• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم بڈھوں کی دنیا آپ کی دنیا سے مختلف ہوتی ہے۔ آپ سے مراد ہے بچے، نوجوان، جوان اور ادھیڑ عمر کے لوگ ۔ ہماری دنیا آپ کی دنیاسے کتنی مختلف ہے، اس کا آپ اندازہ تک نہیں لگا سکتے ۔ ہم بڈھوں کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ ہم بڈھوں نے آپ کی دنیا دیکھی ہے۔ یو ں کہوں کہ ہم بڈھوں نے آپ کی دنیا میں جی کردیکھا ہے۔ اس لیے ہم بڈھے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم بڈھوں کی دنیا آپ کی دنیا سے نرالی ہوتی ہے۔ قطعی مختلف ہوتی ہے۔ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ جب آپ نے ہماری دنیا نہیں دیکھی ہے، تو پھر ہم بڈھوں نے آپ کی دل پذیر دنیا کیسے دیکھی ہے؟ مودبانہ آپ کے گوش گزار کردوں کہ ہم بڈھے پیدائشی بڈھے پیدا نہیں ہوئے تھے۔ ہم نوزائیدہ ننھے منے بچےتھے جب اس دنیا میں آئے تھے ۔ پھر لڑکے بنے تھے۔ لڑکپن سے جوان ہونے کے درمیان ہم نوجوانی کے دور سے گزرے تھے۔ یہ جو کہتے ہیں کہ جوانی دیوانی ہوتی ہے، کچھ غلط نہیں ہے۔ مگر نوجوانی مستانی ہوتی ہے۔ یہ وہ زمانہ ہوتا ہے جب ہم شناختی کارڈ کے حقدار بنتے ہیں۔ورنہ اس سے پہلے ہماری کوئی شناخت نہیں ہوتی ۔ شناختی کارڈ مل جانے کے بعد ہم دنیا میں بہت کچھ کرنے کے قابل سمجھے جاتے ہیں۔ مثلاً ہم بینک اکائونٹ کھول سکتے ہیں۔ ہم موٹر سائیکل، کار، لاری، ٹرک۔ ٹریکٹر،ریل گاڑی اور ہوائی جہاز اور پانی کا جہاز چلانے کا لائسنس حاصل کرسکتے ہیں۔ یاد رہے کہ بیل گاڑی، گدھا گاڑی، اونٹ گاڑی اور تانگہ چلانے کے لیے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔ آپ کو شناختی کارڈ کی بھی ضرورت نہیں پڑتی۔ آپ دس برس کے ہوں یا سو برس کے۔ آپ بیل گاڑی چلا سکتے ہیں۔ ایک اور اہم بات بھی آپ کو یاد رکھنا چاہیے۔ بغیر لائسنس کے آپ کسی قسم کا کوئی ہتھیار اپنے پاس نہیں رکھ سکتے، سوائے کلہاڑی کے۔ ریوالور، پسٹل، بندوق اوراور خود کار رائفل بغیر لائسنس کے آپ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے ۔ اگر آپ بااثر زندگی گزارنے کے لیے دبدبے اور رعب داب میں یقین رکھتے ہیں تو پھر لازمی طور پر آپ کے پاس ریوالور اور رائفلیں ہونا چاہئیں۔ رعب داب کے بغیر آپ بااثر نہیں بن سکتے ۔ کوئی آپ کو ووٹ نہیں دےگا۔ آپ الیکشن میں بری طرح سے ہار جائیں گے اور آپ کی ضمانت ضبط ہوجائے گی ۔ وزیر بننے کا آپ کا خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ وزیر بننے کا خواب آپ تب دیکھتے ہیں جب آپ کے پاس ریوالور اور رائفلیں ہوتی ہیں اور آپ بااثر سمجھے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ پاکستان میں قوانین بڑے سخت ہیں۔ قانون یہ نہیں دیکھتا کہ آپ بااثر ہیں یا کہ بے اثر ہیں۔ غریبوں اور امیروں کے لیے یکساں قوانین ہیں۔ آپ قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکتے ۔ رائفلیں اور ریوالور رکھنے کے لیے آپ کے پاس لائسنس ہونا لازمی ہے۔ لائسنس تب بنتا ہے جب آپ کے پاس شناختی کارڈ ہوتا ہے۔ آپ شناختی کارڈ رکھنے کے حقدار تب بنتے ہیں جب آپ نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ہیں۔ ہم بڈھے یہ تمام باتیں اس لیے جانتے ہیں کہ ہم بڈھے جب بڈھے نہیں تھے تب ہم نے ایک ولولہ انگیز زندگی نوجوانی اور جوانی کے عالم میں گزاری تھی ۔

