بات چیت: مطلوب حسین
عکّاسی: شعیب احمد
یوں توانسان ہمیشہ ہی خُوب سے خُوب تر کی تلاش میں رہتا ہے، لیکن جب معاملہ ملبوسات کے انتخاب کاہو، تو معیار کچھ اور بھی بُلند ہوجاتا ہے کہ پھر تو بات پوری پرسنالٹی کی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مختلف برانڈز کی جانب سے مَرد و خواتین کی پسند کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے آئے روز نت نئے ڈیزائن متعارف کروانے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یوں تو ہماری فیشن انڈسٹری میں کئی معروف نام جگمگا رہے ہیں، لیکن آج جنگ، سنڈے میگزین کے مقبولِ عام سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘میں ہم آپ کی ملاقات جس ڈیزائنر سے کروارہے ہیں، انہوں نے لندن میں،زمانۂ طالب علمی میں قومی لباس، قمیص شلوار متعارف کروایا اور آج ان کی بدولت دُنیا بَھر کے پاکستانی اور غیر مُلکی افراد بھی اس لباس کو فخر سے زیبِ تن کررہے ہیں۔جی بالکل یہ ذکر، پاکستان کے ایک نام وَر فیشن ڈیزائنر، ندیم احمد کا ہے، جو ایک معروف مردانہ برانڈ کے مالک ہیں۔ لیجیے، ان سے ہونے والی گفتگو قارئین کی نذر ہے۔
س:آپ نے کب اور کن حالات میں فیشن انڈسٹری میں قدم رکھا؟
ج: 1998 ء کی بات ہے، مَیں انگلینڈ میں رہایش پزیر تھا،تب زیادہ تر پاکستانی اپنا قومی لباس زیبِ تن کرنے میں کافی عار محسوس کرتے تھے، تب مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ اپنے قومی لباس کو عام کیا جائے۔سو، کام کی ابتدا ٹریڈیشنل آئٹمز ہی سے کی، جن میں خواتین اور مَرد دونوں کے لیے ملبوسات اور روایتی زیورات وغیرہ شامل تھے۔ ملبوسات خاص طور پر پاکستان سے سلوائے جاتے۔ ہمارے ملبوسات بھارت، بنگلا دیش اور ماریشیئس میں بہت پسند کیے گئے، تو حوصلہ بڑھا، پھر اللہ کے فضل سے ایک وقت ایسا آیا کہ لندن سے بریڈ فورڈ تک تمام شہروں میں شلوار قمیص کے نت نئے انداز متعارف ہوتے چلے گئے۔ پہلے صرف اسلامی تہواروں ہی پر شلوار قمیص خریدے جاتے تھے، اب تو شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں بھی ان کا استعمال ہو رہا ہے۔
س:آپ نے تعلیم کہاں تک حاصل کی؟
ج:صرف گریجویشن(بی بی اے)ہی کرسکا،پھر بزنس کی طرف آگیا،تو یہ سلسلہ مزید جاری نہ رہ سکا۔
س:بچپن میں کیا بننے کا خواب دیکھا کرتے تھے؟
ج:مجھے بچپن سے بزنس مین بننے کا شوق تھا، جس کے لیے کم عُمری ہی سے منصوبہ بندی بھی شروع کردی تھی۔
س:بچپن کیسا گزرا، شرارتیں کرتے یا مزاج میں سنجیدگی کا عنصر غالب تھا؟
ج:بچپن تو بس شرارتیں کرتے ہی گزر گیا۔
س: فیلڈ میں آنے کے بعد کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
