیےمرکزی حکومت کے منصوبوں کو ان صوبوں میں مکمل خودمختاری کے ساتھ نہیں روبہ عمل لایا جاسکتا۔اس کی سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ وفاقی وزارت تعلیم نے آتے ہی اعلان کیا تھاکہ، تمام صوبوں میں ایک نصاب، ایک نظام، ایک پالیسی اور یکساں منصوبہ سازی ہوگی، مگر اس اعلان کے فوری بعد صوبوں نے، خصوصاً صوبہ سندھ نے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور مرکزی حکومت کو یاد دلایا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تعلیم کی منصوبہ بندی اور نصاب سازی کا کام بلاشرکت ِ وفاق، صوبوں کی ذمے داری ہے۔ اس تنازعے کے بعد وفاقی وزارت کے دعوے سرد پڑگئے ، لیکن دوسری طرف صوبوں نے 2018ء کے سال کے دوران بھی دستور کے آرٹیکل 25-A کے تقاضے پورے نہیں کیے، جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’’پانچ سال سے سولہ سال تک کے تمام لڑکے لڑکیوں کی مفت اور لازمی تعلیم کی ذمےداری صوبوں کی ہوگی۔‘‘ اس ضمن میں کہا جاسکتا ہے کہ مارچ 2017ء میں سندھ اسمبلی نے اپنے دورانیے کے آخری اجلاس میں سندھ میں لازمی اور مفت تعلیم کا ایکٹ منظور کیا گیاتھا، مگر اس پر عمل پانچ سال گزرنے کے باوجود بھی نہ ہوسکا، حالاں کہ صوبہ سندھ میں پچھلے تین انتخابی مدتوں سے حکومت ایک ہی جماعت کی رہی ہے۔ یوں گیارہ سال کے عرصے میں سندھ کی صوبائی حکومت 22 لاکھ ان طلباء کو اسکول کے اندر نہ لاسکی، جن کی تعداد ملک کے تناظر میں دو کروڑ، دو لاکھ ہے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ وفاق اور صوبوں میں انتظامات اور اختیارات کی تقسیم کے باعث ملک میں نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان نہ ہوسکا، جب کہ اس وقت اگر کسی تعلیمی پالیسی کو سامنے رکھا جائے، تو اس کا اعلان ستمبر 2009ء میں ہوا تھا اور اس میں اہداف بیان کرتے ہوئے یہ کہا گیا تھا کہ ملک میں شرح خواندگی 2015ء تک 85 فی صدہوجائے گی اور 2015ء ہی تک تعلیم کے شعبے میں جی ڈی پی کا 7فی صد خرچ کیا جائے گا، جب کہ 2018ء کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کی شرح خواندگی 59 فی صد اور جی ڈی پی کی شرح 2.1 فی صد ہے۔ اس جائزے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ 2.1فی صدکی شرح سے جی ڈی پی مختص کی جائے گی، تو 40فی صد ناخواندہ آبادی اور پھر اس میں اسکول جانے کی عمر میں آتے ہی تمام لڑکے ، لڑکیوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کا انتظام کیسے ہوگا، حالاںکہ ہم نے ڈیکار کانفرنس میں اب سے 20 سال قبل یہ تحریری وعدہ کیا تھا کہ ہم 2015ء تک پرائمری تک لازمی تعلیم کا ہدف حاصل کرلیں گے۔

اس ضمن میں نوجوانوں کی صورت حال کیا ہے؟کےاس موضوع پرکچھ بتانے سے قبل ایک ا ہم نکتے کو زیربحث لانا ضروری ہے، اور وہ ہے ملک کی’’ شرکت کی شرح‘‘ جو ترقی یافتہ ملکوں میں سوفی صد ہوتی ہے، ہمارے یہاں اس کی شرح بھی 80فی صد سے زیادہ نہیں ہے ،جب کہ اسکولوں میں Retention 60 فی صد اور 20فی صد Dropout rate ہے۔ ان اعداد و شمار کے بعد اور سرکاری اسکولوں کی حالت زار کے پس پردہ گھوسٹ اساتذہ اور گھوسٹ اسکولوں کاتناظر خوف ناک ہے ،اس لیے کہ اسکولوں میں بنیادی نوعیت کی سہولتیں نہ ہونے کے باعث ، ہماری نوکرشاہری کی لاپرواہی کے سبب سرکاری اسکول اسکول ہی نہیں رہے ۔ ہر چند کہ ان اسکولوں میں فیس معاف نہیں ہے اور طالب علموں کو کتابیں بھی مفت دی جارہی ہیں ،مگر ان سے اسکول کی تعلیم تو معیاری نہیں ہو سکتی۔ اس صورت حال کا فطری نتیجہ یہ ہے، کہ ملک بھر میں نجی تعلیمی اداروں کی فراوانی ہے اور والدین اپنے بچوں کے مستقبل سے فکرمند ہوکر پرائیویٹ اسکولوں میں تعلیم دلوارہے ہیں۔ ان میں غریب، متوسط طبقے کے بچے بھی شامل ہیں۔اس صورت حال کا پورا فائدہ نجی اسکول اٹھارہے اور روزانہ فیسوں کی شرح بڑھا کر تعلیم کو تجارت کا روپ دے رہے ہیں۔ 2018ء کے تناظر میں سب سے اہم واقعہ یہ ہے کہ نجی تعلیمی اداروں کی جانب سے ہر بار من مانے اضافے سے تنگ آکر والدین کو عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا ، پہلی بار ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو مداخلت کر کے اسکولوں کو پابند کرنا پڑا کہ وہ فیسوں میں5 فی صد سے زیادہ اضافہ نہیں کرسکیں گے۔

2017-2018ء کے بجٹ کے حوالےسے تعلیمی سہولتوں کا جائزہ لیا جائے، تو یہ دیکھ کر دکھ ہوتا ہے کہ، صرف صوبہ سندھ میں تعلیم کے لیے بجٹ کا 24فی صد مختص تو کیا گیا ،اسمبلی میں بیٹھے اراکین کو بہ ظاہر مطمئن بھی کردیا گیا، لیکن ہوا یہ ہے کہ اس مختص کردہ کے مقابلے میںحاصل کی شرح 70فی صد رہی، گویا جو رقم مختص کی گئی تھی، وہ رات کے اندھیرے میں خودبہ خود کم کردی گئی اس پر ستم یہ کہ دی جانے والی رقم میں سے بھی استعمال ہونے والی رقم کی شرح نصف رہی ،یوں بہ نظرِ غائر دیکھا جائے ،تو جو رقم تعلیم کے لیے مخصوص کی گئی تھی ،اس کا صرف 35 سے 40 فی صد تعلیم پر خرچ کیا گیا اور اس میں بھی 30 فی صد حصہ تنخواہوں کی ادائی یا غیرترقی یافتہ بجٹ کا حصہ رہا۔ اس طرح 2018ء میں کسی قسم کی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آرہی۔

2018ء میں تعلیم اور نوجوانوں کی صورت حال پر بات کرتے ہوئے ،یہ یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان دوسرے ممالک کے ساتھ ’’Sustainable Development Goal Agenda ‘‘کا دستخط کنندہ ہے ، جس کے تحت نوجوانوں کو انقلابی تبدیلیوں کے ساتھ جدید دوراور حالات کے مطابق تعلیم کا بندوبست کرنا لازمی ہے، تاکہ وہ دنیا میں ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ اور مسابقت کے لیےتیاری کریں۔ اس طرح SDG-4 کے تحت پاکستان کو 2018ء تک معیاری تعلیم اورتاحیات سیکھنے کے عمل کے لیے مختلف سطحوں ، مختلف زاویوںکے ساتھ نوجوانوں کی ضروریات کے تحت تعلیم کا اہتمام کرنا تھا۔ اس معاہدے کے تحت نوجوانوں کے لیے کی گئی ،اس منصوبہ بندی کی نگرانی کا بھی موثر انتظام کرنا تھا۔ پاکستان چوں کہ عالمی سطح پر کیے گئے وعدے کی پاسداری نہ کرسکا ، اس لیے اس وقت تعلیم سب کے لیے کے تحت جو دستاویز Development Index کے نام سے شائع ہوئی ہے ،اس میں پاکستان کی پوزیشن سری لنکا کے مقابلے میں انتہائی کم ہے اور یہی صورت حال Gross Enrolment Ration کے تحت اسکول میں داخل ہونے کی عمر کے داخلوں کے حوالے سے بھی بے حد کم ہے ، اس کا اثر تمام تعلیمی مرحلوں پر پڑرہا ہے، جس کے باعث آج کا نوجوان بے سمت سفر کرنے پر مجبور ہے۔ اسی طرح Global Compatitiveness Index یعنی( GCI )کے اعداد و شمار میں بھی، پاکستان کی کارکردگی انتہائی کمزور بتائی گئی ، یہاں تک کہ اسے علاقے کے دیگر ممالک یعنی ہندوستان، چین، بنگلہ دیش، سری لنکا اور ملائیشیا سے تقابل میں کمزور ترین بتایا گیا ہے۔