بڑھاپا عمر کے ہر دور سے مختلف ہوتا ہے۔ قطعی طور پر مختلف ہوتا ہے ۔ عمر کا ہر دور آتا ہےاور پھر کچھ عرصے کے بعد گزر جاتا ہے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود آپ عمر کے کسی ایک دور کو گزر جانے سے روک نہیں سکتے ۔ عمر کے کسی ایک دور سے چمٹے رہنے کی خواہش بچپن میں نہیں ہوتی، لڑکپن کے دور میں نہیں ہوتی ۔ اپنے دور سے چپکے رہنے کی خواہش نوجوانی اور جوانی میں شدت اختیار کرجاتی ہے۔ ہم جوانی میں نوجوانی سے چپکے رہنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ہم لباس نوجوانوں والا پہنتے ہیں۔ بال اور داڑھی نوجوانوں کے طرز کی بنواتے ہیں۔ حرکتیں بھی نوجوانوں والی کرتے ہیں۔ دفتر میں خواتین کولیگ پر ہم ظاہر ہونے نہیں دیتے کہ ہم شادی شدہ ہیں۔ ہمارے بچے بھی ہیں۔ ہم ان پر ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہم تو ابھی نوجوان ہیں۔جب جوانی آئے گی، تب شادی کا سوچیں گے ۔ مگر عمر کے گزرتے ہوئے دور کو کوئی روک نہیں سکتا۔ جوانی سے ادھیڑ عمر کا ہونے تک ہماری زندگی اسی تگ ودو میں گزر جاتی ہے کہ ہم جوان رہیں اور جوان نظر آئیں۔ جوانوں جیسےڈیزائنر ڈریسز پہننے اور بال کالے کرنے سے ہم جاتے ہوئےجوانی کے دور کوروک نہیں سکتے ۔ ادھیڑ عمر میں ہم جوان نظر آنے کی بھونڈی حرکتوں سے باز نہیں آتے۔ ہم کچھ بھی کرڈالیں، مگر ہم عمر کے آنے والے دور کے بعد جانے والے کسی دور کو روک نہیں سکتے ۔ عمر کا ہر دور آنے کے بعد گزر جاتا ہے،سوائے بڑھاپے کے۔ جاتے ہوئے بڑھاپا ہمیں اپنے ساتھ لے جاتا ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ بڑھاپے کا دور عمر کے دیگر ادوار سے مختلف ہوتا ہے۔آپ نے کبھی سوچا ہے کہ بڑھاپے میں اکثر لوگ کبڑے کیوں ہوجاتے ہیں۔ بہت بوجھ ہوتا ہے یادوں میں۔ تمام عمر اتنا کچھ دیکھا ہوا ہوتا ہے کہ ہم بوڑھوں کی بینائی کمزور پڑجاتی ہے۔ دیکھتے کچھ ہیں، مگر سجھائی کچھ اور دیتا ہے۔

پچھلے دنوں کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملہ ہوا تھا۔ دوتین روز تک ٹی وی چینلز پر مناظر دکھائے جاتےرہے تھے۔رینجرز اور پولیس فورس کے کمانڈوز ہر جگہ نظر آرہے تھے۔ تب میں نے دیکھا کہ سلمان خان بلٹ پروف جیکٹ پہنے ہوئے، پتلون کی پچھلی جیب میں ریوالور لگائے، سینہ تانے آرہا تھا۔ مجھے اچھا لگا۔ جنگجو ہمسایوں کے درمیان دوستی کا میں بہت بڑا داعی ہوں۔ مجھے دھچکا تب لگا جب میرے پوتے نے مجھے بتایا کہ جس شخص کو میں سلمان خان، دبنگ سمجھ رہا تھا ، وہ اصل میں فیصل واوڈا تھے ، آبی وسائل اور آبی پرندوں کے وزیر۔

تازہ ترین