ج:مَیں نے طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کیا، لیکن سب سے اچھا یہ رہا کہ بعض اچھے لوگوں نے میرا بہت ساتھ دیا۔ مَیں نے جہاں کہیں کوئی غلطی کی، تو انھوں نے نشان دہی کی، اسی لیے سیکھنے کو بہت کچھ ملا۔
س:پہلی آمدنی کتنی تھی؟
ج:پہلی آمدنی تو یاد نہیں، البتہ ابّا نے جو نصیحت کی کہ ’’بیٹا! پوری توجّہ اور ایمان داری سے کام کرنا‘‘ وہ آج تک ذہن پر نقش ہے اور اللہ کا شُکر ہے کہ آج اپنی لگن اور محنت کا پھل کھارہا ہوں۔
س: فیشن انڈسٹری میں آپ کا برانڈ خاصامعروف ہے، تو ذرا کوالٹی اور ورائٹی کے حوالے سے بھی کچھ بتائیں؟
ج: قمیص شلوار میں ہم نے خاصی جدّت و ندرت کی، جس کی وجہ سے قومی لباس اب بطور فیشن بھی استعمال کیا جارہاہے۔ مردانہ لباس میں ڈیزائننگ شروع کی، تھوڑی کڑھائی کے ساتھ پائپنگ کا اضافہ کیا، جسے بے حد پسند کیا گیا۔ پھر ہم مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والوں کی بھی پسند کا خاص خیال رکھتے ہیں۔ جیسے پنجاب کے رہایشی بھاری کام والا لباس پسندکرتے ہیں، تو وہاں کے لیے ہم نے خصوصی طور پر بھاری کڑھت والے ملبوسات متعارف کروائے۔تاہم، ہمارا کام پاکستان کی نسبت انگلینڈ میں زیادہ ہے۔
س:کیا پاکستان، بھارت، بنگلا دیش کے علاوہ دیگر مُمالک کے باشندے بھی شلوار قمیص پہننا پسند کرتے ہیں؟
ج: جی بالکل، دیگر مُمالک، خاص طور پر نائیجیریا اور افریقا کے باشندے قمیص شلوار اور شیروانی بطور فیشن استعمال کرتے ہیں۔ شادی بیاہ کی تقریبات یا مختلف گیٹ ٹو گیدرز میں بھی یہی لباس منفرد نظر آنے کے لیے زیبِ تن کیا جاتا ہے،جب کہ اب گورے بھی مختلف تقریبات میں قمیص شلوار استعمال کرنے لگے ہیں۔
س: مغربی مُمالک میں پاکستانی فیشن کی کس قدر ڈیمانڈ ہے؟
ج:مغربی مُمالک میں بھی پاکستانی ملبوسات کی بہت ڈیمانڈ ہے اور اس اعتبار سے کینیڈا اور امریکا بہت بڑی مارکیٹ ہے،لیکن بدقسمتی سے وہاں ہمارے ڈیزائنرز کی عدم موجودگی کا فائدہ پڑوسی مُلک اُٹھا رہا ہے اور وہاں مقیم زیادہ تر پاکستانی، بھارتی ڈیزائنرز ہی کے کپڑے استعمال کرتے ہیں۔اگر ہماری حکومت دِل چسپی لے، تو ایکسپورٹ بہت زیادہ بڑھ سکتی ہے۔پھر حکومتی سطح پر اگر ہمیں سپورٹ ملے گی، تو کام کا دائرہ بھی وسیع ہوگا۔روزگار کے مواقع میسّر آئیں گے،تو بےروزگاری کی شرح بھی کم ہوگی۔
س:کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں فیشن ڈیزائننگ کےمزید انسٹی ٹیوٹس ہونے چاہئیں؟
ج:جی بالکل، اس وقت دو تین ہی اچھے اور بڑے انسٹی ٹیوٹس ہیں، جو فیشن ڈیزائننگ کی تربیت دے رہے ہیں اور یہاں کے تربیت یافتہ لڑکے اور لڑکیاں اچھا کام بھی کررہے ہیں۔مَیں سمجھتا ہوں کہ اب فیشن انڈسٹری کو مُلک میں وسعت دینی ہوگی، کیوں کہ یہاں کام بہت ہے۔
س:بزنس کی کام یابی کا رازکیا ہے؟