پاکستان میں نوجوانو ں کا سب سے بڑا مسئلہ بہتر اور معیاری تعلیم ، اس کے بعد بغیر سفارش یا رشوت کے ملازمت کا حصول ہے۔ اس موضوع کو ہم Human Development Index) HDI)سے ناپتے ہیں، گویا افرادی ترقی کے میزانیے سے اپنی جگہ کا تعین، اس اعتبار سے HDI کی جو رپورٹ 2018ء کے تناظر میں سامنے آئی ، جس کے اعداد و شمار کا انحصار 2017ء تک کے سال پر محیط ہے اس میں 189ممالک میں پاکستان کا نمبر 150واں ہے، جب کہ ہندوستان 130 نمبر پر، بنگلہ دیش 136ویں نمبر، نیپال 149ویں نمبر پر ہے گویا ہم نیپال سے بھی ایک درجہ کم ہیں، جب کہ سری لنکا کا نمبر 76واں ہے۔ اس گمبھیر اور تشویش ناک صورت حال کا براہ راست اثر نوجوانوں پر پڑرہا ہے، حالاں کہ ہمیں معلوم ہے کہ پاکستان کی کل آبادی کا غالب حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، اس لیے تناسب کے اعتبار سے اکثریت کی حامل اور ہمارے مستقبل کی اُمید آبادی کو فرسٹریشن کا شکار ہوجانا، ملکی اقتصادی حالت کے ساتھ ان کا امن و امان کی جانب بھی مڑجانا فطری ہے۔ غیرمطمئن اور ناراض نسل نو اپنی جگہ بنانے کے لیے تخریب پسند بلکہ تخریب کار عناصر کے ہاتھوں میں بک جانے یا ان کے کھیل کا حصہ بننے میں شعوری یا لاشعوری محرکات کے زیراثر ،جوکر گزرتی ہے، اس کی ذمے داری تعلیم سے وابستہ منصوبہ سازوں کے کاندھے پر آتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم تعلیم کے شعبے کو پُراثر بنانے کے لیےکچھ نہیں کررہے، بلکہ ملک میں رائج چار نظاموں کی رو سے سماجی بُنت میں رخنہ اندازی ہورہی ہے۔ ایک طرف رسمی طور پر اُردو میڈیم، سندھی میڈیم یا مقامی زبانوں کے حامل اسکولز ہیں ،تو دوسری طرف انگلش میڈیم اسکول، تیسری جانب اے لیول اور او لیول کے مہنگے تعلیمی ادارے ہیں، جن میں اشرافیہ کے بچے پڑھتے ، پھر فارغ التحصیل ہو کر کم درجے کی علمیت رکھنے والی اور کم وسائل کے حامل عوام پر حکمرانی کرتے ہیں، ان کے ہاتھ میں اسمبلی کی آبائی نشستیں بھی ہوتی ہیں اور صنعتی یونٹ، کاروباری ادارے اور سماجی برتری بھی، جب کہ چوتھی طرف مدارس سے فارغ ہونے والے نوجوان ہیں، جن کا نصاب جدا ، تعلیمی ماحول ، فکر اور تربیت بھی مختلف ہے،مگر چوں کہ ان مدارس میں تعلیم مفت ہے، قیام کرنے والے طلباءکا کھانا مفت اور کتابیں بھی مفت ہیں ،اس لیے والدین اپنے بچوں کو وہاںداخل کرواتے ہیں، جو ظاہرہےاچھی بات ہے کہ اسے قابل اعتراض صورت نہیں سمجھنا چاہیےالبتہ قابل اعتراض حالت اس وقت ہوجاتی ہے ،کہ جب ان مختلف نوعیت کے ماحول رکھنے والے اداروں سے فارغ ہو کر نوجوان ایک دوسرے کے مقابل آتے ہیں ،توا ن میں اختلاف رائے کی فضا بہت جلد شدت میں بدل کر تصادم فکری میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ یہ صورت حال اس لیے بھی پیدا ہوئی کہ حکومت نے اوّل تو کوئی تعلیمی نظام مرتب ہی نہیں کیا اور عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، جائیکا( JICA )اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے دبائو میں آکر تعلیم میں رسائی کا تو خیال کیا ،مگر معیارکا نہیں ۔ یہ بحث اب شدت اختیار کرگئی ہے کہ طلباء کے لیے داخلوں کی فضا کو افضلیت دی جائے ، معیار پر سمجھوتہ کرلیا جائے یا معیار تعلیم پر سمجھوتہ کیے بغیر اسکول قائم ہوجائیں۔ اس بحث کا نتیجہ یہ ہے ،کہ ہمارا آج کا نوجوان نقل کر کے یا غیرقانونی حربے اختیار کر کے اسناد تو حاصل کرلیتا ہے ، مگر اس میںنام کی بھی صلاحیت نہیں ہوتی۔ تقریباًہر حکومت نے غلط اعداد و شمار اور کاغذی کارکردگی ظاہر کر کے تعلیم کومذاق بنادیا ،جس کا اثر نوجوانوں پر براہ راست پڑرہا ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ،اب وہ بغاوت پر آمادہ نظر آتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہزار بحث کے باوجود تعلیم ضرورت تو ہے، مگر کس قسم کی ضرورت یہ واضح نہیں ہے۔ ایک وقت میں تعلیم کو سرمایہ کاری نہیں سمجھا جاتا تھا ،بلکہ کتابیں تہذیب کی علامت تھیں ، درس گاہیں تربیت کی جگہیںتھیں، جہاں کردار سازی اور انسانیت سازی کا کام ہوتا تھا۔ آج اسکولوں اور تعلیمی اداروں میں مغرب زدہ ماحول کے فروغ ہی کو ترقی سمجھا جارہا اور تسلیم کیا جارہا ہے۔ اس لیے آج کا نوجوان اپنے تعلیمی ادارے کو سند لینے کا ٹھکانہ سمجھتا ہے ،جب کہ اس کا کمپیوٹر، انٹر نیٹ، موبائل اور سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ہی اس کے استاد ہیں، اسے علم حاصل کرنے، قابل بننے سے کوئی سرو کار نہیں بلکہ، وہ بہتر کیریئر اپنانے کے لیے بس زیادہ نمبرز اور اچھےگریڈز حاصل کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ اس صورت حال سے نمٹنے، ناراض، محروم اور غیریقینی کی کیفیت میں مبتلا نوجوانوں کو بامقصد اور کارآمد تعلیم کے مواقع دینے کے لیے حکومت کو اورخصوصاً اس حکومت کو جو آئی ہی تبدیلی کے نعرے پر ہے تعلیم میں تبدیلی کے لیے قابل عمل منصوبہ دینا ہوگا ،جس کے لیے تعلیمی ایمرجنسی کے بغیر کام آگے نہیں بڑھ سکے گا، مگر یہ تعلیمی ایمرجنسی صرف کاغذ پر نہ ہو بلکہ واضح اہداف کے اعلان کے ساتھ نگرانی کے عمل سے گزار کر اپنے اہداف کے حصول ہی کو نوکرشاہی یا منصوبے کے عمل درآمد کے ذمے داری کی ترقی سے مشروط کیا جانا ضروری ہے۔ ان اہداف میں مارکیٹ کی طلب کے مطابق نصاب کی تدوین، اساتذہ کی تربیت، مزید تعلیمی اداروں کے قیام، پانچ سال سے سولہ سال تک کے لڑکے، لڑکیوں کی مفت اور لازمی تعلیم کا اہتمام، اسکولوں کی مختلف سطحوں کے درمیان فکری بُعد کو کم کرنا، مدارس میں جدید تعلیم کا اہتمام اور عام اسکولوں میں دینی تعلیم کو یقینی بنانا، ٹیکنیکل اداروں کا قیام، سہولتوں کے اعتبار سے سرکاری اسکولوں کو نجی اسکولوں کی سطح پر لانا، والدین اور سماجی کارکنان اور منتخب سیاسی عناصر پر مشتمل ہر سطح کی نگراں کمیٹی کی تشکیل، اسکول مینجمنٹ کمیٹی کے ذریعہ اساتذہ اور والدین کی اجتماعی عمل داری اور پھر اس سارے کام کی سالانہ رپورٹ کو بجٹ سے پہلے اسمبلیوں میں پیش کیا جانا۔ یہ امور سامنے لائے گئے ،تو رونے رلانے کی منزل سے آگے بڑھ کر تعلیم کو گھوسٹ نظام سے آزاد کرانا ہوگا۔ یہ کام نوکرشاہی نہیں کرسکتی اس کے لیےاچھی شہرت اور بہتر خدمت کی تاریخ اور حوالہ رکھنے والے ماہرین تعلیم کوتھنک ٹینک کی صورت میں سامنے لایا جائے اور انہیں بااختیار بنا کر تعلیم میں سے سیاسی اثر اور دبائو کو یکسر ختم کیا جانا چاہیے، تعلیمی افسران کی تعیناتی کو سفارش کے بغیر کیا جائے اگر ان کو مختلف اختیار دے کر ان کے دائرہ کار کے تعلیمی اداروں کی کارکردگی سے ان کی ترقی اور تعیناتی کو مشروط کیا جائے ،تو ہمارا فکرمند نوجوان طبقہ خودبہ خود مطمئن ہوسکے گا ۔ اس طرح وہ اور اس کے والدین پورے نظام ِتعلیم کو اپنا سمجھ سکیں گے۔ اس ضمن میں عرصہ دراز سے تبدیل نہ ہونے والے نصاب کی ازسرنو تشکیل وقت کا سب سے اہم نکتہ ہے۔ اسی طرح برسوں قدیم امتحانی طریقہ ٔ کار کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا، تاکہ ہر نوجوان اپنےتشخیصی نظام پر اعتماد کرسکے اور اگلی منازل تک رسائی کو اپنا حق جان سکے۔

تازہ ترین