ج: ابتدا سے لے کر آج تک مَیں نے کبھی رنگ، سلائی، ڈیزائن اور کپڑے کے بہترین معیار پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا، یہی وجہ ہے کہ پاکستان، بلکہ یورپ سے لے کر امریکا تک کئی مُمالک میں ہمارے ملبوسات ڈیمانڈ کے ساتھ فروخت ہوتے ہیں۔
س:کراچی میں کام کے حوالے سے کیا کہیں گے؟
ج: جب کراچی میں کام کا آغاز کیا، تو اس وقت یہاں خاصی بدامنی تھی، تاہم اب حالات سازگار ہیں۔یہاں کے عوام، خاص طور پر خواتین بغیر کسی ڈر وخوف کے خریداری کررہی ہیں۔ویسے ہماری زیادہ خریدار خواتین ہی ہیں، جو عموماً اپنے بھائیوں، بیٹوں، شوہروں یا دیگر افراد کے لیے خریداری کرتی ہیں۔
س: کیامُلکی معیشت کم زور ہونے کے فیشن انڈسٹری پر بھی کچھ اثرات مرتّب ہوئے ہیں؟
ج: ہاں، ہر سال دو سے تین ماہ کے لیے پاکستان میں ایسا وقت آتا ہے، جب سیل خاصی کم ہوجاتی ہے،لیکن اللہ کا شُکر ہے کہ یہ صورتِ حال مستقل نہیں رہتی۔
س:فیشن شو زکے حوالے سے بھی کچھ بتائیں؟
ج: فیشن شوز کے حوالے سے یہ بہت اچھا وقت ہے،کیوں کہ آج سے قریباً بیس برس قبل انگلینڈ میں پاکستانیوں کی تعداد نسبتاً کم تھی۔اب وہاں ہماری فیشن انڈسٹری کی ڈیمانڈ بہت بڑھ چُکی ہے۔لوگ آن لائن شاپنگ بھی کررہے ہیں،لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ فیشن انڈسٹری کو فروغ دینے کے لیے مختلف فیشن شوز کا انعقاد کرے ،تاکہ پاکستانی ملبوسات کو مزید پزیرائی ملے۔اگرچہ ہم ’’اپنی مدد، آپ‘‘ کے تحت لندن میں موجود دوستوں کے ساتھ مِل کر فیشن شوز کرتے رہتے ہیں،لیکن حکومتی سطح پر ایسے شوز منعقد کرکے فیشن انڈسٹری کو مزید ترقّی دی جاسکتی ہے، کیوں کہ جہاں جہاں بھی ایشیائی آبادی ہے، وہاں انڈین شوز منعقد ہوتے ہیں اور انہیں ان کی حکومت بھی بہت سپورٹ کرتی ہے۔
س:زندگی سے کیا سیکھا؟
ج: یہی کہ جو کام ایمان داری سے شروع کیا جائے، اللہ کی طرف سے مدد ملتی ہے اور کئی مشکل کام اتنی آسانی سے ہوجاتے ہیں، جن کے بارے میں ہم کبھی سوچ بھی نہیں سکتے۔
س:زندگی میں کس کے احسان مند ہیں؟
ج: بزنس کی ابتدا میں لندن کے چند دوستوں نے میرا بَھرپور ساتھ دیا، اُن سب کا تاعُمر احسان مند رہوں گا۔
س:زندگی میں جو چاہا، پالیا یا کوئی خواہش تشنہ ہے؟
ج:خواہشات تو کسی کی بھی سو فی صد پوری نہیں ہوتیں ،لیکن اللہ تعالی کا کرم ہے، جس نے میری کئی خواہشیں پوری کیں۔بس اب فلاحی امور انجام دینے کی اِک خواہش باقی ہے۔
س:زندگی کا کون سا دَور سب سے اچھا لگتا ہے؟
ج: نوجوانی میں شب و روز محنت کی، اس لیے وہ دَور دیگرنوجوانوں کی طرح نہیں گزار سکا۔ اب میرے بیٹے معاذ نے کام سنبھال لیا ہے،تو خود کو بہت ریلیکس محسوس کرتا ہوںاور سمجھتا ہوں کہ یہی میری زندگی کےاچھے وقتوں میں سے ایک بہترین وقت ہے۔
س:کام یاب زندگی گزارنے کا سُنہرا اصول،آپ کے نزدیک کیا ہے؟
ج:مَیں سمجھتا ہوں ،ہر انسان اپنی زندگی میں ناکامی کا سامنا ضرور کرتا ہے،جس سے اگر کچھ سیکھا جائے ،تو وہی ناکامی ہماری طاقت بن جاتی ہے۔میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا،لہٰذا کام یاب ہونے کے لیے ناکام ہونا ضروری ہے۔
س:زندگی میں اگر کسی اور مُلک جا بسنے کا موقع ملے، تو کہاں رہنا پسند کریں گے؟
ج: میرا زیادہ وقت انگلینڈ میں گزرا ہے اور وہاں میرا حلقۂ احباب بھی وسیع ہے، تو پاکستان کے بعد انگلینڈ ہی میں رہنا پسند کروں گا۔
س: شاہ خرچ ہیں یا کنجوس…؟
ج:خرچ کرنے میں میانہ روی سے کام لیتا ہوں۔یعنی نہ شاہ خرچ ہوں اور نہ ہی کنجوس۔
س:آپ کے دوستوں کا کہنا ہے کہ آپ کھانا بہت اچھا بنالیتے ہیں؟
ج: اصل میں جب مَیں لندن میں زیرِ تعلیم تھا، تو ہم چند بیچلرز ساتھ رہتے اور باری باری کھانا بناتے تھے۔ مَیں پلاؤ اور کڑاہی اچھی بنالیتا ہوں۔چوں کہ کھانے پکانے کا شوق ہے، تو کبھی کبھار اتوار کو اہلِ خانہ اور دوستوں کو بھی کچھ نہ کچھ بناکے کھلا دیتا ہوں۔
س:کتب یا شاعری سے کچھ شغف ہے یا صرف پیسے کمانے میں مصروف ہیں؟
ج:کاروباری مصروفیت کے سبب کتب اور شاعری سے ذرا کم ہی لگاؤ رہا،لیکن اب موقع ملاہے، تو لگائو ہوجائے گا۔
س: سیاست کے بارے میں کیا خیال ہے؟
ج:مجھے سیاست سے کوئی خاص دِل چسپی تو نہیں، لیکن اگر زندگی اس طرف لے جائے،تو پھر اس بارے میں بھی سوچیں گے۔
س:اگر آپ کو کوئی عہدہ مل جائے، تو پہلا کام کیا کریں گے؟
ج: فوراً ہی کرپٹ سسٹم ختم کردوں گا۔
س: فیصلہ کرتے ہوئے دِل کی سُنتے ہیں یا پھر دماغ کا کہا مانتے ہیں؟
ج: یہ تو فیصلے کی نوعیت پر منحصر ہے، اس لیے کبھی دِل کی سُن لی، تو کبھی دماغ کا کہا مان لیا۔ تاہم،زیادہ تر دماغ ہی کا کہا مانتا ہوں۔
س:کھیلوں سے دِل چسپی ہے؟
ج:جی بالکل، اسپورٹس سے خاصی دِل چسپی ہے، بالخصوص ہاکی کو سپورٹ کرتا ہوں اور میرا خیال ہے کہ اگر ہاکی سےسیاست ختم ہوجائے، تو اس کھیل کا احیاء ہوجائے گا۔
س:مستقبل قریب میں پاکستانی فیشن کے حوالے سے کیا بڑا کام کرنے جارہے ہیں؟
ج:ہمارا برانڈ جلد ہی امریکا میں’’سِلک اسٹائل فیشن ویک‘‘ کے نام سے ایک فیشن شو کا انعقاد کررہا ہے، جس کے ذریعے ہم پاکستانی ملبوسات کے نت نئے ڈیزائنز متعارف کروائیں گے۔اس سلسلے میں تقریباً تمام تیاریاں مکمل ہوچُکی ہیں ۔
س:آپ کی کوئی انفرادیت؟
ج:میری انفرادیت ملن ساری ہے۔
س: کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
ج: مَیں پاکستانیوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اپنے مُلک کے تیار کردہ ملبوسات استعمال کریں اور یہ بات ذہن سے نکال دیں کہ باہر سے آنے والی پراڈکٹس ہی معیاری ہوتی ہیں۔ مَیں نے بڑے بڑے غیر مُلکی برانڈز استعمال کرکے دیکھے ہیں، ان کے نہ صرف رنگ خراب ہوجاتے ہیں، بلکہ سلائی بھی نکل جاتی ہے۔